اسلامیات

مسلم لڑکیوں کا ارتداد : اسباب و سدباب

انسان پر خالقِ ارض وسماء کے لاتحصیٰ انعامات اور ان گنت احسانات ہیں، منجملہ یہ کہ سب سے عظیم دولت اور مہتم بالشان نعمت” ایمان "ہے، یہی وجہ ہے کہ روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی اورنعمت موجود ہے نہ اس کے برابر کوئی دولت.
اسلامی نقطۂ نظر سے ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس اور جملہ جد و جہد اور کدوکاوش کی شاہِ کلید ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے بغیر ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی، کیونکہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی آثار و نتائج کے اعتبار سے بے ثمر ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول ہی ہمارے اعمال کی غرض و غایت ہے؛ کیوں کہ
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
لوجہاد حقائق کی دنیا میں:
جس طرح قبولِ اسلام سعادتِ دارین کا باعث اور خیر وبرکت کا ذریعہ ہے ، اسی طرح قبولِ اسلام کے بعد اس سے پھر جانا اور کفر کی طرف لوٹ جانا انتہائی سنگین جرم اور بدترین گناہ کی بات ہے ،اسلام کی نظر میں مرتد اور زندیق مطلق کافر سے بھی بدتر ہے، مطلق کافر سے تو لین دین، معاملات کرنا جائز ہے لیکن مرتد کافر اور زندیق کافر سے کسی بھی طرح کا لین دین اور معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے؛
لیکن حیف صد حیف کہ آئے دن وطنِ عزیز میں حالات بدلتے جارہے ہیں، روزبروز مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچی جارہی ہے، ہر چہار سو زہریلی ہوائیں چلائی جارہی ہے، اسلام دشمن طاقتیں پورے زور وشور سے ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کررہی ہیں، کبھی ہماری شریعت میں مداخلت کرکے تو کبھی ہمارے ایمان سوزی کے ذریعہ ، چنانچہ ان کی ایک ناپاک اور گھناؤنی سازش ” لوجہاد” بھی ہے، لوجہاد وہ مکروہ شیطانی منصوبہ ہے جسے ملک کی فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتی آئی ہیں، ملک میں لوجہاد نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، یہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے اور برادرانِ وطن کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے اس کا خوب حوا کھڑا کیا جاتا ہے،
چنانچہ ۲۰۱۳ء میں برسراقتدار جماعت نے لو جہاد کے موضوع کوسیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا،اور یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ مسلم نوجوان، ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں گرفتار کرکے ان سے شادی رچا کرتبدیلی مذہب پر مجبور کرتے ہیں؛جس کا نتیجہ صرف اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں ۶۲ لوگوں کے قتل عام اور ہزاروں افراد کی نقل مکانی کی صورت میں رونما ہوا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لو جہاد کا یہ شوشہ محض اس لیے چھوڑ ا گیا ؛ تاکہ ہندو جوانوں کا خون گرمایاجائے ،انہیں تشدد پر آمادہ کیاجائے اور ان کی مدد سے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کا کھیل کھیلاجائے،جس میں انہیں بہ تدریج کامیابی حاصل ہوتی جارہی ہے اور ملک کے طول وعرض سے دختران ملت کے مرتدہونے کی خبریں تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیں ۔العیاذ باللہ
