اسلامیات

خیال رزق ہے رزاق کا خیال نہیں

اللہ رب العزت والجلال نے انسان کو اس دنیا میں جن عظیم نعمتوں سے سرفراز فرمایا ،اور جن کے ذریعے انسان اپنی ضروریات کی تکمیل،اور اپنی مشکلات کا حل نکال سکتا ہے،انہی میں ایک عظیم نعمت مال بھی ہے،جو دنیا میں انسان کے لیے جینے کا سہارا، اور اس کے بقاء کا ناگزیر بذریعہ ہے،اور آخرت میں بھی اجروثواب اور گناہوں کی تلافی کا باعث ہے،مثلا صدقہ جس طرح عبادت ہے،اسی طرح گناہوں کےلئے کفارہ بھی ہے،اور یہ مال انسان کے لئے وجہ قیام ضروری ہے،لیکن عزت کا معیار نہیں،بلکہ اس کی محبت قعر عمیق میں دھکیل دیتی ہے،البتہ دین اسلام کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہو وہ حلال شمار ہوگا،اسلام نے اپنے پیروکاروں کو جہاں حلال کمائی کی ترغیب دی،تو وہیں حرام سے بچنے کی تعلیم بھی دی ہے ،کسب حلال کے لئے اسلام نے ذرائع و وسائل کو جائز اور مشروع قرار دیا وہ یہ ہیں: تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، ملازمت و نوکری، اور دستکاری و مزدوری وغیرہ ،
کسب حلال کی فضیلت:۔ مال جیساکہ انسانی زندگی کا اہم جز اور حیات بشری کا اہم حصہ ہے ،اگر اس کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کیا جائے،تو یہ انسان کے لئے سود مند اور نفع بخش ثابت ہوگا،حلال مال ہیں دین و دنیا میں سرخروئی کا ذریعہ ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی (حلال) پیشہ کرنے والے مومن سے محبت کرتے ہیں،( الشعب الایمان :١٢٣٧) ایک اور روایت میں نبی علیہ السلام نے فرمایا ،سچ بولنے والا امانت دار تاجر (قیامت میں) پیغمبروں اور ولیوں شہیدوں  کے ساتھ ہوگا،( ترمذی : ١٢٠٩)ایک اور حدیث میں فرمایاکہ اچھا مال اچھے آدمی کے لیے اچھی چیز ہے،( مجمع الزوائد )کسب حلال سے مال میں برکت ہوتی ہے ، عزت نفس پیدا ہوتی ہے ، حلال کمانے والے کا ضمیر مطمئن رہتا ہے ، اسے سکون قلب نصیب ہوتا ہے،رزق  حلال عین عبادت بھی ہے ،  ان سب سے بڑھ کر حلال کمانا فرائض کے بعد سب سے بڑا فرض ہے ، ( شعب الایمان : ٨٧٤١ )
حرام کی مذمت : جب انسان کسب حلال کو نظر انداز کر دیتا ہے ،صبر و قناعت،زہد و ایثار،اور  جفا کشی کے بجائے حرص و ہوس اور عیش کوشی کو اپنا مطمح نظر بنا لیتا ہے،تو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی برکت ختم ہو جاتی ہے،اور اگر آدمی اس حرام مال کو صدقہ بھی کرے تو رائیگاں ہو جائے گا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ حرام مال کما کر جب اس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرتا ہے، تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا،اسی طرح جب وہ اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے تو اس میں اس کے لئے برکت پیدا نہیں کی جاتی،اور اس حرام مال کو ذخیرہ کی نیت سے جمع کرے،تو وہ اس کے لئے جہنم کا زاد راہ اور توشہ بن جاتا ہے ،اگل حرام انسانی جسم کو معطل کر دیتا ہے ( مشکوٰۃ :٢٤٢ ) ،نور ایمان بجھ جاتا ہے،دل کے دنیا ویران اور بنجر ہو جاتی ہے، معاشرے میں ذلیل ہو جاتا ہے ،سکون قلب سے محروم ہو جاتا ہے،آدمی کا ضمیر خود ملامت کرتا رہتا ہے،آدمی کا وقار ختم ہو جاتا ہے،نہ نماز قبول ہوتی ہے نہ دعا، حرام مال فضول کاموں میں ضائع ہو جاتا ہے، ایسا آدمی عنداللہ بھی مردود ہو جاتا ہے،
اسلام نے انسان کو جن امور سے منع کیا ہے ،اگر انسان ان سے بچتے ہوئے کمائی کرے تو وہ حلال کمائی ہوگی،ورنہ تو حرام ہو گی ،مثلا سود لینا،اور رشوت لینا،کسی کا حق دبالینا،یا کسی کی زمین چھین لینا،یا موروثی کا دعوی کرنا، یا کسی کا قرض مار لینا، یا کسی کا حصہ میراث نہ دینا ،یا پھر کمانے میں اتنا مصروف و منہمک ہوجانا کہ نماز کی پرواہ نہ رہے ،آخرت کو بھول جائے، زکوٰۃ و حج ادا نہ کرے،دین کی باتیں سیکھنا،اور بزرگوں کے پاس آنا جانا چھوڑ دے ،گویا ہمارا حال تو یہ ہوگیا ہے  خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
تلاش رزق کی ہے رازق کا خیال نہیں
اسراف مالی و فضول خرچی کی شکلیں : اسلام کا تصور یہ ہے کہ دنیا ضروریات پوری کرنے کی جگہ ہے، اور آخرت خواہشات کی تکمیل کی جگہ ہے،یہاں صرف ضروریات پر اکتفاء کریں،ورنہ تو انسان کا اپنی خواہشات کا غلام بن جانا  منزل کو بھول کر راستے کو مقصد بنا لینے کے مترادف ہے ،لیکن افسوس کہ انسان تکمیل خواہشات کی بنا پر اسراف و فضول خرچی میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس کو شریعت نے قطعا نا پسند کیا ہے،البتہ اسراف کی دو صورتیں ہیں : ١, بےجا مصرف میں خرچ کرنا جیسے پٹاخہ و آتش بازی میں،گانے بجانے میں،دکھاوے کے اظہار اور زیادہ تشہیر میں وغیرہ یہ سب بے محل خرچ ہے،٢, مصرف میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا جیسے تفاخر آمیز کپڑے پہننا،تعمیر مکان میں بناوٹ و سجاوٹ،زائد از ضرورت سواریوں کا اکھٹاکرنا وغیرہ ،،،اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ نہ کنجوسی کرے،اور نہ فضول اڑادے،بلکہ سوچ سمجھ کر اور سنبھال کر ہاتھ روک کر کفایت شعاری اور انتظام و اعتدال کے ساتھ ضرورت کے موقعوں پر صرف کریں ،اللہ کے نبی نے فرمایا حلال مال فضول خرچی کو برداشت نہیں کر سکتا ( اکثر وہ اتنا ہوتا ہی نہیں کہ اس کو بے موقع اڑایا جائے،اور وہ ختم بھی نہ ہو،اس لیے اس کو سنبھال کر ضرورت میں خرچ کریں،تاکہ جلدی ختم ہونے سے پریشانی نہ ہو) ( شرح السنۃ للبغوی : ٣٩٩٣ )
قرض کے نقصانات : انسان جب اپنی ضروریات سے بڑھ کر خواہشات کی تکمیل کے پیچھے لگ جاتا ہے،تو حرام کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے،اور قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے،اور بےجا قرض لینے کے بہت سے نقصانات ہیں ،مثلا عزت ختم ہو جاتی ہے، ٢, سکون چھن جاتا ہے ٣, ہمہ وقت پریشان و متفکر نظر آتا ہے ،٤, معاشرے میں ذلت ہونے لگتی ہے، ٥, آپس میں رنج و شکایت پیدا ہوجاتی ہے، ٦, آپسی محبت کافور ہو جاتی ہے ،٧, آدمی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا وغیرہ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال جس طرح انسان کے لئے وبال جان اور مہلک ایمان بن سکتا ہے ،اسی طرح وہ وجہ قیام اور ذریعۂ بقاء ایمان بھی بن سکتا ہے، آدمی خود اپنے طور پر کوشش کریں کہ وہ جو کما رہا ہے وہ حلال بھی ہے ؟ اور جس مصرف میں خرچ کر رہا ہے وہ مناسب بھی ہے یا نہیں ؟ یہ سب اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کے قدم قیامت کے دن (حساب کے موقع سے) نہیں ہٹیں گے، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کر لیا جائے،انہی میں سے مال کے متعلق بھی سوال ہوگا ،کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ،( ترمذی :٢٤١٦) ہے اس دن کی پکڑ سے بچنے کے لیے ابھی سے فکرکریں، اور کسب حلال کے لیے مسلسل کوشش و سعی کریں ،اور حرام مال سے بالکلیہ اجتناب اور پرہیز کریں، اللہ تعالی رزق حلال نصیب فرمائے، اور اکل حرام سے حفاظت فرمائے آمین
کوئی ضبط دے نہ جلال دے
مجھے صرف اتنا کمال دے
مجھے اپنی راہ پہ ڈال کہ زمانہ میری مثال دے
تیری رحمتوں کا نزول ہو مجھے محنتوں کا صلہ ملے
مجھے مال وزر کی ہوس نہ ہو
مجھے بس تو رزق حلال دے
آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×