حیدرآباد و اطراف

نئی تعلیمی پالیسی اور مدارسِ دینیہ کے لئے لائحہ عمل سے متعلق علماء کرام کے اہم ترین مشورے

مؤرخہ ۱۵؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۱؍دسمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعرات بوقت ۱۲؍ بجے بصدارت حضرت شاہ جمال الرحمٰن صاحب بمقام اشرف ماڈل اسکول خواجہ باغ، سعیدآباد ایک اہم اجلاس منعقدا ہوا، فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نظامت فرمارہے تھے، سب سے پہلے مولانا عمرعابدین قاسمی مدنی دامت برکاتہم نے نئی پالیسی کے مدارسِ اسلامیہ پر مرتب ہونے والے اثرات کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
مدارس مکاتب کا واضح ذکر تو نہیں ہے، البتہ ایک لفظ ’’متبادل نوعیت کے ادارے‘‘ سے اشارہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مصداق مذہبی ادارے ہیں، مدارس میں سائنس، سماجی علوم، ریاضی، علاقائی زبان شاید شامل کرنا ضروری ہوجائے گا، انہیں عام اداروں میں انضمام کی دعوت دی جارہی ہے، قومی سطح پر امتحان اور احتساب ہوگا، اسی لئے اندیشہ ہے کہ دار العلوم دیوبند وغیرہ مرکزی دینی اداروں کا ایم۔ اے وغیرہ کا معادلہ ختم کردیا جائے گا، فارغین کو پھر امتحان کے بعد ہی درجہ بندی کی جاسکے گی، تعلیمی کیمپس میں اگر کوئی کمی ہوتی ہے تو دوسروں سے استفادہ کرنا ہوگا، اور اگر کسی مدرسہ میں لیب، کھیل کود کا میدان وغیرہ ہو تو دوسروں کو بھی اس سے استفادہ کا موقع دینا ہوگا۔
آمد وخرچ کے مالیاتی نظام کو عوامی سطح پر کھلا رکھنا ہوگا، اگر پالیسی کا درجہ ایکٹ اور قانون کا نہیں ہوتا، شفارشات وتجاویز کا درجہ ہوتا ہے، مرحلہ وار قوانین بنتے ہیں، کئی سال میں تنفیذ عمل میں آتی ہے، کلچرل ایکٹی ویٹی کے نام پر مورتیوں کی ڈرائنگ سکھائی جائے گی، چوں کہ ملک کے اکثر باشندے زیرو سے ۲۴؍ سال تک کے ۴۵% ہیں، اس لئے انہوں نے ان سب کے لئے خاص ذہن بنانے کا تعلیمی نظام پیش کیا ہے، پری پرائمری ایجوکیشن کے ذریعہ ماں کو تربیت دی جائے گی کہ کیسے پرورش کرنا ہے، سلوگن دیا گیا ’’ہمارا کلچر، ’’اعلیٰ ترین کلچر‘‘ ۳؍ گریڈ ۵؍ گریڈ ۸؍ گریڈ ۱۰؍ گریڈ ۱۲؍ گریڈ کا ملکی سطح پر امتحان ہوگا، رضا کار ٹیچرس تیار ہیں کمزور اسکولوں کی تعلیمی نظام میں مدد کرنے کے لئے۔
بھائی عرفان آئی ٹی انجینئر نے مختصر انداز میں پالیسی کے مدارس پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو بیان کیا، پھر مولانا محمد عبد القوی صاحب دامت برکاتہم سے حل سے متعلق گفتگو کرنے کی درخواست کی گئی، انہوں نے فرمایا:
پالیسی کے نفاذ سے پہلے ہمیں سونچنا چاہئے کہ مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کا کیا نظام ہوسکتا ہے، عربی سوم میں دسویں جماعت کا امتحان دلادیاجائے تو بہتر ہے، ہمارے یہاں اس طرح کا تجربہ یہ چل رہا ہے، طلبہ کے مدارس میں داخلہ کی عمر طے ہونا چاہئے، حفظ میں ۱۷؍ ۱۸؍ سال کی عمر ضائع نہ کی جائے، خالص دینی علم سے علماء عوام کے مزاج ورجحان اور زمانہ کو مکمل نہیں سمجھ پائیں گے، دینی تعلیم اور عصری تعلیم کا مخلوط نظام اگر بنتا ہے تو ہمارے مدارس میں یکساں بننا چاہئے، ورنہ ایک مدرسہ چھوڑ کر لوگ دوسرے دینی مدرسہ کا رخ کریں گے، عصری علوم سے بچنے کے لئے سرپرستوں کی ذہن سازی کی ضرورت بہت محسو س ہورہی ہے، حفظ میں ۲۵؍ سال رکھنے پر مصر ہیں، مگر عالمیت میں داخلہ کروانے کے مشورہ کو قبول نہیں کررہے ہیں، ان سب کاموں کے لئے مدارس کا ایک وفاق بن جائے اور اس کے تحت ایک متفقہ نظام ونصاب کا علان ہوجائے۔
حضرت مولانا عبید الرحمٰن اطہر قاسمی ندوی دامت برکاتہم نے فرمایا:
مولانا عبد القوی صاحب کی تمام باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ دسویں کی سند کے بغیر ملک میں ڈرائیونگ لائسنس نہیں بن سکے گا، پاسپورٹ ان پڑھ آدمی کا لکھا جائے گا، قدیم نظام میں پانچویں جماعت تک ہمیں اختیارات تھے، تیسری جماعت سے پہلے ہماری نسلوں پر بھرپوری ذہن سازی کی محنت کرنا ضروری ہے۔