چنانچہ اس کی کچھ تفصیل سطور ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں جو حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی مدظلہ کی تحریر سے مقتبس و ماخوذ ہے: ” ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۰ ء کے روز نامہ منصف کے سنڈے ایڈیشن نقوش میں ریاض فردوسی صاحب کا اس حوالہ سے ایک چونکا دینے والا مضمون شائع ہوا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں بھگوا تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے اور دامِ محبت میں پھانس کر ان کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچانے کی مہم کس شدت کے ساتھ چلارہی ہیں، مضمون نگار کے مطابق ۲۰۲۰ء میں ممبئی تھانہ بھونڈی ممبرا سے کورٹ میریج کے لیے کورٹ میریج رجسٹرار کی آفس میں ۱۴۰ مسلم لڑکیوں نے ہندو لڑکوں سے شادی کرنے کی درخواست دی، مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مسلم خواتین گھر سے بھاگ رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچار ہی ہیں، اور ہم مسلمان گڑبڑ میں ہیں، آگے مضمون نگار مختلف شہروں میں غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچانے والی مسلم لڑکیوں کے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چنئی ۵۱۸۰۔ کوئمبتور ۱۲۲۴۰۔ ترچی ۱۴۷۰۔ مدورائی ۲۴۳۰۔ سیلم ۷۴۰۔ حیدرآباد ۳۵۰۰۔ گجرات ۲۵۰۰۔مہاراشٹر ۵۰۰۔ یوپی میں سب سے زیادہ ہیں جہاں غازی آباد میں ۵۰۰ ۔ باغپت سے ۱۲۷۰۔ میرٹھ سے ۹۷۰۔ کانپور ۳۸۹۰۔ بنگال میں ۱۲۰۹۰۔ پچھلے تین سالوں میں مجموعی طور پر ۱۵۰۰۰۰ سے زیادہ مسلم لڑ کیوں نے غیر مسلم مردوں سے شادی کی ہیں۔”
اس کے خلاف بر وقت کاروائی کرنا ہی عدل و انصاف کا تقاضہ اور انسانیت کی حیات کے لئے عملی قدم ہے۔
بین المذاھب شادیوں کے نقصانات :
بہرحال اس میں تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں کہ مشرک مرد سے مسلمان عورت کا یا مشرک عورت سے مسلم مرد کا نکاح نہیں ہوسکتا، افسوس کہ اس روشن حقیقت کے باوجود اس وقت فرقہ پرست طاقتوں نے ”لَوْ جہاد” کا افسانہ چھیڑ رکھا ہے، حالانکہ اسلام کی نظر میں یہ نکاح ہے ہی نہیں؛ کیوں کہ نکاح کے مبادیات اور اساسی امور میں سے اتحادِ مذہب بھی ہے،بین المذاھب شادی در اصل ایک نامعقول عمل اور بے جوڑ رشتہ ہے، اس لئے کہ بین المذاھب شادی کی وجہ سے بے شمار نقصانات اور خرابیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ ایک سمجھتا ہو کہ وہ ایک ہی معبودِ حقیقی و مسجودِ اصلی کا بندہ ہو  اور دوسرے کی پیشانی پر ہر مخلوق کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا داغ نمایاں ہو، تو ان دونوں میں کیسے فکری ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے؟ یہ تو ممکن ہے کہ جذبات کی رو میں دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد و عورت ایک دوسرے سے ازدواجی رشتہ کے بندھن میں بندھ جائیں؛ لیکن جوں جوں وقت گذرتا جائے گا، فاصلے بڑھتے جائیں گے، دونوں کو بچوں کے بارے میں بھی کھنچاؤ پیدا ہوگا، دونوں کی خواہش ہوگی کہ بچے اُس مذہب کی طرف جائیں، جس پر وہ یقین رکھتے ہیں، ان بچوں کی شادی بیاہ کا مسئلہ بھی کچھ کم دشوار نہ ہوگا؛ کیوں کہ دونوں سماج میں سے کوئی بھی ان کو اپنے اندر جذب کرنا نہیں چاہے گا اورہمیشہ دادیہال اور نانیہال دونوں طرف سے اجنبیت کی دیوار کھڑی رہے گی؛ اس لئے اسلام نے بنیادی طور پر مسلم وغیر مسلم کے درمیان نکاح کی اجازت نہیں دی ہے۔
دخترانِ ملت کے ارتداد کی وجوہات: جو لڑکیاں اس کا سازش کا شکار ہوکر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھی وہ درحقیقت مسلم معاشرہ کے لئے انتہائی شرمندگی اور رسوائی کی بات ہے، ایک غیرت مند آدمی کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے، لیکن افسوس ہے کہ ایک بڑی تعداد  ارتداد کی اس لہر میں بہہ گئی، اور اس کی جو  بنیادی وجوہات ہے اسے ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں : (١) دینی تعلیم سے دوری : نہ بنیادی عقائد کا کوئی علم ہے نہ ہی اسلاف و اکابر کی زندگی کا نمونہ، نہ ہی عبادت کا کوئی  ذوق ہے اور نہ ہی تعلیم وتربیت کا کوئی جذبہ؛ حالانکہ بقدرِضرورت‌ (دینی) علم کا حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔
(٢) والدین کی بے توجہی و لاپرواہی: آج ہر کوئی بس عدیم الفرصتی کا شکوہ کررہا ہے، اولاد کے لیے وقت فارغ کرکے ان کی تعلیم وتربیت کی فکر کرنے کا موقع ہی نہیں؛ حالانکہ ان کی صحیح تربیت کرنا بےحد ضروری ہے، ورنہ روزِ قیامت والدین سے مواخذہ ہوگا،
(٣) بےجا آزادی : بچوں کی ہر خواہش اور ہر مطالبہ کو (اس کی صحت و نقصان کو بغیر ) پورا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے، آزادی کے نام پر وہ دولتِ ایمان سے برگشتہ ہورہے ہیں، غلط صحبت، اور اسمارٹ فون کا ناروا استعمال اس کا بنیادی سبب ہے، والدین کو چاہیے کہ اولاد کی صحیح تربیت کے لئے ان پر شکاری جیسی نظر رکھیں! ۔
(٤) مخلوط تعلیمی نظام: اس بگاڑ کا سب سے زیادہ مؤثر سبب مخلوط تعلیم ہے، تعلیم کے نام پر بےحیائی و عصمت باختگی، اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے، اور مقصد یہ ہے کہ قومِ مسلم بھی مجموعی طور پر عریانیت کی بھینٹ چڑھ جائے، اسی مخلوط تعلیم کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے بہت خوب کہا:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے بےزن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
(٥) شادیوں میں تاخیر اور جہیز کا ستم ارتداد کی ایک اہم ترین وجہ اور اس کا بڑا سبب ہے.  جہیز کی طویل فہرست، جوڑے کی رقم، بےجا مطالبات کی شدت اور لین دین کی حرص نے لڑکیوں کو گھر بیٹھنے پر مجبور کردیا، وہ ماں باپ جو بمشکل وہ اپنے افراد خاندان کو دو وقت کی روٹی فراہم کرپاتے ہیں گھر میں بیٹھی جوان تین تین بچیوں کے لئے جہیز، جوڑے کی رقم اور عقد میں دوچار سو افراد کے لئے معیاری کھانے کا نظم کہاں سے کرسکیں گے، لڑکی کے بوڑھے ماں باپ ان درندہ صفت لوگوں کے ناجائز مطالبات پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ بھلا کون اس گھر کی بچی کو اپنی بہو بنانا پسند کرے گا، بچیوں کی شادیوں کے لئے باپ کے ساتھ ماں بھی گھروں میں خدمت کرنے اور مالداروں کے طعنہ سننے پر مجبور ہوجاتی ہے،یہ سب جہیز کی اسی بھیک کا نتیجہ ہے؛لیکن پھرجب لڑکیوں کو  اپنا ہمسفر دکھائی نہیں دیتا تو پھر یہ مجبور ہوکر یا تو غیروں کی طرف رخ کرتی ہیں یا پھر اسلام دشمن طاقتیں اس کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے جال میں پھانس دیتے ہیں ،ماں باپ بیچارے مارے شرم کے زمین میں گڑجاتے ہیں ، شادی کی رسومات اور لین دین کی لعنت نے بچیوں کو مرتد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔
دشمنوں کی جانب سے ارتداد کی تراکیب اور شکلیں : (١) باضابطہ منظم طور پر ہندو جماعت کی تربیت یافتہ ٹیم پیار ومحبت کے نام پر لڑکیوں کو اپنے دام فریب میں پھنساتی ہے، پھر بعد میں شادی رچا کر ان کے ساتھ درندوں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہے،
(٢) جو لڑکیاں ان کے قابو میں نہیں آتی تو کچھ غیرمسلم لڑکیاں ان سے دوستی کرکے ان لڑکوں سے ملادیتی ہے جو لڑکیاں دراصل ان غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ ہوتی ہیں، پھر وہ مختلف طریقوں سے انہیں ترک‌ِ ایمان پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔
(٣) موبائل اور زیراکس کی دکانوں کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کے نمبر اور ان کی تصویریں اور دوسری معلومات ان کمبخت نوجوانوں تک پہنچائی جارہی ہے۔
