سیاسی و سماجی

وہ مسلمان ہی کیا جو حالات سے گھبراجائے

امریکہ اور چین کی مہربانی سے ساری دنیا میں وبائی مرض پھیل گیا اور اس سے کہیں زیادہ اس کا پروپگنڈہ جاری ہے۔ ساری دنیا قید خانہ بن چکی ہے اورجن حالات سے دنیا دوچار ہے‘ اس سے لگتا ہے گویا کم از کم 200برس پیچھے کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ یقینا اللہ کا عذاب مختلف شکلوں میں نازل ہوتا ہے۔ اور اللہ نے جسے اشرف المخلوق بنایا ہے وہ ایک دوسرے پر اپنی بَرتَری ثابت کرنے کے لئے جو آئے دن تجربے کرتا رہتا ہے‘ اس کے اثرات سے ساری دنیا غیر یقینی حالات سے دوچار ہوچکی ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا ایک بین الاقوامی سازش کی لکھی گئی اسکرپٹ کہ جس طرح ناول Eyes of the Darkness میں جو 1980ء کے دہے میں لکھی گئی تھی‘ اس وبائی مرض کا ذکر کیا تھا۔ اور 2011 میں بنائی گئی فلم Contagion کو اگر دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے گویا 10سال پہلے ہی اس تمام ڈرامے کی اسکرپٹ لکھی جاچکی تھی۔ ایک عالمی مرض کو ہمارے مہان بھارت نے جس خوبی کے ساتھ مسلمانوں سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی اس نے وقتی طور پر مرکزی حکومت کی کئی خامیوں، کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیا۔ اور سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی مخالفت کرنے والوں کی ادھوری کوششوں اور سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا۔ اس کا کریڈٹ یقینا میڈیا کو جاتا ہے جو وقتاً فوقتاً ہندوتوا نظریہ کی تشہیر کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جسے ارباب اقتدار نے کروڑوں روپئے کے اشتہارات کے عوض اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا ہندی اور غیر اردو پرنٹ میڈیا کی اکثریت نے موجودہ حکومت اور اس کے ہم خیال تنظیموں اور تحریکات کے نظریات کو عام کرنے کے لئے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ کرونا وائرس کا معاملہ تو دو تین مہینے کے دوران کا ہے۔ اس سے پہلے بھی سیاہ قوانین کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف انہوں نے بہت زہر پھیلایا۔ اس سے پہلے طلاق ثلاثہ قانون کی حمایت میں تحریک چلائی۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا۔ سیاہ قوانین کے معاملہ میں میڈیا کو شرمناک ہتک ہوئی تھی۔ انہوں نے شاہین باغ، لکنھؤ کے گھنٹہ گھر، کولکتہ کے سرکس پارک کے احتجاج کو ناکام بنانے پولیس مشنری کو اُکسانے اور مسلم دشمن عناصر کو احتجاجیوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ مگر ہر محاذ پر انہیں شکست فاش ہوئی تھی۔
جب وائرس پھیلا اور بدقسمتی سے مرکز نظام الدین کو منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو اس کے لئے بھی میڈیا کا رول ہی کلیدی رہا۔ اور اُن سیاسی مذہبی قائدین کا جو سستی شہرت کے لئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ بیشتر چیانلس نے بیہودہ قسم کے اینکرس کی خدمات حاصل کی ہیں‘ جو مسلمانوں کو بے عزت کرتے رہتے ہیں چوں کہ ان چیانلس پر مباحث میں حصہ لینے والا ہر کوئی اسد اویسی‘ مولانا ارشد مدنی یا تسلیم رحمانی نہیں ہوتا۔ جو اینکرس کی کم ظرفی، کمینہ پن اور ان کی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ بیشتر ایسے بیوقوف قسم کے افراد کو ٹوپی پہناکر بٹھادیا جاتا ہے‘ جن کی خضابی داڑھیاں اور مکروہ چہرے ان کے منافق ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق آر ایس ایس کی مسلم راشٹریہ منچ سے بھی ہوتا ہے۔
