اسلامیات

تن درستی ہزار نعمت ہے

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر وسناں اول ،طاؤس ورباب آخر

انسان کو اس دنیا میں جو بھی نعمتیں میسر ہیں ، وہ اس کے لئے بہت ہی نفع بخش اور کار آمد ہیں ، لیکن انہیں میں سے ایک "صحت و تندرستی” بھی ہے جوکہ من جانب اللہ ایک نعمتِ عظمیٰ اور غنیمت کبریٰ ہے ، زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا کردار جزءِ لاینفک ہے ، اس کے بغیر خوشیوں اور مسرتوں کے حسین مواقع بھی  بے رونق اور بے لطف محسوس ہوا کرتے ہیں ، لہٰذا جب صحت و تندرستی ایسی ایک عظیم الشان نعمت اور بیش بہا تحفۂ خداوندی ہے تو اس کے تشکر و امتنان کا تقاضہ ہے کہ اس کی صحیح اور کامل طور پر قدر کی جائے ، اور اس کو درست و سازگار بنانے کی کوشش کی جائے ،
اسکا ایک بہت ہی مفید اور بہترین ذریعہ ورزش اور ایکسر سائز ہے ، جسکی وجہ سے جسم متحرک اور ذہن ودماغ پُرسکون اور مطمئن رہتا ہے ، جس کے سبب ہر کام صحیح ڈھنگ سے انجام پاتا ہے ، حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے ، بہر کیف طاقت و قوت زندگی کے ہر موڑ پر ازحد ضروری ہے ۔
صحت و ورزش اسلام کی نظر میں : طاقت و قوت کی اہمیت صرف معاشرہ اور سماج  ہی میں نہیں ؛ بلکہ اسلام میں بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا  ” المؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف ” ( رواه مسلم ) یعنی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قوی اور طاقتور مسلمان ضعیف و ناتواں مسلمان سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے”
اس حدیث میں بالکل واضح اور کھلے انداز میں طاقتور کو کمزور و ناتواں سے بہتر اور افضل قرار دیا گیا ، کیونکہ تمام عبادات و معاملات میں صحت اور توانائی کو بڑا دخل ہے ،
پس معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں صحت و تندرستی، ہشاش بشاش اور چاق و چوبند رہنا ہی نہایت محبوب و مطلوب ہے، اور سستی وکاہلی ، لاپرواہی و آرام طلبی مبغوض و ناپسند ہے ،  یہی وجہ ہے کہ خود  رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے تعلق سے یہ حکم دیا ہے : کہ
"تم اپنے بچوں کو تیراکی، تیر چلانا اور گھوڑ سواری سکھاؤ۔”
یہ وہ عمدہ اوصاف  اور قابلِ قدر صفات ہیں جس کی اسلام اپنے پیروکاروں  کو ترغیب دیتا ہے، جسکی انسانی زندگی میں بہت ضرورت بھی ہے ؛ کیوں کہ اضطرابی حالات اور ناگہانی صورتحال میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے  ، نیز یہ سب اس وجہ سے بھی ہے کہ انسان پر اس کے جسم کا حق بھی ہے
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے ایک موقع پر فرمایا کہ ” لجسدک علیک حق ” ( صحیح البخاری :٦١٣٤ ) تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے ۔
لہٰذا ہمیں چاہیےکہ ہم اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں اور اسے نقصان دہ اور ضرر رساں امور و عوامل سے بچائیں ؛ تاکہ صحت جیسی نعمتِ عظمیٰ کی ناشکری نہ ہو ، اور زوال نعمت کے بعد کفِ افسوس ملنا پڑے !
نیز حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہلِ شام کو خط لکھا کہ اپنی اولاد کو تیراکی اور گھڑ سواری سکھاؤ۔ (در منثور، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۸۶)
ہماری صورتحال :  اسلام نے صحت و ورزش کے تعلق سے جتنی ترغیب دی ہے  اتنی ہی بے توجہی و لاپرواہی ہماری جانب سے پائی جاتی ہے ، روز مرہ کی زندگی یوں ہی مشغولیتوں میں گزر رہی ہے ، نہ محنت و مجاہدہ کا کوئی ذوق ہے اور نہ ہی ورزش وریاضت کی کوئی لگن، اس لئے کہ ہم تو بس آرام طلبی اور راحت خواہی کے خوگر ہو گئے ہیں ، بس گھر سے آفس ، آفس سے گھر ، مکان سے دکان، دکان سے مکان، مسجد سے مدرسہ ، مدرسہ سے مسجد، گھر سے اسکول، اسکول سے ٹیوشن بس اتنا ہی کام ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کردیا ؛ حالاں کہ زندگی کے ہر موڑ پر، ہر شعبہ میں صحت کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے ، اور صحت کے لیے ورزش و ریاضت بھی بے حد لازم ہے ؛ لیکن اس کی طرف کوئی التفات ہی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : نعمتان  مغبون فيهما كثير من الناس ( بخاری : ٦٤١٢۔ مشکوٰۃ : ٤/١٠٨١ ) یعنی ’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘
نیز صحت و تندرستی ہزار نعمت ہے ، جان ہے تو جہاں ہے ، لہذا نعمت کی موجودگی میں ہی اس کی حفاظت اور قدرکرنا عقل مندی کا تقاضہ اور دانشمندی کی نشانی ہے .
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تن درستی ہزار نعمت ہے ۔
ورزش کے فوائد و ثمرات : ورزش محض تحرکِ بدن کا ذریعہ ہی نہیں ؛ بلکہ وہ بےشمار فوائد اور بےحد منافع کا سبب بھی ہے ،  ذیل میں چند فوائد ذکر کیے جاتے ہیں مثلاً : (١) جسم کو مضبوطی اور توانائی ملتی ہے ،
(٢) ذہنی سکون اور طمانیت بخش کا باعث ہے ،
(٣) معدہ اور جگر کا نظام صحیح چلتا رہتا ہے ،
(٤) قوتِ برداشت میں اضافہ ہوتا ہے ،
(٥) خون کی رفتار بڑھ جاتی ہے ،
(٦) ہڈیاں مضبوط ہوجاتی ہے ،
(٧) بلڈ پریشر،  ذیابیطس اور کینسر جیسے امراض سے بچاؤ کا ذریعہ ہے ،
(٨) بہت کم بیماریوں کا شکار ہوتا ہے ،
(٩) کاہلی وسستی اور اضمحلال دور ہو جاتا ہے ،
(١٠) نشاط و جستی اور تروتازگی رہتی ہے ، وغیرہ ۔
ورزش نہ کرنے کے نقصانات : ورزش و ریاضت کا اہتمام کرنے سے جہاں بے شمار فوائد کا حصول ممکن ہے ، تو وہیں اس سے بے التفاتی و بے توجہی بہت سے نقصانات کا باعث بھی ہے ، چنانچہ (١) بہت جلد تھکان ہوجاتی ہے،
(٢) اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں ،
(٣) معمولی کام سے بھی سانس پھولنے لگتی ہے ،
(٤) ہاضمہ صحیح نہیں رہتا ،
(٥) موٹاپا لاحق ہوجاتا ہے ،
(٦) دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی ہوجاتی ہے ،
(٧)  بہت جلدی کمزوری اور ضعف کا شکار ہوجاتا ہے ،
(٨) جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے ،
(٩) عموماً پیٹ بڑھ جاتا ہے ،
(١٠) قوتِ مدافعت ماند پڑجاتی ہے ، وغیرہ ۔
ورزش کے انواع و طرق : ورزش ایک عام لفظ ہے ، جو کئی طرح کی ایکسے سائز کو شامل ہے ، مثلاً (١) مختلف کھیل ( جیسے فٹ بال ، باسکٹ بال ، ہاکی ، کرکٹ وغیرہ ) کھیلنا ،
(٢) چہل قدمی اور واکنگ کرنا ،
(٣) تیراکی اور سوئمنگ کرنا ،
(٤) سائیکل چلانا ،
(٥) رسی کھیلنا ،
(٦) کراٹے سیکھنا ،
(٧) جِم کرنا ،
(٨) ہاتھ پیر ہلانے سے متعلق جو معروف ایکسے سائز ہے وہ کرنا ،
(٩) وزنی اور بھاری چیزوں کو اٹھانا ،
(١٠) مزدوری اور حمالی کرنا ،
(١١) دوڑ اور ریس لگانا ہے، وغیرہ ۔

خلاصۂ تحریر : جب اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے صحت جیسی عظیم الشان نعمت بطورِ تحفہ دی ہے تو اس کی قدر کرنا اور اس کی حفاظت کرنا تشکر کا مقتضی ہے ، اور وہ اس طرح کہ آرام طلبی کو چھوڑ کر ورزش و ریاضت کا اہتمام کریں ؛ اس لیے کہ یہ جسمانی حقوق میں سے ہے ، نیز اسلامی تعلیمات بھی اس کی  ترغیب و تعلیم دیتی ہے ، یا پھر کم از کم اپنے آپ پر رحم کرتے ہوئے ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں ، مختصر یہ کہ

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×