"سکینت” ایمان کی وہ کیفیت ہے جو دل میں جاگزیں ہوتی ہے اور ہر قسم کےشک و تردد کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہے
مکہ مکرمہ: 10/آگسٹ (عصر حاضر) امام حرم مکی شیخ سعود بن ابراھیم الشریم نے اپنے خطاب کا آغاز حمد و صلاۃ سے کیا اور فرمایا:یقیناً بہترین بات، اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔اور بدترین کام دین میں محدثات (نئے پیدا کردہ امور) ہیں اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔نیز جماعت مسلمین (اجتماعیت)کی پیروی لازم ہے اس لیے کہ جماعت کے ساتھ اللہ کی مدد و نصرت شامل ہےاور جو جماعت سے کٹ جائے وہ جہنم میں جائے گا۔
شیخ نے فرزندانِ اسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی نظروں اور دانشوروں کی آنکھوں نے آج تک ایسا معلم و مربی نہیں دیکھا جو سرکار دوعالم ﷺ کی طرح کمالِ عقل، کمال شفقت اور کمال حکمت میں اپنی مثال آپ ہو ۔ نبی کریم ﷺ کا ہر عمل ہمارے لیے اسوہ، آپ کی ہر بات ہمارے لیے نمونہ اور آپ کی خاموشی بھی ہمارے لیے حجت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف اسامہ رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے فرمایا: ”لوگو! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لیے کہ گھوڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر میں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے(دوڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ آگئے۔
اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں بھی متعدد مقامات پر سکینت کا ذکر فرمایا، مثلاً ایک مقام فرمایا:پھر اللہ نے اپنی "سکینت” اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں "سکینت” نازل فرمائی؛ تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں! زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔
یہی وہ سکینت ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کو اس وقت عطا کی گئی جب بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں فرعون کا لشکر آدبوچے گا !!تو حضرت موسی نے فرمایا ہرگز نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راستہ دکھائے گا۔
"سکینہ”کیا ہے؟مومن کا گم کردہ سرمایہ ہے، رنج والم کو دفع کرنے والی دولت ہےاور ایمان و یقین کو جلا بخشنے والی نعمت ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکون و وقار کو لازم پکڑے اور سکینت کے کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جب کبھی شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ پر معاملات شدت اختیار کر لیتے (مشکلات آتیں) تو وہ آیاتِ سکینہ کی تلاوت فرماتے۔ ایک بار انہیں ایک حیرت انگیز اورناقابلِ فہم واقعہ ان کی بیماری میں پیش آیا، جب شیطانی ارواح کم زوری کی حالت میں ان پر غالب آئیں، میں نے انہیں کہتےسنا، وہ فرماتے ہیں، "جب یہ معاملہ زیادہ زور پکڑ گیا تو میں نے اپنے رشتے داروں اور ارد گرد کے لوگوں سے کہا، "آیاتِ سکینہ پڑھو”۔ کہتے ہیں، "پھر میری یہ کیفیت ختم ہو گئی، اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا ( ٹھیک ہو گیا) اور مجھے کوئی بیماری باقی نہ رہی”۔ ابن قیم فرماتے ہیں:اسی طرح، میں نے بھی اضطرابِ قلب دور کرنے کے لیے ان آیات کی تلاوت کا تجربہ کیا ہےاور اس کی عجیب و غریب تاثیر کا مشاہدہ بھی ہوا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے کلام مجید میں سچ ہی فرمایا ہے:اور ہم نے نازل کیا اس قرآن کو (مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ) جس کے اندر شفاء ہے اور وہ رحمت ہے تمام مومنوں کے لئے۔