(٤) جو گھرانے تنگدستی کا شکار ہوتے ہیں، تو ان کی ضرورت اور مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے "بھیڑ کی کھال اوڑھ کر” ان کی امداد کرتے ہیں پھر ان سے قربت اختیار کرتے ہوئے ان کے دامنِ عفت کو داغ دار کردیتے ہیں۔
(٥) ان کی ایک سازش یہ بھی ہے کہ وہ بھولی بھالی لڑکیوں کی اس طرح ذہن سازی کرتے ہیں کہ تمہارے آباؤ اجداد بھی ہندو ہی تھے، ان کو پہچاننے اور ان پر فخر کرنے کی دعوت دیتے ہیں؛ تاکہ وہ بھی تبدیلی مذہب پر مجبور ہوجائیں۔
لائحہ عمل اور تدابیر : موجودہ دور میں تمام تر دینی و دعوتی سرگرمیوں کے باوجود آئے دن ارتدادی سرگرمیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، ارتداد کے اس سیلاب پر کیسے قدغن لگایا جائے یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے، چنانچہ اکابرِ امت کی تحاریر سے ماخوذ تدابیر مع حذف واضافہ کے ذکرکی جاتی ہے،
(١) اولاً یومیہ پوری پابندی سے گھریلو تعلیم کا نظام بنائے اور دخترانِ ملت کو حیاداری، عفت و عصمت کی حفاظت کاجذبہ،اورعقیدہ توحید و رسالت کی عظمت سے آشنا کرائیں، اسلامی تعلیمات اور مبادیاتِ دین کی تعلیم دیتے ہوئے صحابہ کرام و تابعین عظام کی پُرمشقت زندگی سے واقف کرانا از بس ضروری ہے،
(۲) حتیٰ الامکان مخلوط نظامِ تعلیم سے اپنے نونہالوں کو بچایا جائے، اور علاقہ کے چند بااثر لوگ اس پر سنجیدگی سے سوچیں کہ ہم کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے؛ مگر دین ایمان کی سلامتی اور عزت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ اس کےلیے ایسا نظام تعلیم تیار کریں،جو دونوں اعتبار سے مفید اور کارآمد ہو۔
(۳) جو لڑکیاں عصری تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہے،ان کی دینی تعلیم وتربیت اورذہن سازی کی بھرپور کوشش کی جائے، کسی عالمہ سے تعلق قائم کیا جائے۔
(۴) ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے،کسی ٹیچر یاساتھی کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت سے بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے، کالج لانے لے جانے کی خود ذمہ داری لیں۔
(۵) اسمارٹ فون اور بائک خرید کر نہ دی جائے، یہ دونوں چیزیں بے حیائی کے دروازے کھولنے والی ہیں۔
(۶) موبائیل ریچارج یازیراکس کے لیے غیرمسلموں کی دوکان پرجانے میں احتیاط کی جائے، اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیرمسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت دی جائے۔
(۷) نیز غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے کہ آئندہ یہ دوستی بھی کسی خسران کا باعث نہ بن جائے۔
(۸) بچیوں کے مسائل اور ان کو پیش آنے والی پریشانیوں پر توجہ دی جائے، یاد رکھیں! گھر میں توجہ کی کمی باہر کا راستہ دکھاتی ہے۔
(٩) جو بچیاں اس کا شکار ہوگئی ہے ان کی ذہن سازی کی جائے، ہمدردی کا سلوک کیا جائے،پھر توبہ کرا کر کسی مسلمان سے شادی کرا دی جائے؛ تاکہ وہ آئندہ اس طرح کے گناہوں سے بچ سکے۔
خلاصۂ تحریر: آج یہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے پہلے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا کہ ہماری بچیاں مسلم معاشرہ میں پل بڑھ کر غیرمسلموں کے ساتھ اپنی زندگی گذارنے کےلئے ضد کریں گی، لیکن افسوس کہ اگر ہم نے اس سلسلے میں غفلت برتی تو پھر وہ دن دور نہیں کہ ہمارا گھر بھی اس سیلاب کی زد میں آجائے
نہ عشق با ادب رہا، نہ حسن میں حیا رہی
ہوس کی دھوم دھام ہے، نگر نگر، گلی گلی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×