ہم اپنی بے حسی اوربزدلی کومصلحت پسندی کانام کب تک دیتے رہیں گے؟
کیاہم واقعی بے حس ہوچکے ہیں؟
کیا ہم واقعی بزدل ہوچکے ہیں؟
کیا ہم اب ڈر کی زندگی گذار رہے ہیں؟
کیا ہم نے اب اپنے آپ کو مکمل طور پر حکومت وقت کے حوالے کر دیا ہے؟
کیا دنیا بھر کی ساری مصلحت کی چادریں ہم نے ہی تان لی ہیں؟
کیا ہم اپنے افعال و کردار سے آنے والی نسلوں کو غلامی کی جانب دھکیل رہے ہیں؟
ان سارے سوالات کے جوابات یقیناً ہاں میں ہی ہے، ہم ان سوالات کے جوابات میں مزید کسی قسم کی منطق یا تاویل کا استعمال نہیں کرسکتے، اگر ایسا کیا تو یقیناً یہ ہماری ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہوگی۔۔۔
اس وقت جب کہ کورونا کی وجہ سے ملک گیر لاک ڈاؤن کو 5 مہینے ہونے جارہے ہیں، کورونا کے نام پر کیا کیا نہ گل کھلایا گیا، ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ میڈیا اور حکومت کے بعض کارندوں نے کورونا کو مسلمان بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا، ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا گیا، ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پریشان بھی کیا گیا، زیادتی کا شکار بنایا گیا، مسلمان سبزی فروشوں کوہندواکثریت کالونیوں سے بھگادیاگیا،اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے سبزی فروشوں کی دوکانوں اورریڑھیوں پربھگوا جھنڈا لگایاگیا،لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی واضح ہوگیا کہ جن لوگوں نے کورونا کو مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی تھی وہ خود ہی اس کی زد میں آگئے اور یوں ان کا منہ کالا ہوگیا۔
کورونا وائرس کے نام پر پورے ملک میں تالا بندی کی گئی، لیکن نتیجہ صفر رہا، بلکہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، دراصل حکومت نے یا عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی روک تھام کے لئے جو پالیسی بنائی وہ بالکل ناکام ثابت ہوئی، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جس طرح عالمی ادارہ صحت نے وقفہ وقفہ سے اپنا بیان بدلا اس نے بھی کورونا کو مرض کم اور عالمی سازش سمجھنے پر زیادہ مجبور کیا، اسی طرح بھارتی حکومت نے جس طرح لاک ڈاؤن اور ان لاک کا کھیل کھیلا اس نے بھی اسے عالمی وبا کی بجائے عالمی سازش سمجھنے پر ہی مجبور کیا، لاک ڈاؤن جتنا بڑھا ساتھ ہی مرض بھی اتنا ہی بڑھتاگیا، لیکن حکومت نے پھر اس کے بعد ان لاک کا گیم کھیلنا شروع کردیا، جو سمجھ سے بالاتر تھا، جب ہم کورونا وائرس کے پورے کھیل کو دیکھتے ہیں تو اس میں حکومت کا ہر کھیل نرالا لگتا ہے جو اپنے آپ میں بہت ساری کہانی کو پوشیدہ رکھے ہوا ہے،بلکہ اگریہ کہاجائے توبیجانہ ہوگاکہ حکومت نے کوروناکوایونٹ کے طورپراستعمال کیا،عام آدمی کوپریشان کرکے اس کی آڑمیں اپنے ایجنڈوں کوپوراکرنے کاکام کیا ۔۔۔
ذرا سوچیں اور خود فیصلہ کریں کہ آخر یہ کیا گیم پلان ہے، رپورٹ کے مطابق ملک میں کورونا کا سب سے پہلا کیس 31 جنوری کو کیرالا میں ملا، اور جس بندے میں کورونا کا انکشاف ہوا وہ چین سے لوٹ کر آیا تھا، پہلا معاملہ درج ہوتا ہے 31 جنوری کو اور ملک میں فضائی سروس پر پابندی لگائی جاتی ہے 24 مارچ کو،آخر کیوں؟ اس دوران 23 تا 25 فروری خوب دھوم دھام سے احمدآباد میں نمستے ٹرمپ پروگرام منایا گیا جس میں لاکھوں کا مجمع تھا، اسی دوران دہلی فسادات کرایاگیا، اسی دوران مدھیہ پردیش حکومت گرائی گئی اور ایم ایل اے کی خرید و فروخت ہوئی، جب ان تمام مفادات سے فائدہ اٹھالیا گیا تو اچانک 22 مارچ کو تالی تھالی بجوادیا اور 24 مارچ سے 14 اپریل تک کے لیے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن کردیا گیا، نہ پہلے سے کوئی ایڈوائزری جاری کی گئی، نہ ہی غریب مزدوروں کا خیال رکھا گیا کہ کم از کم انہیں ان کے آبائی وطن تک جانے کی مہلت دیدی جائے، نتیجہ جو ہوا وہ آپ سب کے سامنے ہے، کس طرح غریب مزدور، عورت، بچے بوڑھے پیدل چل کر، سائیکل پر سوار ہو کر، فاقہ کشی کرتے ہوئے، راستے میں حادثوں کا شکار ہوتے ہوئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میل پاؤں پیدل چل کر اپنے آبائی وطن جانے پر مجبور ہوئے، حکومت صرف بھاشن دیتی رہی اور غریب مزدور طبقہ راشن کے لیے ترستا رہا اور نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے بھوک پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنی منزل پر پہونچنے سے پہلے ہی راستے میں ہی دم توڑ دیا، لیکن بےحس حکومت پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا اور ہو بھی کیوں؟ کیوں کہ اس سے زیادہ بے حس تو ہم عوام ہوچکے ہیں، جب آپ ان پیدل چلنے والے غریب مزدوروں کو دیکھیں گے تو آپ کو دور دور تک سوشل ڈسٹینسنگ کا کوئی ادنیٰ سانمونہ بھی نظر نہیں آئے گا، جب کہ اس کورونا وائرس کے بچنے کا سب سے موثر طریقہ جس کا حکومت شروع دن سے اب تک پرچار کررہی ہے وہ یہی ہے کہ سوشل ڈسٹینسنگ کا پالن کیا جائے، لیکن کیا پیدل چلنے والی بھیڑ کو کہیں بھی آپ نے سوشل ڈسٹینسنگ کا پالن کرتے ہوئے پایا؟ آپ کا جواب ہوگا نہیں، پھر اس کے بعد حکومت نے مزدور اسپیشل ٹرین شروع کی تاکہ مزدوروں کو ان کے گھر تک پہونچایا جاسکے، اس نام پر جو حکومت نے گندا کھیل کھیلا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ابتدامیں سوشل ڈسٹینسنگ کاڈھونگ رچاتے ہوئے ایک سیٹ چھوڑکرمسافروں کوٹرین میں بٹھایاگیا،لیکن جلدہی یہ سسٹم بھی ختم ہوگیااورپھرمعمول کے مطابق تمام نشستوں پرمسافروں کوبٹھایاجانے لگا،اب بھلاآپ خودسوچیں کہ سوشل ڈسٹنسنگ کافارمولاکہاں گیا؟