سیاسی و سماجی
” ہیں عام ہمارے افسانے، دیوارِچمن سے زنداں تک "
عین اس وقت کہ جب ہندوستان صدیوں کی مسلمانی جاہ و سلطنت سے ہاتھ دھو چکا تھا، مسلمانان ہند کا سیاسی سر سبز وشاداب شجر حالات کے خزاں میں جھڑ چکا تھا، جب گردش دوراں کی چلچلاتی دھوپ سے جان و لب تشنگی میں مضطرب تھے،جب مسلمانان ہند کا حال صحرا کی ویرانی میں بھٹک رہا تھا، مستقبل بھی اسی تشنہ لبی اور اسی بے یار و مددگاری کی نذر ہونے والا تھا، تاریخ کے ایسے مغلق ترین باب پر آ کے مسلمانان ہند کی راہ نمائی کرنے والے اور انکی سیاسی اور مذہبی تشنگی کو دور کرنے والے خوبئ تقدیر سے، ایسے دو میخانے تھے جسے ہم، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃالعلماءلکھنو، کے نام نامی و اسم گرامی سے جانتے اور پہچانتے ہیں، ان میخانوں کے معماروں میں جہاں ایک طرف سالار کارواں میر جماعت امام اکبر حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، امام ربانی عارف الہی پیروں کی پیر ولیوں کے ولی حضرت مولانا رشیداحمد صاحب انصاری گنگوہی، حضرت شیخ الھند، حضرت حکیم الامت، حضرت علامہ کشمیری رحمھم اللہ جیسے علم و معرفت کے پیکر اور شراب طہور کے ساقی تھے؛
تو دوسری جانب، فراست مومن کی مثال سالار قوم حضرت علامہ محمد علی صاحب مونگیری، نابغہءروزگار شمس العلماء شیخ شبلی صاحب نعمانی، عظیم قلم کار مولانا عبدالحئ حسنی، امام العلوم علامہ سید سلیمان صاحب ندوی، حضرت مفکرالاسلام جیسے علوم ظاہرہ اور باطنہ کے حاملین کی جماعت تھی؛
روز اول سے یہ دو میخانے تشنگان کتاب و سنت کی خشک لبی، تر کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں،روز اول سے یہاں بزم ہاۓ رندانہ سجتی رہی ہے، اور ہند کے پیمانوں میں، شہر نبیؐ کی مے تقسیم ہوتی رہی ہے؛
اگر چہ ان میخانوں کی طرز تقسیم میں کچھ اختلاف ضرور ہے، یہاں کے ساقیوں اور یہاں کے پیاسوں میں نظریاتی اور فکری افتراق ضرور ہے، مگر دونوں کا مقصد ایک ہے، اور وہ ہے، جام توحید کی تقسیم، تشنگان وحدت پہ تنعیم، اور حفاظتِ دینِ مستقیم؛
مالک ارض سماوات سے دست بستہ عارض ہوں کہ اۓساقئ اجل! ہند کے ان دو میخانوں اور انسے نکلنےوالی دیگر شراب طہور کی صراحیوں کی حفاظت کریو! انکے ساقیوں کے خمیر میں اخوت کا عنصر غالب رکھیو! ان میخانوں کے متعدد قالب سہی، مگر جان ایک رکھیو! ان کے دیدہ و دل کی کتاب پر صرف ایک مقصد تحریر ہو اور وہ یہ کہ
"مری زندگی کا مقصد، ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی”