سیاسی و سماجی

خوفزدہ چہروں پر ایک نئی ’مُسکان‘

ایک چنگاری کافی ہے‘ انقلاب کے شعلوں کو بھڑکانے کے لئے۔

مسکان نے اپنی نسوانی مگر عزم و ہمت سے آراستہ پُروقار آواز میں جب نعرہئ تکبیر اللہ اکبر بلند کیا، ایک زعفرانی لشکر ہی کیا سہم کر رہ گیا‘ ایسا لگا ہندوستانی مسلمان بھی خواب غفلت سے بیدار ہوگیا۔ کرناٹک کے اُڈپی کے گاندھی میموریل کالج کی طالبہ مسکان خان کو اس کی عزم و ہمت اور اشرار کے جم غفیر کے آگے ڈٹ کر نعرہ بلند کرنے نے چند گھنٹوں میں ساری دنیا میں اسے دلیری اور جرأت کے پیکر کے طور پر مشہور کردیا۔ دنیا کا ہر اہم ٹیلی ویژن چیانل اور اخبار مسکان کر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مجبور ہے۔ اُڈپی کرناٹک کا وہ شہر جو تاریخی ا ور قدیم منادر کے لئے مشہور ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہندوتوا انتہا پسندی کے لئے مشہور ہونے لگا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے، جو بھی ہیں وہ ہمت اور ایمان کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ ساحلی شہر جو سیاحت کے لئے بھی مشہور ہے۔ کرناٹک سے باہر کے علاقوں میں اپنی اُڈپی ہوٹلوں کی وجہ سے زیادہ متعارف رہا کیونکہ اڈپی ہوٹلوں کو اڈلی واڑا، دوسہ، کو متعارف کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔

گذشتہ کچھ دنوں سے یہاں کے گورنمنٹ کالج کے ہندوتوا ذہنیت کے پرنسپل کی مسلم طالبات کے ساتھ جانبدارانہ رویے اور ان باہمت طالبات کی جانب سے پرنسپل کے حجاب پر پابندی کے اقدامات کی مخالفت اور حجاب کے ساتھ کالج آنے کی ضد یا اٹل فیصلے اور اُسے میڈیا میں دی جانے والی تشہیر کی وجہ سے عالمی سطح پر اہمیت ملنے لگی تھی۔ کالج کے پرنسپل کو غالباً اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد یا والنٹری ریٹائرمنٹ کی صورت میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ جو پابندی برسوں سے نہیں تھی‘ اسے اس نے عائد کی۔

کرناٹک کے مسلم ارکان اسمبلی میں سے صرف ایک خاتون رکن جناب قمرالاسلام کی بیوہ کنیز فاطمہ نے ہی ان لڑکیوں کی حمایت میں بیان دیا تھا کہ جب وہ حجاب کے ساتھ ایوان اسمبلی میں داخل ہوسکتی ہیں‘ تو طالبات کالج میں کیوں نہیں جاسکتیں؟ مرد ارکان اسمبلی جانے کس مصلحت کے تحت زبان بندی کے لئے مجبور تھے۔ مسکان خان نے جب زعفرانی لشکر کو تنہا للکارا تو یقینا وہ سارے مرد حضرات جو ملت کے نام پر ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرتے رہے‘ چلّو بھر پانی تلاش کرنے لگے ہوں گے۔ مسکان خان کے واقعہ کا اگر ویڈیو کلپ کا بغور مشاہدہ کریں تو آپ کو یہ اندازہ ہوگا کہ اپنے ٹووہیلر کے پارکنگ سے لے کر زعفرانی لشکر کے نعروں کا نعرہئ تکبیر سے جواب دینے تک لے کر کالج کے اندر داخل ہونے تک اس کا ہر قدم پورے اعتماد کے ساتھ اٹھ رہا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ برقعہ پہن کر نہیں بلکہ کفن اوڑھے کالج کے حدود میں داخل ہوئیں۔ مختلف ٹی وی چیانلس پر ان سے انٹرویو لیا گیا ظاہر ہے کہ خداپر اور خود پر اتنے اعتماد والی لڑکی کے جوابات بھی تسلی بخش ہی رہے ہیں۔ ایک لڑکی کی ہمت نے کرناٹک کی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا اور اسے تین دن تک کے لئے ریاستی تمام تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا اعلان کرنا پڑا۔ مسکان خان کے واقعہ نے دوسال پہلے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کی یاد تازہ کردی۔ جامعہ ملیہ میں جب پولیس اندر داخل ہوکر وحشی درندوں کی طرح طلبہ پر لاٹھیوں کی بارش کررہی تھی تب لدیدہ اور اس کی ساتھی طالبات اپنے ساتھی طالب علم کے لئے دہلی پولیس کے آگے ڈھال بن گئیں۔ اور Go Back کے نعرے اس شدت سے لگائے کہ کمزوروں پر لاٹھیاں برسانے والے خاکی وردی پوش واپس ہوجانے کے لئے مجبور ہوگئے۔ کیرالا سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ اسکالر لدیدہ بھی اُس وقت عزم و ہمت کی پیکر کے طور پر ساری دنیا میں مشہور ہوگئی تھیں۔ اور شاہین باغ پر 101دن تک کا احتجاج تو آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو آنے والی نسلوں کو ایک نئی ہمت عطا کرے گا۔ یہ اُس وقت بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آواز اٹھانے والی ظالم پولیس سیکوریٹی فورسس کے آگے ڈٹ جانے والی بھی خواتین ہی تھیں۔ پہلی بار دنیا کو معلوم ہوا کہ ویمن پاور کیا ہوتا ہے۔ یوں تو انفرادی طور پر ہر فرد کو ویمن پاور کا گھریلو تجربہ کی بنیاد پر اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ کس طرح سے شیرخوار بچیوں کو گود میں لے کر آنے والی گھریلو خواتین زندگی کے آخری پڑاؤ میں بچی کچی سانسیں گننے والی نانیوں اور دادیوں نے اس ا حتجاج کو تاریخ ساز بنایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 80برس سے زائد عمر کی بلقیس دادی کو ٹائم میگزین نے 100بااثر افراد کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اپنے ٹائٹل پر اس کی تصویر شائع کی تھی۔ اِن ضعیف خواتین نے بکاؤ میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کا جس طرح سے جواب دیا تھا اس کے بعد کئی دنوں تک بے غیرت اور بے شرم ہونے کے باوجود یہ ٹی وی اینکرس منہ چھپاتے پھرے۔ شاہین باغ کا احتجاج کسانوں کے احتجاج کی طرح اس وقت تک جاری رہتا جب تک متنازعہ قوانین سے حکومت دستبردار نہ ہوتی جیسا کہ زرعی قوانین کے معاملے میں انہیں اپنے قدم پیچھے ہٹانے کیلئے مجبور ہونا پڑا تھا۔ شاہین باغ احتجاج کو ختم کرنے کے لئے حکومت کو کرونا کے بہانے لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا۔ ورنہ وہ خواتین احتجاج کی جگہ کو ایک نئی بستی میں بدل کر رکھ دیتیں۔اپنے تشخص، شہریت اور دستوری حقوق کیلئے شاہین زادیوں نے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں شیرخوار بچے سردی کا تاب نہ لاکر موت کے آغوش میں چلے گئے۔ اپنے آنسوؤں کو پیکر ایک ماں دوبارہ شاہین باغ پر ڈٹ گئیں۔ شاہین باغ باہمت خواتین و طالبات سے لے کر جے این یو اور جامعہ ملیہ کی دختران قوم نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ صفورا زرگر کو جب ظالم ارباب اقتدار نے سلاخوں کے پیچھے بھیجا تو تاریخ کے ا وراق چیخ چیخ کر یاد دلانے لگے کہ آج کی حکومت وہی کام کررہی ہے جو غدر کے وقت اور اس کے بعد انگریز سامراج نے کیا تھا۔ تاریخ میں اُن 225 مسلم خواتین کے نام یقینی طور پر ہوں گے جنہوں نے 1857ء کے غدر میں انگریز سامراج کے مظالم ان کے تسلط کے خلاف اپنی جانیں قربان کردیں۔

آپ نے اصغری بیگم کا نام بھی سنا یا پڑھا ضرور ہوگا۔ جی ہاں! تھانہ بھون (اترپردیش) کے قاضی عبدالرحیم کی والدہ جنہوں نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اور انگریزوں نے 1858ء میں گرفتار کرکے زندہ جلادیا۔تاریخ اسلام میں تو بہت ساری خواتین کا ذکر ملتا ہے مگر ہم بات کریں گے۔ غلام اور آزاد ہندوستان کی۔

عابدہ بانو بیگم صاحبہ کو آپ بھی جانتے ہیں۔ شاید یہ نام سے نہیں بلکہ بی اماں کے نام سے۔ علی برادران کی والدہ جنہیں گاندھی جی بھی اپنی ماں کہتے تھے اور ان سے آشیرواد لیا کرتے تھے۔ اور گاندھی جی کے مشورے پر بی اماں نے خلافت تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور برقعہ پہن کر خلافت تحریک ریالی کو خطاب کیا۔ بی اماں کی بہو مولانا محمد علی جوہر کی شریک زندگی امجدی بیگم سے کیا آپ واقف نہیں ہیں؟ جومولانا محمد علی جوہر کی ہمت تھیں۔ 1937ء میں لندن میں گول میز کانفرنس میں وہ مولانا جوہر کے بازو ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اُس دور میں خواتین میں نیا جوش، نیا ولولہ پیدا کیا تھا۔اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن سے بھی خطاب کیا تھا۔ اس باہمت خاتون سے متعلق گاندھی جی نے ایک مضمون ”بہادرخاتون“ کے عنوان سے لکھا ہے۔

حبیبہ کو کون بھول سکتا ہے۔ ایک ایسی خاتون مجاہد آزادی جس نے مظفرنگر میں انگریزوں کے خلاف کئی لڑائیاں لڑیں۔ وہ صرف 25برس کی تھیں۔ انگریزوں نے گرفتار کرکے گیارہ خاتون حریت پسندوں کے ساتھ پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا۔

چوں کہ تاریخ تعصب پرستوں نے مرتب کی ہے۔ اس لئے وہ عظیم خاتون مجاہدین آزادی کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان آزاد ضرور ہوا مگر ذہنی طور پر انگریزوں کا غلام رہا۔ اور جدوجہد آزادی کے دوران جو انگریزوں کے تنخواہ دار، وفادار اور غلام رہے انہوں نے اپنے آقاؤں کی وفاداری نبھانے کے لئے اس عظیم ملک میں ان کے مشن کو جاری رکھا۔ انگریز ہی تو تھے جنہوں نے بین مذاہب نفرت‘ دشمنی اور بین مسالک اختلافات کی بنیاد ڈالی تھی۔ آج انگریزوں کے غلام ہر اُس مجاہد آزادی کی یادگار کو مٹانے تاریخ کے اوراق سے ان کے نام حذف کرنے کیلئے کوشاں ہیں جنہوں نے انگریزوں کی نیند حرام کی تھی۔کرناٹک ہی میں ٹیپو سلطان شہید کی مخالفت شروع ہوگئی۔ ایسے کئی نام ہیں جنہیں ہم نے اپنے اسکول کے دور میں نصابی کتابوں میں پڑھا تھا۔جو اب فراموش کئے جاچکے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران مختلف مقامات پر خواتین نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی ہیں۔ احتجاج کے لئے وہ سڑکوں پر بھی آئیں۔ مظاہرے بھی کئے۔ بالخصوص جب جب مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی گئی تب تب مسلم طالبات اور خواتین نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ پولیس مظالم کے خلاف بھی انہوں نے آواز اٹھائی۔ کشمیر میں سیکوریٹی فورسس کے مظالم کے خلاف خواتین کا احتجاج، وہاں کے روز مرہ کے معاملات میں شامل ہیں۔حیدرآباد میں بھی ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں لڑکیاں اور خواتین آگے رہیں۔ احتجاجی جلسے بھی کئے۔ قنوت نازلہ کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہماری لڑکیوں میں جن کی صحیح تعلیم و تربیت ہوئی ان میں جذبہ ہے۔ صرف اس ساکن جذبہ کو پُرتعش کرنے کی ضرورت ہے۔ جب قوم کی بیٹیاں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں تو قوم کے مرد حضرات بھی غیرت کا لباس پہن کر باہر نکلنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔

حجاب کا مسئلہ انشاء اللہ حل ہوجائے گا۔ مخالفت کرنے والے واقعی اندھے ہیں۔ راجستھانی غیر مسلم خواتین بھلے ہی یہ حجاب نہ اوڑھیں مگر وہ ساری کے پلو کو گھونگھٹ کی طرح استعمال کرتی ہیں اور ایک طرح سے وہ غیر مردوں سے پردہ کرتی ہیں۔

حجاب کے لئے ہم اتنی جدوجہد کررہے ہیں قابل تعریف ہے۔ اب ہماری لڑکیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا حجاب واقعی حجاب ہو۔ ورنہ اکثر فیشن ڈیزائنر حجاب اور برقعوں نے بے حجابی کو بڑھاوا دیا۔ برقعہ نسوانی حسن کی حفاظت اور اس کے خدوخال کو چھپانے کے لئے ہے۔ نمائش کے لئے نہیں۔ کمبخت فیشن ڈیزائنرس جس طرح کے برقعے طالبات کے لئے تیار کررہے ہیں‘ وہ حجاب اور برقعہ کی توہین ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی غیر مسلم طالبات اور خواتین برقعہ کی آڑ میں بہت کچھ کررہی ہیں حتیٰ کہ بھیک مانگنے کے لئے بھی انہوں نے برقعہ کا استعمال کیا ہخوفزدہ-چہروں-پر-ایک-نئی-مُسکانے۔ آج جبکہ حجاب کے لئے ہم جدوجہد کررہے ہیں‘ یہ جدوجہد بھی کرلیں کہ برقعہ کا وقار کسی بھی صورت میں متاثر نہ ہونے پائے۔کالج کی مسلم طالبات‘ اسکارف کے ساتھ پبس اور نائٹ کلب جانے لگی ہیں۔ یہ ان کے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر نظر رکھیں۔ مگر ایسی حرکت وہی کرتی ہیں جن کے والدین خود بے راہ روی کے شکار ہیں۔ حجاب کا حق بھی حاصل کریں اور حجاب کے تقدس کا تحفظ بھی کریں۔ بہرحال مانڈیا کی مسکان کی وجہ سے کرناٹک اور ملک کے مختلف علاقوں کے مختلف وجوہات کی بناء پر جن چہروں پر خوف و ہراس کے سائے تھے اُن پر اب مسکان نظر آنے لگی ہے۔ ایک نیا اور جوش و ولولہ پیدا ہواہے اسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

One Comment

  1. *جوش نہیں ہوش سے کام لیں*
    *نہ قانون ٹوٹے نہ شریعت چھوٹے*

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    *قارئین کرام۔۔!!*

    *لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ بالخ*

    جب سے بابری مسجد کے خلاف فیصلہ آیا ہے جب سے آج تک۔۔۔۔ نہ جانے آگے کب تک حالات دن بدن بگڑتے چلے آرہے ہیں کبھی تو ملک کے امن کو بدامنی سے بدل نے کی کوشش اور کبھی تو ہندو مسلم کے جھگڑے۔۔۔ ایک کے بعد دیگر ایک مسںٔلوں کو نشانا بنایا جارہا۔۔۔جس کو ہر سیاسی جماعت کے لوگ اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لئے ان مسںٔلوں پر اور نمک ڈال رہے ہیں خصوصاً ان دنوں میں جب کہ آج سے پانچ صوبوں میں الیکشن ہونے والے ہیں ہر سیاسی جماعت جاہِ اقتدار کی طلبگار ہیں عوام میں سوائے مسجد اور مندر ،ہندو اور مسلم کے علاوہ کوئی اور کام کی بات کرنے کی ہمت نہیں ہورہی ہیں
    الغرض ان دنوں جس مسںٔلہ کی ان درندوں نے جو آگ لگاںٔی ہیں وہ ساری دنیا میں پھیل چکی ہے جس کے خلاف کںٔی ملکوں نے خصوصاً پاکستان نے بھی آواز اٹھائی ہیں جس کے نتیجے میں بھارت کے ان صوبوں میں جس میں ہندو مسلم اتحاد باقی ہیں،جہاں سیکولرازم باقی ہیں خصوصاً ہمارا صوبہ تلنگانہ وہاں کی بھی شانتی ختم ہورہی ہیں، وہاں بھی بدامنی پھیل چکی ہیں آج کی تازہ ترین خبروں کے مطابق حیدرآباد کے ایک کالج میں ایک مسلم خاتون کو وہاں کے پرنسپل نے بنا حجاب کے کالج آنے کا حکم دیا۔۔۔ بہرحال ہم سب کو جزبات سے نہیں بلکہ دور اندیشی سے کام لینا چاہیے حجاب کا مسںٔلہ بعد میں آیا ہے پہلے امن و شانتی کی ترغیب دی گئی لھذا ہم علماء کرام اس کی فکر کریں اور عوام کو ہوش سے کام لینے کی ترغیب دی جائے۔۔ محض نعرے بازی سے کچھ ہونے والا نہیں ہیں بلکہ باطل اس سے اور قوی ہوگا اس لئے اب ضرورت یہ ہیکہ ہم امن کی بات کریں اور غیروں میں جا جا کر کام کریں اس کے لئے ہم مسلمانوں کو روزمرہ کی زندگی سنتِ رسولﷺ کے مطابق گزاریں اور اسوۂ رسول کو اپنانے کے فکر کریں جس سے *نہ قانون ٹوٹے نہ شریعت چھوٹے* جس کے لئے بااخلاق ہوکر زندگی بسر کریں مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا ہونہار شہری بنیں۔۔۔۔ خصوصاً سفروں میں بس،ٹرین،فلاںٔٹ اور سگنلز پر اور حکومتی اداروں،سرکاری ملازمیں سے اپنا برتاؤ ایک بہتریں مسلمان اور باعزت شہری کی طرح پیش آۓ
    پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں مسلمان ہی پر پابندی عائد ہوجائے۔۔

    یہ جو اقدامات اٹھائے جائیں گے تو وہ محض ملک کی امن وسلامتی کی بقاء کے خاتر۔۔۔۔
    ان حالات کا پہلا رخ تو یہ ہیکہ اللہ ہم سے ناراض ہیں جس کے سبب یہ حالات ہم پر آرہے ہیں مساجد،مدارس،حج،عمرہ،حرمین شریفین کا ہمارے لئے بند ہوجانا پھر علماء کا کثرت سے اس دنیا سے رخصت ہونا یہ یقیناً اللہ کے ناراض ہونے کی دلیل ہے لھذا ہم اللہ سے رجوع ہوکر معافی مانگیں پھر امن و سلامتی کو طلب کریں پھر صدقات کے ذریعے اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کریں بھر نفل روزوں سے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔
    یہ ملک ہم سب کا ہیں نہ کہ کسی مخصوص فرقے کا۔۔۔۔ یہ ایک بہترین موقع ہے جمہوریت کو فروغ دینے کا۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم ہم سب کو امن وسلامتی کی بقاء کا ذریعہ بنائے۔۔۔۔

    آمین یارب العالمین

    طالبِ دعاء

مشرف فضیل متعم خیرالمدارس بورابنڈہ کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×