بہرحال! میڈیا نے تبلیغی جماعت کو ویلین بناکر جو نفرت اور فرقہ پرستی کا وائرس پورے ملک میں پھیلایا ہے اس کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ کہیں مسلم دکانداروں کا پھل اور سبزی فروشوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ کہیں ان کے گھروں میں گھس کر پولیس اور ان کے ساتھ آر ایس ایس کے کارکن پُرتشدد حملے کررہے ہیں۔ داڑھی ٹوپی دیکھ کر ماراپیٹا جارہا ہے تو کہیں انہیں لاک ڈاؤن میں بھی اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان غنڈہ عناصر کے حوصلے اس لئے بلند ہیں کہ انہیں اکثر ریاستوں کے سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل ہے جو وقتاً فوقتاًمسلمانوں کے خلاف بیانات دے کر انہیں تمام مسائل کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گیہلوٹ ہو یا بعض دوسری ریاستوں کے ڈپٹی چیف منسٹرس‘ ارکان پارلیمان‘ ارکان اسمبلی‘ انہوں نے سدگرو، ہرے کرشنا مشن، بابا رام دیو آشرم، رام نومی کے تہوار، یوگی کے کھلم کھلا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی، کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے کی برتھ ڈے پارٹی کے شور شرابے کو نظر انداز کردیا اور صرف مرکز کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ آسام کی فارینرس ٹریبیونلس (FTF) نے بھی آسام کے وزیر صحت اور فینانس مسٹر بسوا شرما کے نام ایک مکتوب میں یہ لکھ دیا ہے کہ COVID-19 کی امداد تبلیغی جماعت کے ارکان کو نہیں دی جائے گی۔ جو ایک سرکاری ادارہ کی جانب سے جو آسام میں غیر ملکی شہری کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اس کی جانب سے اس قسم کے اقدام سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے کارگل کی جنگ میں ہندوستان کے لئے بہادری کے ساتھ حصہ لینے والے اور 30سال تک ہندوستانی فوج کے لئے خدمات انجام دینے والے ثناء اللہ کو غیر ملکی قرار دے کرڈیٹنشن سنٹر میں رکھا تھا۔ آسام ہائی کورٹ کی ضمانت پر اِن دنوں باہر نکلے ہوئے ہیں۔
میڈیا کے زہر پھیلانے کے بعد کئی ایسے واقعات منظر عام پر آئے جس پر افسوس ہوا کہ کس طرح سے ہندوستان کے ماحول کو زہر آلود کردیا گیا ہے۔ سہارنپور میں ایک ہندو ڈاکٹر کو رنگے ہاتھوں مقامی افراد نے اس وقت پکڑ لیا جب وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گائے کاٹ کر مندروں میں اس کا گوشت ڈالنے وا لا تھا۔ Fake News کا رجحان عام ہوگیا ہے اگرچہ کہ اس وقت مسلمان بھی چوکس ہیں اور فوری اِن افواہوں کو کی جانچ کررہے ہیں مگر جتنی دیر میں افواہیں پھیلتی ہیں اتنی دیر ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر ایک افغانستان کے ایک میوہ فروش کی ویڈیو اس دعوے کے ساتھ وائرل کی گئی کہ یہ ہندوستان کے کسی علاقہ کی ہے جس میں یہ میوہ فروش اپنے پھل برساتی نالے کے گندے پانی سے کام کررہا ہے یااس کا اثر یہ ہوا کہ کئی علاقوں میں مسلم میوہ فروشوں سے خریداری بند ہوگئی اور اس سے مار پیٹ بھی کی گئی۔
خودکشی کرنے والے ایک آسامی مہاجر مسلم کو تبلیغی جماعت کا رکن قرار دیا گیا۔ پاکستان میں کسی ایک شخص کے ویڈیو کو راجستھان میں ہندو شخص کے قتل کا ویڈیو بتایا گیا۔ سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ چھتیس گڑھ میں تبلیغی جماعت کے مرکز سے واپس ہونے والے 159 ارکان کی فہرست داخل کی گئی۔ جس میں سے 108ارکان غیر مسلم نکلے۔ زی ٹی وی نے دعویٰ کیا تھا کہ اروناچل پردیش میں کرونا وائرس سے متاثر افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے‘ بعد میں اپنی اس غلطی کے لئے زی ٹی وی نے معافی مانگے کے 11نہیں صرف ایک رکن کا تعلق جماعت سے تھا۔ ایسے اَن گنت ویڈیو وائرل کئے جارہے ہیں جس کا تعلق نہ تو مسلمانوں سے ہے نہ تبلیغی جماعت سے مگر بعض تعصب پسند اور بکاؤ میڈیا کے نمائندے اور بی جے پی آر ایس ایس کے IT Cell اپنی تمام توانائیاں مسلمانوں کو بدنام کرنے میں صرف کررہے ہیں۔ اور سماج کا ہر طبقہ اس سے متاثر نظر آرہا ہے کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے تاریخی حوالوں سے کہا جارہا ہے کہ ایسا ہی ماحول ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف پیدا کیا تھا۔ اس نے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا‘ مگر خود ہٹلر کا انجام کیا ہواوہ بھی تاریخ میں موجود ہے اوریہودیوں نے جس طرح سے اپنے آپ کو منظم کیا اور اپنی کم آبادی کے باوجود ایک طاقت کے طور پر اُبھرے اس سے سبق لیا جاسکتا ہے۔ آج میڈیا، سونا (گولڈ)، ایجوکیشن ان کی مٹھی میں ہے۔ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ دنیا میں اتنی زبردست آبادی اور 50سے زائد ممالک میں غالب اکثریت کے باوجود آج وہ سب سے زیادہ کمزور ہے اس لئے کہ انہیں فرقوں میں بانٹ دیا گیا اور عیش و عشرت کا عادی بناکر بنیادی اسلامی شعائر سے دور کردیا گیا۔ موجودہ حالات پر ہم صرف ماتم کرتے رہیں دشمن کے ظلم و ستم کا شکوہ کرتے رہیں‘ تو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ اپنی بقاء اور اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے تمام اختلافات کو بھلاکر متحد ہوجائیں۔ ہمارا انتشار‘ہمارے مخالفین کی کامیابی اور طاقت ہے۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم کام کم کرتے ہیں‘ چیخ و پکار زیادہ کرتے ہیں۔دوسرے لوگ خاموشی سے اپنا کام کررہے ہیں۔ آج 100 سال سے زائد عرصہ سے انہوں نے جو محنت کی اپنے نصب العین کو پانے کے لئے جدوجہد کی‘ آج اس میں وہ کامیاب ہے۔ہم نعرے لگاتے رہے‘ ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالتے رہے‘اسلامی طریقہ زندگی رائج کرنے کا نعرہ دے کر ہم نے چندے جمع کرلئے، عالیشان مساجد تعمیر کرالئے اور خود غیروں کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ لاک ڈاؤن کا عرصہ اس کا ہر اک لمحہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم اندر سے کس قدر کھوکھلے ہیں۔ ہم آپس میں بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں اور دوسروں سے اپنے طرز سلوک‘ معاملت داری کی وجہ سے اُن سے بھی بہت دور ہیں۔ ہندوستان کے گوشے گوشے میں آج ہزاروں مساجد ویران ہیں! لاک ڈاؤن میں تورہیں گی عام دنوں میں بھی یہ مسجدیں نمازیوں کے لئے مرثیہ خواں رہتی ہیں۔شاندار مساجد کی تعمیر سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایک مکمل مسلمان بنیں‘ تاکہ مساجد بند بھی کردی جائیں تو اپنے گھروں میں عبادتوں کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔ ذرا ہم اپنے آپ کا جائزہ لیں‘ لاک ڈاؤن کے عرصہ میں کروناوائرس کو ہم عذاب الٰہی مان تو رہے ہیں اور اس عذاب کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہم کیا کررہے ہیں۔حرمین شریفین کے دروازے تو محدود مسلمانوں کیلئے کھل چکے ہیں اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر نائک کا ایک جواب یاد آتا ہے‘ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا مسلمان کعبۃ اللہ کی پوجا کرتے ہیں جو پتھر سے بنا ہے‘ ڈاکٹر ذاکر نائک نے جواب دیا تھا کہ کعبۃ اللہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک سمت ہے‘ دنیا میں مسلمان کہیں بھی رہے اس کی منزل ایک ہی ہے‘ وہ اسے اپنا قبلہ مانتے ہیں۔ اسے پوجتے نہیں۔ اور شاید سیدناحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجراسود کا بوسہ لیتے وقت جو الفاظ کہے تھے شاید آج کے مسلمانوں کے لئے رہنمائی کرتے ہیں‘ سیدناحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ ”اے حجر اسود! میں تمہیں اس لئے نہیں چومتا ہوں کہ تمہیں جنت سے اُتارا گیا ہے بلکہ اس لئے چومتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں چوما ہے“۔ آنے والے حالات کا علم صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ہم اچھی توقعات کرسکتے ہیں‘ بشرطیکہ ہم میں اچھی تبدیلیاں آئیں۔

فون:9395381226

Related Articles

One Comment

  1. بہت اچھا مضمون ہے.. لیکن جب چڑیا چک گئ کھیت تب پچھتاوے کیا ہوت.. والی ہم مسلمانوں پر صادق آتی ہے. اب تو بظاہر کھیت کاٹنے کا وقت ہے.. جنہوں نے 100 سال پہلے جو بویا تھا وہ اب کاٹیں گے.. ہندو اپنا بویا ہوا اور مسلمان اپنابویا ہوا. اللھم احفظنا من کل بلاءالدنیا و عذاب الآخر ۃ.. اللھم نسالک العفو والعافیۃ فی الدین والدنیا والاخرہ…

محمد حبیب الرحمن قاسمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×