شروع شروع میں ریلوے اسٹیشنوں پراسکریننگ کے نام پرمسافروں کوگھنٹوں لائن میں کھڑاکرکے پریشان کیاگیا،انہیں اسٹیشنوں پراترنے کے بعدکورنٹائن کیاگیا،حتیٰ کہ گاؤں میں پہونچنے والے ہرفردکوکورنٹائن سے گذرناپڑا،لیکن چندہی دنوں میں یہ ساراسسٹم ختم ہوگیا،اورپھرہمیشہ کی طرح معمول کانظام نافذکردیاگیا،اب نہ توٹرینوں میں سوشل ڈسٹینسنگ باقی رہی،نہ ریلوے اسٹیشنوں پرکسی قسم کی سوشل ڈسٹنسنگ کے سسٹم کوفالوکیاگیااورنہ ہی اسکریننگ اورکورنٹائن کے اصولوں پرعمل کیاگیا،جولائی سے اگست کے دوران میں نے خودہی ٹرین کے ذریعے ممبئی سے گجرات،گجرات سے بہاراورپھربہارسے وایاگجرات ممبئی کاسفرکیاہے،اورمیں نے اپنی آنکھوں سے جوکچھ مشاہدہ کیاہے اورسفرکے دوران جوتجربات ہوئے ہیں اسی کی روشنی میں یہ ساری باتیں لکھ رہاہوں۔
جب کوروناکی شروعات ہوئی تھی،اسی زمانے میں حکومت نے کوروناسے بچاؤکاسب سے موثرترین فارمولاسوشل ڈسٹینسنگ یعنی سماجی دوری بنائے رکھنے کازوروشورسے اعلان کیاتھااوراسی سماجی دوری کوبنائے رکھنے کے لئے ملک گیرلاک ڈاؤن کیاتھااورتمام ترپبلک ٹرانسپورٹ،بس ،ریلوے اورفضائی خدمات کومعطل کیاتھااورجب کہ ابھی تک کوروناکی وجہ سے لاک ڈاؤن چل ہی رہاہے،پھرریلوے سے سوشل ڈسٹنسنگ کیوں غائب کردیاگیا؟ایک ٹرین جس میں ہزاروں لوگ سفرکرتے ہیں،جومختلف گاؤں اورعلاقوں سے آتے ہیں،کیاواقعی کوروناکے تئیں حکومت کی سنجیدگی ختم ہوگئی ہے؟ یاسرے سے یہ کوئی بیماری ہے ہی نہیں بس حکومت کے لئے ایک ایونٹ اورموقع کی طرح ہے کہ جس کی آڑمیں اپنے خفیہ ایجنڈوں کوپوراکیاجارہاہے؟ اورحقائق دیکھنے کے بعدایساہی محسوس ہوتابھی ہے۔
اس پورے معاملے میں جو سب سے افسوسناک اورقابل فکرمعاملہ ہے وہ ہے تعلیم گاہوں اورعبادت گاہوں پرپابندی۔جب ہم ایک طرف لاک ڈاؤن اوران لاک کے کھیل میں پورابازارکھلاہوادیکھتے ہیں،ٹرینوں میں بھیڑکامشاہدہ کرتے ہیں،سڑکوں پرپہلے کی طرح چہل پہل کانظارہ کرتے ہیں اوردوسری طرف جب ہم تعلیم گاہوں اورعبادت گاہوں پرتالاپڑاہوادیکھتے ہیں تویقیناہمیں یہ اندازہ لگاتے ہوئے دیرنہیں لگتی کہ ہماری حکومت اورہمارے قائدین کی عقلوں پربھی ایسے ہی تالاپڑگیاہے۔جب کوروناکے شروع میں سب سے پہلے تعلیم گاہوں پرپابندی لگائی گئی تھی توکسی صاحب نے خوب کہاتھاکہ کوروناکوصرف تعلیم سے محبت ہے اسی لئے وہ کلاس روم میں چھپ کربیٹھاہے بچے اگراسکول گئے تووہ انہیں پکڑلے گا۔آپ اندازہ لگائیں کہ کون سی بھیڑزیادہ خطرناک ہے؟بازاروں کی دھکامکی والی بھیڑیااسکول کی مہذب اورشائستہ بھیڑ؟اسکولوں اورمدارس میں توپھربھی صاف ستھرے اورسلیقے سے بچے آتے ہیں اوراپنی اپنی نشستوں پربیٹھ کرمہذب طریقے سے تعلیم حاصل کرتے ہیںاگردیکھاجائے توتعلیم گاہوں میں سوشل ڈسٹینسنگ بنائے رکھنابہت ہی آسان ہے بمقابلہ بازاروں کے جہاں بے ہنگم بھیڑہوتی ہے۔لیکن کیاکیاجائے جب عقل پرہی پردہ پڑجائے اورتالالگ جائے توتعلیم گاہوں میں تالالگنایقینی ہے۔
اس سے بھی زیادہ لمحہ فکریہ مساجداوردیگرعبادت گاہوں پرتالابندی ہے۔میں یہاں پرصرف مساجدکی بات نہیں کررہاہوں بلکہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی طرف میرااشارہ ہے۔پوری دنیامیں صرف عبادت گاہیں ہی ایسی پاک وصاف اورمقدس ومتبرک جگہیں ہیں جہاں ہرشخص خواہ وہ کسی مذہب کاماننے والاہواپنی مذہبی روایات کے مطابق پاک صاف ہوکرہی جاتاہے۔اورکوروناسے بچاؤکی جوتدابیرحکومت نے یاعالمی ادارہ صحت نے بتائی تھیں اس میں صفائی بالخصوص ہاتھوں کی صفائی پرسب سے زیادہ زوردیاگیاتھااوراگرہم صرف پنچوقتہ نمازوں کی بات کریں تونمازسے زیادہ صاف ستھری اورپاکی والی کوئی عبادت نہیں جس میں ہرمسلمان پانچوں وقت اپنے ہاتھوں کوخوب اچھی طرح دھوتاہے۔لیکن افسوس صدافسوس ! کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارے قائدین کی عقلوں پربھی تالاپڑگیاکہ کسی نے بھی حکومت سے اس مسئلے پربات کرنے کی چھوٹی سی بھی کوشش نہیں کی اورحکومت نے جیساچاہاہم نے اس سے کہیں بڑھ کراپنی مساجدمیں تالالگوانے میں پیش پیش رہے۔ذرایادکیجئے کوروناکے ابتدائی ایام کوجب حکومت نے مساجدمیں نمازپرپابندی لگائی توکس طرح سوشل میڈیاپرمفکرین اورفقیہان کی لائن لگ گئی تھی،ہرکوئی تنہانمازپڑھنے کی فضیلت،گھروں میں نمازکی ادائیگی کی فضیلت اورطریقہ کارپراس طرح بڑھ چڑھ کرمسائل بیان کررہاتھاکہ بس مجتہدین نے اسی وقت کے لئے وہ ساری گنجائشیں رکھ چھوڑی تھیں،حکومت نے ہماری مساجدکوبندکرنےکی جانب ایک قدم کیابڑھایاکہ ہم نے اپنے اپنے ذاتی اجتہادسے حکومت سے دس قدم آگے بڑھ گئے اورحکومت کے لئے آئندہ کے لئے راہیں ہموارکردیں کہ اب جب بھی مستقبل میں حکومت چاہے یکلخت ہماری مساجدپرتالالگادے اوردلیل میں ہمارے ہی بیان کردہ مسائل کوپیش کردے۔حدتوتب ہوگئی جب عیدین کے لئے مختصرخطبے بھی تیارکرکے پیش کردئیے گئے۔میں گنجائشوں کاانکارنہیں کررہاہوں،لیکن ہمیں اپنے مسائل میں گنجائشوں کے بیان کے لئے بھی اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے اوریہی حکمت ومصلحت ہے۔ہم اتنے آگے نہ بڑھ جائیں کہ پھرواپسی ہمارے لئے ناممکن ہو۔براہوواٹس ایپ،فیس بک اوریوٹیوب کاکہ اس پرلائک کمنٹس اورشیئرکے چکرمیں کچھ بھی پیش کرنے سے گریزنہیں کرتےہیں۔
