اسلامیات

حلالہ کی حقیقت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
الطلاق مرتان فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان (بقرہ: ۲۲۹)
طلاق دو دفعہ ہے، پھر یاتو بھلے طریقہ پر روک لینا ہے یا بہتر طریقہ پر چھوڑدینا ہے، پھر اگر اس کو طلاق دیدی تو وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک یا دو طلاق دی گئی تو اس بات کی گنجائش ہے کہ عدت کے اندر اندر اسے لوٹالے ؛ لیکن اگر تیسری طلاق دیدی، تو اب اس عورت کو لوٹانے کی گنجائش نہیں ؛ بلکہ ضروری ہوگا کہ کسی اور مرد سے اس کا نکاح ہو؛ لیکن کیا صرف نکاح کافی ہے؟ یا اس عورت کے سابق شوہر کے حق میں حلال ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس دوسرے شوہر نے اس کے ساتھ صنفی تعلق قائم کیا ہو ، اس کی وضاحت حدیث سے ہوتی ہے، اور وہ حدیث اس طرح ہے :
عروۃ بن زبیر نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے ان سے بتایا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں، انہوں نے عرض کیا کہ رفاعہ نے مجھے طلاق دیدی ہے اور پوری طلاق دیدی ہے، میں نے اس کے بعد عبدالرحمن زبیر قرظی سے نکاح کیا، ان کے پاس تو محض کپڑے کے جھالر کی طرح ہے،(یعنی قوت مردمی میں کمی ہے) رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا کہ شاید تم رفاعہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہو ؟ ایسا نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ وہ تمہارا مزہ چکھ لے اور تم ان کا مزہ چکھ لو (صحیح البخاری : کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، حدیث نمبر : ۵۲۶۰)
اس میں مزہ چکھنے سے مراد صنفی تعلق قائم کرنا ہے ؛ حضرت عائشہؓ نے خود رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :العسیلۃ الجماع (مسند احمد عن عائشۃ، حدیث نمبر : ۲۴۳۳۱) چنانچہ اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اس عورت کے شوہر اول کے حق میں حلال ہونے کے لئے تین باتیں ضروری ہیں؛ اول یہ کہ اس عورت کا کسی اور مرد سے نکاح ہوا ہو، اگر نکاح نہیں ہوا ؛لیکن غیر شرعی تعلق قائم ہوا تو وہ شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوگی، دوسرے: وہ نکاح صحیح ہو، نکاح فاسد نہ ہو، اگر نکاح فاسد ہو تب بھی وہ شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوگی؛ چنانچہ علامہ علاء الدین کاسانی ؒ فرماتے ہیں :
عورت کے شوہر اول کے لئے حلال ہونے کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ نکاح ثانی صحیح ہو، یہاں تک کہ اگر اس نے کسی اور مرد سے نکاح فاسد کرلیا، اور اس مرد نے اس کے ساتھ دخول بھی کرلیا، تب بھی وہ پہلے مرد کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ (بدائع الصنائع : ۳؍۲۹۶، کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن)
تیسری شرط یہ ہے کہ اس دوسرے مرد نے اس کے ساتھ فطری طریقہ پروطی کی ہو، یعنی اگر اس نے مقام وطی میں وطی نہ کی ہو، تب بھی وہ عورت پہلے مرد کے لیے حلال نہیں ہوگی:
جمہور اس طرف گئے ہیں کہ نکاح کے صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا شوہر اس کے ساتھ شرمگاہ میں وطی کرے تو اگر وہ اس سے شرمگاہ کے باہر وطی کرے یا پچھلے راستہ میں کرے تو وہ شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ (الموسوعۃ الفقھیہ : ۱۰؍۲۵۵، مادۃ : تحلیل)
عورت کے شوہر اول کے لئے حلال ہونے کا یہ طریقہ ایک اتفاقی عمل ہے، یہ کوئی منصوبہ بند عمل نہیں ہے کہ ایک مطلقہ عورت کا کسی مرد کے ساتھ اسی لئے نکاح ہو کہ وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے؛ بلکہ اتفاقی طور پر عورت کا کسی مرد سے نکاح ہوا ،اور اس سے ازدواجی تعلق بھی قائم ہوا، پھر کسی وجہ سے دونوں کے درمیان نباہ نہیںہوسکا اور اس دوسرے مرد سے بھی طلاق کی نوبت آگئی تو اب دوبارہ اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوجائے گا؛ اس لیے نکاح حلالہ کوئی خاص اصطلاح نہیں ہے، اور نہ قرآن وحدیث میں اس نام سے کسی نکاح کا ذکر آیا ہے؛ البتہ ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی نکاح اسی مقصد کے لیے کیا جائے کہ تین طلاق پائی ہوئی عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے تو ایسے نکاح کا کیا حکم ہوگا ؟
