اسلامیاتسیاسی و سماجی

غیر مسلموں کو کافر کیوں کہا جاتا ہے؟

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

آر ایس ایس کی طرف سے یہ بات بار بار آتی ہے کہ مسلمان دوسری قوموں خاص کر ہندوؤں کو کافر نہ کہیں، آر ایس ایس کے ایک اہم اور نظریہ ساز ممبر جناب رام مادھو نے واضح طور پر بعض مسلمان رہنماؤں کے سامنے ہندو مسلم بہتر تعلقات کے لئے چند شرطیں پیش کی ہیں، جن میں سے اولین شرط یہی ہے کہ مسلمان غیر مسلم کو خصوصاََ ہندوؤں کو کافر کہنا چھوڑ دیں، یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے، اسی پس منظر میں یہ تحریر پیش ہے؛ تاکہ خود مسلمان بھی اس لفظ کی حقیقت کو سمجھیں اور غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں اور غیر مسلم برادران وطن تک بھی اس اعتراض کی سچائی کو پیش کریں۔
یہ ظاہر ہے کہ کوئی انسان خود اپنی مرضی اور خواہش سے دنیا میں پیدا نہیں ہوا ہے اور نہ کوئی شخص اپنی خواہش اور مرضی سے دنیا سے واپس ہوتا ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی اور طاقت ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجتی ہے اور ایک مقررہ وقت کے بعد اسے واپس بلالیتی ہے ، یہ کون سی طاقت ہے ؟ اس سلسلہ میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ سب اس فطرت کی کرشمہ سازی ہے جو پوری کائنات میں جاری و ساری ہے ، جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں اور ملحدو دہریہ ہیں ، کائنات کے وجود اور اس کے بقاء کے سلسلہ میں ان کا یہی نقطۂ نظر ہے ، دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ فطرت کو پھر بھی ایک خالق کی ضرورت ہے ، جس نے مختلف چیزوں میں الگ الگ صلاحتیں رکھی ہیں ، ایسا کیوں ہوا کہ آگ جلاتی ہے اور پانی ٹھنڈک دیتا ہے ؟ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ آگ ٹھنڈی ہوتی اور پانی گرم ہوتا، گلاب کی فطرت میں سرخی اور موتیے کی فطرت میں سفیدی رکھی گئی ، بکری ایک مسکین طبیعت جانور ہے اور شیر درندہ صفت ، یہ اختلافِ فطرت کیوں ہے ؟ پھر اگر زندگی اورموت فطرت کے تابع ہوتی ہر شخص کو ایک متعینہ وقت پر ہی موت آتی ، ہر شخص ایک مقررہ وقت پر ہی باپ بنتا ؛ لیکن ایسا نہیں ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ اس قانونِ فطرت کا بھی کوئی خالق ہے ، جس کے سامنے فطرت سر تسلیم خم کئے ہوئی ہے اور پل پل اس کے حکم کی تابع دار ہے ، اسی اَن دیکھے و جود کا نام ’’ خدا ‘‘ ہے ، خدا کے ماننے والوں کے مقابلہ ، خدا کا انکار کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ معمولی اور انگلیوں پر قابل شمار رہی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا یقین بجائے خود فطرتِ انسانی کا ایک حصہ ہے ، دنیا میں جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں ، قریب قریب یہ ان سب کے درمیان قدر مشترک ہے۔
جو لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ اس بات کو بھی ماننے پر مجبور ہیں کہ ان کو اسی طریقہ کو اپنانا چاہئے جو خدا کی طرف سے ان کے لئے مقرر کیا گیا ہو؛ کیوں کہ جو کسی مشین کو بناتا اوروجود میں لاتاہے اسی کی ہدایت کے مطابق وہ چیز استعمال بھی کی جاتی ہے ، خدا کے بتائے ہوئے طریقۂ زندگی کا نام ’’دین ‘‘ ہے اور اسی کو لوگ ’’ مذہب ‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دو متضاد چیزیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں ، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دن ورات ایک ہی ہے ، روشنی