قاری امیر حسن صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ نپولین کے پاس ایک ماں اپنے بچہ کو تربیت کے لئے لے کر آئی، نپولین نے پوچھا عمر کیا ہے؟ ماں نے کہا: چھ سال! نپولین نے کہا: لے جاؤ، تربیت کی عمر ختم ہوچکی، مدرسہ میں عصری علوم فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ پڑھا کہ ہم کلچر کی حفاظت اچھی طرح کرسکیں گے، اسکول کے نام پر ادارے کھول کر تہذیب کی حفاظت مشکل ہے۔
مفتی جمال الدین صاحب قاسمی، صدر مفتی دار العلوم حیدرآباد نے فرمایا: مکاتب کو مؤثر اور منظم کرنے کی ضرورت ہے، اس تعلیمی پالیسی کے مضر اثرات کے تئیں جس قدر اہل مدارس کو توجہ دینا چاہئے اس قدر توجہ نہیں مل پارہی ہے۔
مولانا انس قاسمی صاحب (جامعہ عائشہ نسواں حیدرآباد) نے کہا:
صرف مدارس میں محنت ناکافی ہے؛ کیوں کہ مدارس میں قوم کے دو فیصد لوگ ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اسکول کو نشانہ بناکر محنت کرنا بہتر ہے۔
حافظ غوث رشیدی دامت برکاتہم اور ان کے نمائندہ مفتی محمد زکریا صاحب نے فرمایا:
الحمد للہ تجوید القرآن ویلفئیر اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ عرصہ سے ایسا نظام بناچکا ہے جس سے ناظرہ حفظ سے مسلسل عصری نظام بھی جوڑ دیا گیا ، اور ہم اپنے ادارے کے تحت مکاتب بھی چلارہے ہیں۔
مولانا معراج الدین ابرار صاحب (جامعہ انوار الہدیٰ، حیدرآباد)
مجھے آپ تمام حضرات کے مشوروں سے اتفاق ہے، الحمدللہ اس لاک ڈاؤن میں بھی تمام علماء وحفاظ بڑی راحت سے ہیں، کوئی خود کشی نہیں کررہا ہے،۹۸% ؍اسکولوں میں پڑھنے کی فکر کرنا زیادہ ضروری ہے۔
مفتی غیاث الدین صاحب رحمانی دامت برکاتہم نے فرمایا:
رابطۂ مدارس عربیہ کے جوڑ میں دار العلوم دیوبند سفارش کررہا ہے کہ اپنے بجٹ کا ۱۰%؍ ۲۰%؍ حصہ مکاتب پر خرچ کرنا چاہئے؛ لیکن کون عمل کررہاہے، وفاق ہونا چاہئے، مگر اس کو توڑنے والے ہم ہی لوگ ہوتے ہیں، وفاق کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں اپنے متعلقین وغیرہ کی کوئی رعایت نہیں کرنا چاہئے، کہیں اول دوم کی جماعت بھی نہیں؛ لیکن افتاء کھول دیے ہیں، ہم بڑے ان کے جلسوں میں شرکت کررہے ہیں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے افتتاحی خطاب میں اور وقفہ وقفہ سے فرماتے رہے:
ایک انگریز نے کہا ہے کہ ملک کی قسمت حکومت کی ایوانوں میں نہیں بلکہ اسکول کے کلاس روم میں بنتی ہے، حکومت کی پالیسیوں سے مدارس اور اہل علم لاتعلق نہیں رہ سکتے ہیں، مدارس میں آنے والا طبقہ ۲؍ فیصد یا ۹؍ فیصد ہے، مگر قوم کی قیادت وہی کررہا ہے، علماء کرام کا خدام دین کا برسرروزگار رہنا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ لوگ واقعی وہ مواد قوم کو دے رہے ہیں جو دینا چاہئے یا نہیں، جب کوئی چیز قانون بن جاتی ہے تو تمام لوگ خود بخود عمل کرنے لگ جاتے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ وفاق ہونا چاہئے اور سب کو اس سے ملحق ہوکر کام کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں مشورہ بعد میں کرلیں گے، البتہ مولانا عمر عابدین کنوینر اور مفتی احسان صدیقی صاحب اشرف العلوم حیدرآباد، مفتی زکریا صاحب (تجوید القرآن، عنبر پیٹھ)، مفتی انس صاحب (عائشہ نسواں) یہ کمیٹی تمام تجربات کو جمع کرکے جلد از جلد اکابر علماء کرام کی بیٹھک کروائیں، ویسے تفصیلی جزئیات کا علم تو تنفیذ کے وقت ماہ مارچ میں پتہ چل جائے گا، ابھی سے ہم تیار رہیں۔
معلمین کو تربیت دینا چاہئے کہ وہ مضامین تعلیم، نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم میں پائے جانے والے مضر اثرات کا علاج کرتے ہوئے کیسے پڑھائیں، یہ کمیٹی بتلائے کہ کس جماعت سے کتنی گھنٹیاں، کس جماعت تک مدارس میں لگائی جاسکتی ہیں، عصری تعلیم کے اداروں کو بعد میں کسی وقت بلا لیا جائے گا کہ انہیں کیسے سنبھالا جائے، وقتی مکاتب واقعی مناسب حل ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×