یہ بات واضح ہے کہ تحلیل کے مقصد سے نکاح کرنا شریعت میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ نے حلال کرنے والے شخص پر بھی لعنت کی ہے اور اس مرد پر بھی جس پر (عورت ) حلال کی جائے۔(سنن ابن ماجہ : باب المحلل والمحلل لہ، حدیث نمبر : ۱۹۳۴)
نیز حضرت عقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں :
رسول ﷺ نے (ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے) فرمایا: کیا میں تم کو عاریت پر حاصل کئے ہوئے نَر کے بارے میں نہ بتلاؤں (جس کو مادہ سے جفتی کرنے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے؟) لوگوں نے کہا : ہاں، اے اللہ کے رسول !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مُحِل (حلال کرنے والا) ہے، اللہ نے محلل اور محلل لہ پر لعنت فرمائی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس طرح کا منصوبہ بند نکاح کرہی لیا جائے تو عورت شوہر سابق کے لئے حلال ہوگی یا نہیں ؟ تو اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱) تحلیل کے مقصد سے نکاح
(۲) تحلیل کی شرط کے ساتھ نکاح
تحلیل کے مقصد سے مراد یہ ہے کہ نکاح کے ایجاب وقبول میں کوئی ایسی شرط ذکر نہ کی گئی ہو کہ شوہر ثانی صنفی تعلق کے بعد عورت کو طلاق دیدے گا؛ لیکن پہلے سے تینوں کے درمیان یہ بات طے ہو کہ یہ نکاح کرنے والا عورت کو طلاق دیدے گا؛ تا کہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے، حنفیہ اور شوافع کے نزدیک یہ نکاح درست ہوجائے گا؛ کیونکہ نکاح کی شرائط پائی جارہی ہیں، البتہ اس شرط کا اعتبار نہیں ہوگا، شوہر پر واجب ہوگا کہ وہ اس کو مستقل طور پر بیوی بنا کر رکھے، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک یہ نکاح جائز نہیں ہوگا۔
تحلیل کی شرط سے نکاح سے مراد یہ ہے کہ عورت کا دوسرے مرد سے نکاح ہو، اس کے ایجاب وقبول ہی میں شرط لگادی جائے کہ وہ صحبت کے بعد اسے طلاق دیدے گا، یہ نکاح مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک منعقد ہی نہیں ہوگا : وقد صرح الجمہور (المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ وأبو یوسف من الحنفیۃ) بفساد ھذا النکاح (الموسوعۃ الفقھیہ : ۱۰؍۲۵۷، مادۃ :تحلیل) حنفیہ کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے، امام ابوحنیفہؒ وامام زفرؒ کے نزدیک یہ نکاح درست ؛ لیکن مکروہ تحریمی ہوگا، اور اس کی وجہ سے عورت شوہر اول کے لیے حلال ہوجائیگی، امام محمدؒ کے نزدیک نکاح تو درست ہوگا؛ لیکن عورت شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوگی، اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک یہ دوسرا نکاح ہی درست نہیں ہوگا ؛ چنانچہ علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں:(بدائع الصنائع : ۳؍۲۹۶، کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن)
