ریاست و ملک

واٹس اپ، فیس بک اور انسٹاگرام کی خدمات دنیا بھر میں چھ گھنٹوں تک معطل، صارفین کو دشواری کا سامنا

ہندوستان سمیت دنیا بھر میں پیر کی شب صارفین کو سماجی رابطے کا بڑا پلیٹ فارم فیس بُک اور اس کی ذیلی دوایپس وٹس ایپ اور انسٹاگرام کی خدمات معطل تقریبا چھ گھنٹے تک متأثر رہنے کے بعد بحال ہوچکے ہیں۔

فیس بک، انسٹاگرام اور وَاٹس ایپ تینوں دنیا کے بیشتر ملکوں میں کام نہیں کرپارہے تھے۔

کمپنی کے ترجمان نے  صارفین کو درپیش اس مسئلے پرمعذرت خواہی کی۔

ترجمان اینڈی سٹون نے ٹویٹرپرلکھا ہے:’’ہمیں معلوم ہے کہ کچھ لوگوں کو ہماری ایپس اور مصنوعات تک رسائی میں دشواری کا سامنا ہے۔ ہم جلدسے جلد حالات معمول پر لانے کے لیے کام کررہے ہیں اور ہم کسی بھی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘‘

یہی بیان کچھ دیر کےبعد فیس بک کے آفیشل ٹویٹر پیج پر بھی پوسٹ کیا گیا تھا۔انسٹاگرام نے بھی اسی طرح کی اپ ڈیٹ شیئر کی ہے۔

وَٹس ایپ نے بھی اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے صارفین کواپ ڈیٹ کیا اور لکھا ہے کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت کچھ لوگوں کو وَٹس ایپ کے استعمال میں مسائل کا سامنا ہے۔ہم چیزوں کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں اوربہت جلد یہاں اپ ڈیٹ جاری کریں گے۔آپ کے صبرکا شکریہ‘‘۔

یہ تینوں مقبول ترین ایپس کی خدمات معطل ہونے کے بعد صارفین کی جانب سے  ٹوئٹر پر  واٹس اپ اور فیس بک کے ہیش ٹیگ سے ٹرینڈ شروع کیا گیا جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ صارفین نے نیٹیزنس کو خوب محظوظ کیا اور مختلف طرح کے میمز کے ذریعہ اس بندش کا خوب مذاق اُڑایا۔

فیس بک کی سروس میں تعطل ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اس کمپنی کو ان دنوں بڑے بحران کا سامنا ہے کیونکہ ایک وِسل بلوئر جو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی اس سیریز کا ذریعہ(سورس) ہیں جس میں فیس بک کے بارے میں اہم انکشافات کیے جا رہے ہیں، اتوار کو منظر عام پر آ گئی ہیں۔
وِسل بلوئر فرانسس ہیگن کی شناخت اتوار کے سی این این کے پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ انٹرویو میں اس خاتون کے طور پر کی گئی جس نے نام ظاہر کیے بغیر قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں میں شکایات درج کرائیں کہ فیس بک کی اپنی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کس طرح نفرت اور غلط معلومات کو بڑھاوا دیتی ہے، لوگوں میں باہمی تفریق میں اضافہ کرتی ہے اور یہ کہ خاص طور پر انسٹاگرام نوعمر لڑکیوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وال سٹریٹ جرنل کی سٹوریز جنہیں ’دی فیس بک فائلز‘ کہا جاتا ہے، نے ایک ایسی کمپنی کی منظر کشی کی ہے جس کی توجہ عوامی بھلائی کے بجائے اپنی ترقی اور اپنے مفادات پر مرکوز تھی۔
فیس بک پالیسی اور عوامی امور کے نائب صدر نک کلیگ نے فیس بک کے ملازمین کو جمعہ کو ایک میمو میں لکھا کہ ’حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کا معاشرے پر بہت بڑا اثر پڑا ہے اور اکثر فیس بک ہی ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں اس بحث کا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing