اسلامیاتسیرت و تاریخ

کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے؟

حضرت امیر معاویہ رض کوہدفِ ملامت بنانا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے یہ تو روز اول ہی سے شیعہ کی اہم عبادتوں میں سے ایک رہاہے، ہر دور میں شیعوں نے اس کو اپنی بحث وتحقیق کا موضوع بنایا ہر شیعہ عالم نے کتاب الطہارہ کی طرح اسکو لکھا پڑھا اور سنا ہے اس لئے اگر آج یہ مسئلہ کھڑاہوتا تو کوئی افسوس کی بات نہیں تھی ،
مگر حددرجہ افسوس اس وقت ہوا جب اہل مدارس کی زبانیں بھی بغض معاویہ رض سے لبریز ہونے لگیں، وہ زبان وقلم جنہیں دفاع معاویہ رض کے لئے چلنا چاہئے تھا وہ خود حضرت معاویہ رض کی ذات پر بہتان تراشیاں کرنے لگیں ،اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ،
اسی لئے دل سے رہا نہ گیا کہ ایک صحابی رسول کی کھلے عام اس طرح گستاخی ہو اور دفاع کی کوشش نہ کی جائے،اسی لئے یہ معروضات پیش خدمت ہیں ۔
مضمون اگر چہ تھوڑا طویل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ راقم الحروف نے مضمون کو مختصر سے مختصر الفاظ میں گھیرنے کی پوری کوشش کی ہے ورنہ اکابر امت کی دفاعِ معاویہ رض پر اتنی تحقیقات ہیں کہ اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
الغرض چونکہ واٹس اپ پر اتنی طویل تحریر عموما پڑھی نہیں جاتی اس لئے مضمون کے آخر میں خلاصہ کلام کے عنوان سے مقصود کلام کو پیش کیا گیا ہے ۔
میری سبھی قارئین سے عاجزانہ گزارش ہے کہ حضرت امیر معاویہ رض کی عزت وناموس کی خاطر اس تحریر کو ضرور پڑھیں تحریر طویل ضرور ہے لیکن ان شاء اللہ اسکی ہر ہر سطر آپ کی عقیدت ومحبت میں اضافہ کا باعث بنے گی یا پھر کم ازکم خلاصہ کلام کو تو ضرور پڑھیں۔
یہ تحریر احقر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر مکمل کررہاہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالی اس کو پڑھنے اور عام کرنے والے کو خوب جزائے خیر عطافرمائے دین ودنیا کی خیر عافیت نصیب فرمائے

مضمون سے پہلے
اس مضمون کو یا اس طرح کے کسی بھی مضمون کو پڑھنے سے پہلے دوچیزوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے
(1) اس وقت کے حالات
اس لئے کہ اس وقت حالات اپنے معمول پر نہیں تھے بلکہ اتنے پرشورش تھے کہ آج کے زمانے میں نہ زبان وقلم سے انکو بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تصور ۔
اگر حالات کو ذہن میں نہیں رکھیں گے تو پھر غلط فہمیاں اور صحابہ کے متعلق بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔
(2) مشاجرات صحابہ کے متعلق اہلسنت کا موقف
کیونکہ اسکو ذہن میں نہیں رکھیں گے تو پھر زبان کے لئے کوئی حد بندی نہیں رہے گی اس کو پڑھے بغیر صحابہ کا تقدس واحترام اداء نہیں ہوسکتا