امام ابوحنیفہؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نکاح میں اگر کوئی ایسی شرط لگادی جائے، جو فاسد ہو تو شرط خود فاسد ہوجاتی ہے اور نکاح منعقد ہوجاتا ہے، جیسے اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ شوہر بیوی کو مہر نہیںدے گا، یا شوہر بیوی کو نفقہ نہیں دیگا، تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اور شرط باطل ہوجائے گی، شوہر پر مہر اور نفقہ واجب ہوجائے گا، اسی طرح اس معاملہ میں بھی یہ شرط کہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد عورت کو طلاق دے دےگا؛ تا کہ پہلے شوہر سے اس کا نکاح ہوسکے، ایک باطل شرط ہے؛ لہٰذا یہ شرط باطل ہوجائے گی ، شوہر وبیوی پر واجب ہوگا کہ وہ شوہر وبیوی کی طرح دائمی ازدواجی زندگی گزاریں، پہلے شوہر کو حق نہیں ہوگا کہ وہ اس دوسرے مرد سے طلاق دینے کا مطالبہ کرے، دوسرے شوہر پر یہ بات واجب نہیں ہوگی کہ وہ اس کو طلاق دے دے، نہ عورت کو حق ہوگا کہ وہ دوسرے شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے، غرض کہ دوسرا مرد اس بات کا پابند نہیں ہوگا کہ وہ اس عورت کو چھوڑ دے ؛ لیکن نکاح منعقد ہوجائے گا۔
یہ تو صورت مسئلہ کی وضاحت ہے؛ لیکن افسوس کہ اس مسئلہ میں مسلمان اس وقت دو طرفہ زیادتی کا شکار ہیں، ایک طرف جھوٹ بولنے کا خوگر اور مسلمانوں کو بدنام کرنے پر کمر بستہ گودی میڈیا حلالہ کے سلسلے میں ایسا تصور پیش کر رہا ہے کہ گویا شریعت میں جو نکاح مقبول ہے، اس کی ایک صورت حلالہ ہے، وہ بدکردار اور بدقماش ہوس پرست مردوں کے بجائے اسلام کی طرف اس کی نسبت کرتے ہیں؛ حالاں کہ حلالہ کے نام سے شریعت میں کوئی نکاح ہے ہی نہیں ،اور نکاح کی کوئی ایسی صورت جائز نہیں ہے، جو عارضی تعلق کے لئے قائم کیا جائے، یہ صرف اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے ، ہندو مذہب میں ’’ نیوگ‘‘ یعنی اولاد کے لئے عورت کا دیور یا کسی اور مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کا اصول ہے، اس پر تو کبھی بحث نہیں کرائی جاتی؛ مگر اسلام کو نشانہ بنانے کے لئے حلالہ کا جھوٹا پروپگنڈہ کیا جاتا ہے، افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھی ان کی ڈیبیٹ میں جا کر اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو بے آبرو کرنے میں لگے ہوئے ہیں، مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے چینلوں کا بائیکاٹ کریں اور ایسے پروگرام سننے کا بھی بائیکاٹ کریں۔
مسلمانوں کو بے آبرو کرنے والا دوسرا گروہ اُن بے حیا اور حمیت ایمانی سے محروم آوارہ خیال مسلمانوں کا ہے– جن میں سے بعض نے بدقسمتی سے صحیح یا غلط اپنے نام کے ساتھ دینی درسگاہوں کی نسبت بھی لگا رکھی ہے– یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید کے مطابق ملعون ہیں، یہ اس لائق ہیں کہ ان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیا جائے اور برسر عام ان کی سرزنش کی جائے، اس میں سچائی کہاں تک ہے یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے؛ لیکن بعض میڈیا نے اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ جو معلومات حاصل کی ہیں، ان کے مطابق بعض ائمہ مساجد یا ذمہ داران مدارس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ حلالہ کرتے ہیں اور ایک رات کے تعلق کے بعد یقینی طور پر طلاق دے دیتے ہیں، بعض حضرات اس کی فیس ایک لاکھ روپئے لیتے ہیں، بعض پچاس ہزار، بعضوں کا بیان ہے کہ وہ ایک ہی شب میں ایک سے زیادہ عورتوں کا حلالہ کرتے ہیں، بعض نے رحم کھاتے ہوئے کہا کہ وہ حلالہ کی کوئی بڑی فیس نہیں لیتے، صرف مدرسہ کے چندہ کے طور پر بیس ہزار کا مطالبہ کرتے ہیں، کس کس کا ذکر کیا جائے اور کس کس پر لعنت بھیجی جائے، رپورٹ میں نام اور مقام کی تعیین کے ساتھ مختلف لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن کی فیس پچیس ہزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ تک ہے، ان میں بعض لوگ تو ایسے ہیں کہ ان کو ’’حلالہ اسپیشلسٹ ‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ اخبار انڈیا ٹوڈے (۳؍ نومبر ۲۰۲۲ء) کی تحقیقاتی رپورٹ ہے، سوچئے اور سر پیٹئے کہ یہ لوگ کس طرح اپنی شریعت کو بدنام کر رہے ہیں، شاید کوئی بدترین دشمن بھی اسلام کو اس طرح بدنام نہیں کر پاتا، ان دونوں طرح کے دشمنوں سے نپٹنا ضروری ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم برادران