2014کے بعدسے ہی اگرہم جائزہ لیں تویہ صاف طورپرمحسوس ہوگاکہ حکومت نے مختلف طریقوں سے عوامی آوازکودبانے کی بھرپورکوشش کی ہے اوراس میں حکومت کامیاب بھی ہے بلکہ اگریہ کہاجائے توزیادہ بہترہوگاکہ حکومت نے آوازکودبانے کے ساتھ ہی کچھ ایسے طریقے اپنائے جس سے ہرشخص حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کی ہوڑمیں لگ گیااورحکومت کے سبھی فیصلوں کوحق بجانب ٹھہرانے کی دوڑمیں شامل ہوگئے،میں یہ نہیں کہتاکہ حکومت کی ہرمعاملے میں تنقیدکی جائے،اچھے کاموں کوسراہاجاناچاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کے غلط فیصلوں پرمثبت تنقیدصحتمندجمہوریت کے لئے بہت ضروری ہے،اورجب حکومت پرتنقیدختم ہوجاتی ہے توگویاجمہوریت کاخاتمہ ہوچکاہے۔کسی نے کہاتھاکہ جب سڑکوں پراحتجاج بندہوجاتاہے توپارلیمنٹ بے لگام ہوجاتاہے اورحکومت نے سب سے پہلاکام یہی کیاکہ اس نے عوام کے اندرسے احتجاج کی اسپرٹ ختم کردی اورانہیں بے حس کردیاجس کاسب سے بڑاثبوت نوٹ بندی ہے،اس کے بعدسے حکومت اس طرح آزادہوگئی کہ چاہے وہ کچھ بھی کرے عوام کوکوئی فرق نہیں پڑتااورآج کوروناکی آڑمیں بھی وہی کھیل کھیلاجارہاہے۔کوروناکے معاملے میں جس طرح حکومت کی ناکامیاں واضح طورپرسامنے آئی ہیں لیکن اس کے باوجودبھی عوامی حلقوں میں سناٹااس بات کاواضح ثبوت ہے کہ جمہوریت کابالکل خاتمہ ہوچکاہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان قوم جسے زندہ قوم سمجھاجاتاتھاوہ آج بالکل مردہ ہوچکی ہے اوراس کی قیادت اتنی بزدل ہوگئی ہے کہ آئے دن مسلمانوں کوظلم وستم اورتشددکانشانہ بنایاجارہاہے لیکن کہیں سے بھی کوئی آوازنہیں نکل رہی ہے۔نوجوان مسلم قیادت کوختم کرنے کے لئے انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاجارہاہے لیکن ہماری اعلیٰ قیادت کی بے حسی کایہ عالم ہے کہ ظلم کے خلاف بھی آوازاٹھانے کی ہمت نہیں ہے۔مسلم علاقوں میں مسلم کش فسادات کرائے جارہے ہیں،مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑے جارہے ہیں لیکن علم احتجاج بلندکرناتودورکی بات ہلکی سی آوازاٹھانے کی بھی زحمت گوارانہیں کررہے ہیں۔کوروناکے نام پرمساجدبندہیں،لوگوں کواللہ کے گھرسے دورکردیاگیا،حالاںکہ اس دوران ملک کے مختلف علاقوں کی مندروں سے ایسی تصویریں بھی سامنے آئیں کہ جس میں لوگ مندروں میں پوجاپاٹھ کرتے نظرآئے،اس کے علاوہ ممبئی میں جین دھرم کی تین مندروں میں ان کے سالانہ عبادت کے موقع پریکجاہوکرعبادت کرنے کی اجازت بھی دی گئی لیکن ہائے رے بزدلی اورخاموشی کہ ہم آئین ودستورکی روشنی میں مساجدکھولنے کی اجازت بھی طلب کرنے کی ہمت نہیں جٹاپارہے ہیں،آخرہماری یہ بزدلی ہمیں کہاں لے جاکرڈبوئے گی ہمیں اس کااندازہ بھی نہیں ہے،کیاہم اپنی بزدلی کے ذریعے آنے والی نسلوں کوغلامی کی جانب نہیں ڈھکیل رہے ہیں؟آخرہماری ایمانی حرارت کیوں بجھ گئی؟ہم اتنے بے حس کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ سوچیں اورخوب سوچیں،ابھی بھی وقت ہے کہ جاگ جائیں ورنہ ہمیں تاریخ کاایک بھلایاہواباب بنادیاجائےگا؟اب بھی وقت ہے کہ ہم بے حسی کوچھوڑیں،بزدلی سے باہرنکلیں اورمصلحت پسندی کے نام پراپنی قوم وملت کوتباہ ہونے سے بچائیں۔