اور اندھیرا جدا گانہ حقیقتیں نہیں ہیں ، میٹھا اور نمکین ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں ، تو یہ بات یقینا سچائی کے خلاف ہوگی ، یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کو میٹھا پسند ہو تو نمکین پسند کرنے والوں کو بُرا بھلا نہ کہے ، اگر کسی کو اندھیرا بھاتا ہو تو وہ روشنی پسند کرنے والوں سے الجھے نہیں ؛ لیکن یہ کہنا کہ روشنی اور اندھیرا دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے ، یقینا ایک خلافِ عقل اور خلافِ واقعہ بات ہوگی ۔
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اصل دین ایک ہی ہے ، اسی دین کو لے کر پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اس کائنات میں اُترے ، اسی کی دعوت حضرت نوح علیہ السلا م اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی ، اسی نعرۂ حق کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انبیاء بنی اسرائیل نے اپنے اپنے عہد میں بلند فرمایا ، ہر قوم اور ہر زبان میں اسی صراطِ مستقیم کی سوغات لے کر انبیاء و رُسل پہنچے ، جس کا سلسلہ آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا :اِنَّ الدِیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَامُ( آل عمران : ۱۹) اس لئے اسلام وحدتِ دین کا قائل ہے نہ کہ وحدتِ ادیان کا، خدانے کھانے کے لئے الگ نالی بنائی ہے اور سانس لینے کے لئے الگ نالی ، اگر کوئی شخص سانس کی نالی میں کھانے کا لقمہ رکھ دے ، تو اس کی جان کے لالے پڑ جائیں گے ، اسی طرح ، نجات کی طرف لے جانے والا راستہ ایک ہی ہے ، یہ کہنا کہ راستے الگ الگ ہیں اور منزل ایک ہی ہے ، بظاہر ایک اچھا نعرہ معلوم ہوتا ہے ؛ لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ تمام دواؤں کا ایک ہی اثر ہوتا ہے ۔
جو لوگ مذاہب کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں ، وہ در اصل مذہب کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں ، جو لوگ ایک خدا کو مانتے ہوں ، جو تین خداؤں پر یقین رکھتے ہوں اور جو تین کروڑ خداؤں کے سامنے سر جھکاتے ہوں ، یہ سب برابر کیسے ہو سکتے ہیں اور کیوں کر سوچا جاسکتا ہے کہ بیک وقت یہ تمام باتیں درست ہوں گی ؟ جن لو گوں نے خدا کی طاقت کو مختلف لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور جن کے نزدیک خدا قادرِ مطلق ہے ، اس کی طاقت میں کوئی شریک و سہیم نہیں ، یہ دونوں سچائی پر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس لئے یہ کہنا کہ تمام مذاہب حق ہیں ، راستے الگ الگ ہیں اور منزل ایک ہی ہے ، اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔
ایسی صورت میں ہر مذہب کو اپنے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے لئے کوئی نہ کوئی تعبیر اختیار کرنی ہوتی ہے ، اس تعبیر کے لئے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو دوسرے مذہب پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں، ان کے لئے اہانت آمیز لفظ استعمال کیا جائے ، جیسے ہندو مذہب کی بعض کتابوں میں غیر ہندو کے لئے ’’ ملیچھ ‘‘ (ناپاک) کالفظ استعمال کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ دوسروں کے لئے اہانت آمیز تعبیر ہوگی ، دوسری صورت یہ ہے کہ ایک تعبیر اس مذہب کے ماننے والوں کے لئے ہو اور ایک اس کے نہ ماننے والوں کے لئے ، جس کا مقصد ان کے نقطۂ نظر کا اظہار ہو، اکثر آسمانی کتب میں یہی صور ت اختیار کی گئی ہے ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کو یہودا کی نسبت سے یہودی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے عیسائی کہا گیا اور تورات و انجیل میں اس زمانے کے اس دین حق پر ایمان نہ رکھنے والوں کے لئے ’’ کافر ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا اور اس انکار کو ’’ کفر ‘‘ کہا گیا ۔
یہی تعبیر آخری ، مکمل اور محفوظ کتابِ ہدایت قرآن مجید میں بھی اختیار کی گئی ہے ، جو لوگ اس کی تعلیمات پر یقین رکھنے والے ہیں ان کو ’’مسلم‘‘ یا’’ مومن‘‘ کہا گیا ، یعنی احکام اسلام کو ماننے والا اور اسلامی تعلیمات پر یقین رکھنے والا اور اس کے انکار کو ’’ کفر ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ؛ چنانچہ قرآن مجید میں دین اسلام سے انحراف اور اس انحراف پر یقین رکھنے والوں کے لئے مختلف صیغوں میں ’’ کفر ‘‘ اور ’’ کافر ‘‘ کا لفظ ۴۹۴ بار استعمال کیا گیا ہے ؛ مگر یہ کوئی نئی تعبیر نہیں ہے ۔
عربی زبان میں کفر کے اصل معنی چھپانے کے آتے ہیں ؛ اسی لئے رات کے لئے بھی کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، کہ وہ بھی اپنے پردۂ ظلمت میں لوگوں کو چھپاتی ہے ، کاشتکار چوںکہ بیج کو زمین کی تہہ میں چھپادیتا ہے ؛ اس لئے عربی زبان میں کاشتکار کو بھی بعض اوقات کافر سے تعبیر کیا جاتا ہے ، ( مفردات القرآن :۲؍ ۵۵۹) غالباً اسی مناسبت سے یہ لفظ سمندر اوراندھیرے بادل کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ، (القاموس المحیط : ۶۰۵) کہ سمندر اپنی تہوں میں کتنی ہی جمادات و نباتات کو چھپائے ہوئے ہے اور گھنا بادل دھوپ اور فضاء میں پائی جانے والی چیزوں کے لئے حجاب بن جاتا ہے ، جو شخص ناشکرا اور جذبۂ شکر سے عاری ہو ، وہ گویا اپنے محسن کی طرف سے آنے والی نعمت کو پردۂ خفا میں رکھ دیتا ہے ؛ اس لئے ناشکری کے لئے بھی کفر کی اصطلاح استعمال ہوئی ، خود قرآن مجید میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ (مفردات القرآن :۲؍۵۵۹)
کسی بھی زبان میں ایک لفظ کا جو حقیقی معنی ہوتا ہے وہ براہِ راست اور بالواسطہ مناسبتوں کی وجہ سے نئے نئے پیکر میں ڈھلتا رہتا ہے ، ناشکری میں نعمتوں سے جحود و انکار کا معنی پایا جاتا تھا ، اس مناسبت سے کافر کا معنی مطلق انکار کرنے والا قرار پایا اور جو لوگ اسلامی عقیدہ اور نظامِ حیات کو نہ مانتے ہوں ، ان کے لئے کافر اور ان کی انکاری فکر کے لئے کفر کا  لفظ استعمال ہونے لگا :  واعظم الکفر جحود الوحدانیۃ أوالشریعۃ أوالنبوۃ (مفردات القرآن :۲ ؍ ۵۵۹) قرآن مجید میں بھی غیر مسلموں کے لئے کافر کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ، علمائے یہود سے کہا گیا کہ تم اسلام کے اولین منکر نہ بن جاؤ : وَلَا تُکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ( البقرۃ : ۴۱) قرآن نے ایک موقع پر حج کو فرض قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ جو اس کو نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں :  مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اﷲَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ( آل عمران : ۹۷) مشرکین مکہ آخرت کے جزا ء و سزا کے منکر تھے ؛چنانچہ ان کے انکار آخرت کو قرآن میں اس طرح تعبیر کیا گیا : وَھُمْ بِالْآخِرَۃِ ہُمْ کَافِرُوْنَ (یوسف : ۳۷)