وطن کو اسلام کے تصور نکاح کے بارے میں بتائیں اور کہیں کہ جن لوگوں نے نکاح کے نام پر اس طرح کی حرکت کی ہے، وہ دراصل بندگان نفس ہیں، ان کا مذہب اسلام نہیں ہے؛ بلکہ شہوت پرستی اور مال وزر کی لالچ ہے ، میں نے احتیاطاََ شخصیتوں، مسجدوں ، مدرسوں کا نام ذکر نہیں کیا ہے؛ لیکن یہ سب کچھ اس رپورٹ میں موجود ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہ رپورٹ جھوٹ ودروغ گوئی پر مبنی ہو تب بھی کچھ نہ کچھ سچائی اس میں شامل ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تین طلاق کے بعد شوہر کے لئے حلال ہونے کے سلسلے میں جو شرط عائد کی گئی ہے کہ کسی اور مرد سے اس کا نکاح ہو اور پھر وہ ازدواجی تعلق کے بعد طلاق دے تبھی وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی، یہ عورت کے وقار کی حفاظت کے لئے ہے، اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھی اور طلاق دینے کے بعد پھر اس کو واپس اپنے نکاح میں لانا مکمل طور پر مرد کے اختیار میں تھا، اس سے عورت کی بڑی بے توقیری ہوتی تھی، جب چاہا طلاق دے دی، اور جب چاہا عورت کو واپس لے آئے، گویا کچرہ دان میں کوئی چیز پھینک دی گئی اور پھر اس کو نکال لے آئے، اس کی کوئی حد نہیں تھی، اسلام نے اسی لئے ایک حد مقرر کر دی کہ شوہر ایک یا دو طلاق دے سکتا ہے، اس کے بعد اس کو اپنی بیوی کے لوٹانے کا حق ہے، اگر اس نے تیسری بار طلاق دی تو اب معاملہ مرد کے اختیار سے نکل جائے گا ، وہ اُسے اپنے طور پر واپس نہیں لا سکتا، اور پھر تیسری طلاق کو روکنے کے لئے ایک ایسا اصول رکھا گیا جو غیرت مند مردوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے کہ اس عورت کا نکاح دوسرے مرد سے ہو، اس سے اس کا تعلق بھی قائم ہوا ہو، پھر وہ شوہر اس کو اپنی مرضی سے طلاق دیدے، اس کا مقصد یہ تھا کہ مرد تیسری بار طلاق دینے سے بے حد احتیاط سے کام لے؛ اس لئے در حقیقت تیسری طلاق کے سلسلے میں شریعت میں جو اصول متعین کئے گئے ہیں، وہ عورتوں کے مفاد میں ہے۔
سوال کیا جاتا ہے کہ تیسری طلاق دینے میں غلطی تو شوہر کی ہے؛ لیکن سرزنش بیوی کی ہو جاتی ہے تو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا درست نہیں ہے، ایک ہی طلاق کو آپ علیہ السلام نے مبغوض ترین عمل قرار دیا ہے تو تین طلاق کے مبغوض ہونے میں کیا شبہ ہے؛ اس لئے ایسے مرد کی سرزنش ہونی چاہئے اور یہ سرزنش سماج کو اور مذہبی تنظیموں کو کرنا چاہئے کہ ایسے شخص پر جرمانہ عائد کیا جائے، مہر کی مقدار چند گنا کر دی جائے، اس کے علاوہ مطلقہ عورت کی پرورش میں اگر اس مرد کے بچے ہوں تو جب تک وہ اس کی پرورش میں رہیں گے، مرد پر واجب ہوگا کہ وہ ان کے لئے ضروریات زندگی کا انتظام کرے، جس میں رہائش کا انتظام بھی شامل ہے، بچوں کے کھانے پینے اور تعلیم کے اخراجات بھی ادا کرے؛ تاکہ عورت بہتر طور پر اپنی زندگی گزار سکے اور بچوں کی پرورش کر سکے، یہ بھی اس ظالم مرد کے لئے ایک طرح کی سزا ہے۔
غرض کہ اگر شوہر نے ایک ہی دفعہ میں تین طلاق دے دی ہو تو اس کا یہ عمل قابل سرزنش ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے شخص کے سر پر کوڑا لگانے کا حکم دیا تھا، کوڑے کی مار خود ایک تکلیف دہ سزا ہے اور پھر سر پر کوڑا لگانا تو سزا بالائے سزا ہے؛ اس لئے ان کے ساتھ سخت گیری ضروری ہے اور اس کا اصل حل سماج کی اصلاح ہے، ہمارے یہاں نکاح کے طریقہ پر تو بات کی جاتی ہے ، اس کی خرابیوں پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے؛ لیکن طلاق کس طرح دی جائے، اس کے لئے کیا طریقہ جائز اور کیا طریقہ ناجائز ہے، اس پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے، ائمہ، خطباء اور روایتی جلسوں کے مقررین اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے سامنے اس پہلو کو بھی پیش کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×