یہاں کفر کے معنی انکار کرنے اور تسلیم نہ کرنے کے ہی ہیں ، قرآن نے قیامت کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ اہل دوزخ جب شیطان پر لعنت ملامت کریں گے ، تو شیطان نہایت ڈھٹائی سے کہے گا کہ تم نے جو مجھ کو خدا کا شریک ٹھہرایا تھا ، میں اس کا انکار کرتا ہوں ، اس انکار کو قرآن نے کفر کے لفظ سے تعبیر کیا ہے :  اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ (ابراہیم : ۲۲) اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے اور سحر کا انکار کرنے والے کے توحید سے منکر ہونے کو لغوی معنی میں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے : وَ لَمَّا جَآئَھُمُ الْحَقُّ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ وَّ اِنَّابِہٖ کَافِرُوْنَ ۔ ( الزخرف : ۳۰)
دیکھئے یہاں شرک کے انکار کو نہیں ؛ بلکہ توحید کے انکار کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ، گویا لغت کی رو سے کفر کے معنی ، چھپانے ، ناشکری کرنے ، انکار کرنے اور نہ ماننے کے ہوئے ۔
قرآن نے جو اسلام نہ قبول کرنے والوں کو کافر کہا ہے ، وہ اسی معنی میں ہے کہ یہ شخص اسلامی تعلیمات کا انکار کرتا ہے ، گویا کافر کے معنی غیر مسلم کے ہوئے ، جیسے کوئی شخص ہندو نہ ہو تو اس کو غیر ہندو اور عیسائی نہ ہو تو اس کو غیر عیسائی کہا جاتا ہے ، اسی طرح جو شخص اسلام کو نہ مانتا ہو اسے غیر مسلم کہا جائے گا ، عربی زبان میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ’’کافر‘‘ کا لفظ ہے ، یعنی ایسا شخص جو خدا کو ایک نہ مانتا ہو او راسلامی افکار و معتقدات کا قائل نہ ہو ، اس میں نہ کوئی خلافِ واقعہ بات ہے ، نہ کسی کی اہانت ہے ، نہ نفرت و عداوت کا اظہار ہے ، اگر کسی غیر مسلم کو مسلمان زبردستی مسلمان کہتے ؛ جیسا کہ ہمارے ہندو بھائی ان لوگوں کو بھی ہندو کہنے پر مصر ہیں، جو پوری وضاحت و صراحت اور اصرا رکے ساتھ اپنے ہندو ہونے کا انکار کرتے ہیں ، تو یہ یقینا ان کی توہین کی بات ہوتی ، پس حقیقت یہ ہے کہ اگر اس لفظ کے معنی پر غور کیا جائے ، تو جن لوگوں کے لئے یہ تعبیر اختیار کی جارہی ہے ، ان کے لئے یہ تعبیر محض ان کے نقطۂ نظر کا اظہار ہے ، نہ کہ یہ عداوت و نفرت پر ابھارنے والی تعبیر ہے ۔
پھر غور کیجئے کہ قرآن مجید میں زیادہ تر اہل مکہ کو کافر کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے ، اگر اس تعبیر میں توہین اور تمسخر مقصود ہوتا، تو عرب جو اس زبان کے رمز آشنا اور ذو قِ ادب کے حامل تھے ، وہ اس پر معترض ہوتے ؛ لیکن اہل مکہ کی طرف سے کوئی ایسا احتجاج سامنے نہیں آیا ؛ بلکہ خود غیر مسلم اپنے کافر ہونے کا اقرار و اعتراف کرتے تھے او رکہتے تھے ، کہ تم جو پیغام لے کر آئے ہو ہم اس سے کفر کرتے ہیں : اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَ  (الزخرف : ۲۴)
عجب بات ہے کہ اس وقت اسلام کے خلاف مغربی میڈیا اور سنگھ پریوار نے جو بے جاشورش شروع کر رکھی ہے ، وہ ایسی تیز آندھی کی طرح ہے کہ اس میں اُڑنے والے خس وخاشاک کو بھی لوگوں نے گل و ثمر سمجھ رکھا ہے اور دنیا آنکھ بند کر کے اس پر آمین کہتی جاتی ہے ، سنگھ پریوار کے لوگ تو اپنے تعصب اور جہالت میں اس قسم کی بے معنی باتیں کہتے ہی رہتے ہیں ، پچھلے دِنوں بمبئی کی ایک عدالت کا جو فیصلہ سامنے آیا ، وہ نہایت حیرت کا باعث ہے کہ اس لفظ کے اصل معنی و مقصود کو سمجھے اور اس کی مناسب تحقیق کئے بغیر اس کو توہین آمیز اور نفرت انگیز تعبیر قرار دے دیا گیا ، کسی مسلمان کو کافر کہنا تو یقینا اس کی توہین ہے ؛ کیوں کہ یہ اس کے دعویٰ اسلام کو جھٹلانے کے مترادف ہے ؛ لیکن جو شخص مسلمان نہ ہو، اس کو کافرکہنا ایک سچائی کا اظہار ہے نہ کہ توہین ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×