اس لئے ان دو باتوں کو ابتداء میں بیان کیا گیا ہے

اس وقت کے حالات پر ایک طائرانہ نظر
جمل وصفین کا ابتدائیہ حضرت عثمان رض کی شہادت سے بھی پہلے ہوچکا تھا حضرت عثمان رض بھی اسکا شکار ہوے پوری مملکت اسلامیہ میں غلط فہمیوں اور افواہوں کا تانہ بانا بنا گیا تھا پھر جب اچانک حضرت عثمان رض کی شہادت کا اندوہ ناک سانحہ پیش آیا تو اس کے بعد عوام الناس تو درکنار بڑے بڑے صحابہ بھی حیران وپریشان تھے کسی کے سامنے بھی صورت حال واضح نہیں تھی ہرطرف افواہوں کی گرم بازاری تھی کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں اور کونسا رخ اختیار کررہے ۔اس وقت صحابہ کی کیفیت کو علامہ نووری رح بیان فرماتے ہیں کہ
وکانت القضایا مشتبھۃ حتی ان جماعۃ من الصحابۃ تحیروا فیھافاعتزلوا الطائفین ولم یقاتلوا(1)
اور (صورت حال کے متعلق) صحیح فیصلے کرنا ان پر مشتبہ ہوگیا تھا یہاں تک کہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت اس سلسلہ میں حیران تھی پس وہ فریقین سے جدا ہوگئے اور قتال نہیں کیا

حضرت عبداللہ بن عمر رض کو جب علی رض نے بلا بھیجا تو آپ نے فرمایا کہ
انا مع اھل المدینۃ لاافارقھم فان یخرجوا اخرج معھم وان یقعدوا اقعد(2)
ترجمہ: میں اہل مدینہ کے ساتھ ہوں اگر وہ نکلتے ہیں تو میں بھی نکلوں گا اور اگر و بیٹھ جاتے ہیں (یعنی جنگ میں شرکت نہیں کرتے) تو میں بھی بیٹھ جاؤں گا

اسکے بعد حضرت ابن عمر رض اہل مدینہ کے پاس گئے اور ان سے اس سلسلہ میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیاکہ
لا واللہ ماندری کیف نصنع فاالامرلمشتبھۃ علینا ونحن مقیمون حتی یضیء لنا ویسفر (3)
کہ قسم بخدا ہم (خود) نہیں جانتے کہ کیا کریں ؟ اس لئے کہ یہ معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ہے اور ہم یہیں رہیں گے جب تک کہ معاملہ ہم پرصاف اور واضح نہ ہوجائے

تیسری صدی ہجری کے محدث ابوبکر ابن خلال رح فرماتے ہیں کہ اس وقت ایک ہزار سے زائد صحابہ موجود تھے اور اکثریت غیر جانبدار رہی (4)،یہاں تک کہ خود حضرت علی رض کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ حالات کیا سے کیا ہوجائیں گے چنانچہ آپ رنجیدہ ہوکر فرمانے لگے
وللہ لوددت انی کنت مت قبل ھذا الیوم بعشرین سنۃ (5)
کاش میں آج سے بیس سال پہلے دنیا سے جاچکاہوتا
الغرض جب اہل مدینہ کو صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں تھا تو پھر حضرت. معاویہ رض پر کیسا الزام ؟جو کہ شام میں بیٹھے ہوے تھے انہوں نے وہی کیا جس کو انہوں حق سمجھا ،ایسے حالات میں صحیح فیصلہ کرنا ناممکن سے ناممکن تر ہوجاتا اسی لئے علماء نےباب مشاجراتِ صحابہ کو کھولنے سے منع فرمایا ہے

مشاجرات صحابہ کے متعلق اہلسنت کا موقف

امام نووی رح فرماتے ہیں
ومذہب اہل السنۃ والحق احسان الظن بھم والامساک عما شجر بینھم۔(6)
ترجمہ:حق اہلسنت کا مذھب صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور انکے درمیان ہونے والے واقعات سے چشم پوشی کرناہے

شارح بخاری ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
واتفق اھل السنۃ علی وجوب منع الطعن علی احد من الصحابۃ بسبب ما وقع لھم (7)
صحابہ کے درمیان ہونے والے واقعات کی بناء پر کسی بھی صحابی پر طعن و تشنیع سے بچنا واجب ہے اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے

علامہ ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں
وکذلک نومن بالامساک عماشجر بینھم (8)
اسی طرح ہم صحابہ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کے سلسلہ میں خاموش رہنے پر ایمان رکھتے ہیں۔

علامہ ذھبی رح فرماتے ہیں
کما تقرر الکف عن کثیر مما شجر بینھم(9)
جیساکہ صحابہ کے درمیان ہونے والے بہت سے واقعات کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرنا طئے ہے

مشاجرات کے متعلق سوالات کا جواب نہ دیاجائے
ائمہ اہل سنت کا ہمیشہ معمول رہاہے کہ وہ عمومی طور پرمشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرتے تھے اور اپنی زبان و قلم کو مشاجرات صحابہ کے تذکرہ کے لئے جنبش نہیں دیتے تھے امام شافعی رح سے جب مشاجرات صحابہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا
تلک دماء طھر اللہ ایدینا عنھا فَلِمَ نلوث السنتنابھا؟ (10)
کہ وہ ایسے جانیں ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو ان سے بچائے رکھا پھر کیوں ہم اپنی زبانوں کو ملوث کریں؟
امام احدبن حنبل رح سے پوچھا گیا کہ
ماتقول فیما کان من علی ومعاویہ ؟ (11)
کہ تم علی رض ومعاویہ رض کے سلسلہ میں کیا کہتے ہو ؟تو آپ نے فرمایا کہ
مااقول فیھا الاالحسنی (12)
کہ میں خیر کے سوا کچھ نہ کہوں گا
ایک موقع پر فرمایا کہ
من انا؟ اقول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (13)
کہ میں ہوتا کون ہوں ؟ جو رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں کچھ کہوں ؟
اسی طرح ایک اور موقع پر جواباً قرآن مجید کی آیت تلاوت فرمائی کہ
تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت وعلیھا مااکتسبت ۔(14)
وہ گزر چکے انکے ساتھ انکے اعمال تھے ( یعنی ہمارے کچھ کہنے نہ کہنے سے انکے اعمال پر فرق پڑنے والا نہیں ہے)
اس کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیر رح فرماتے ہیں کہ
وکذا غیر واحد من السلف (15)
کہ اکثر اسلاف کا یہی طریقہ کار رہاہے
حضرت عمر بن عبدالعزیز رح سے پوچھا گیا تو فرمانے لگے
امر اخرج اللہ یدی منہ فلاادخل فیہ لسانی(16)
کہ یہ ایسا معاملہ ہے کہ اللہ تعالی نے میرے ہاتھوں کو اس سے بچالیا ہے پس میں اپنی زبان کو اس مسئلہ میں داخل نہیں کروں گا.

مشاجرات صحابہ کا حکم
جیساکہ پہلے گزر چکا کہ اس وقت حالات انتہائی غبار آلود تھے اس لئے اہل ہوس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوے خوب روایتیں گھڑی اور واقعات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ اصل حقیقت کا پتہ لگانا ناممکن ہوگیا اس لئے علماء نے مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں آئی ہوی روایات کا کوئی اعتبار نہیں کیا
چنانچہ علامہ ذھبی رح فرماتے ہیں
فاکثرہ باطل وکذب وافتراء (17)
کہ ان میں کی اکثر روایتیں باطل جھوٹی اور بہتان باندھی گئی ہیں ۔
ملاعلی قاری رح ایسی روایتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
فلایلتفت الیہ وماکان صحیحا اولناہ تاویلا حسنا لان الثناء علیھم من اللہ (18)
کہ ایسی روایتوں کی طرف توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ، رہی جو روایتیں صحیح ہیں انکی بھی اچھی تاویل کی جائیگی اس لئے کہ اللہ تعالی نے ان ( صحابہ) کی تعریف کی ہے ۔

حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رح فرماتے ہیں کہ مناقشات صحابہ نہ تو کلام اللہ میں مذکور ہیں نہ حدیث میں ذکر ہیں تاریخوں میں ان افسانوں کا بیان ہے سو تاریخوں کا ایسا کیا اعتبار ۔(19)

تاریخ طبری کا حال
تیسری صدی ہجری کی تاریخی کتاب تاریخ الامم والملوک المعروف بہ تاریخ طبری جو کہ بعد کی تقریبا تمام کتابوں کا مرجع ہے وہ بھی مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں موضوع ومن گھڑت روایتوں سے بھری پڑی ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاریخ طبری کا تحقیق جائزہ از مولانا اسیر ادروی مطبوع کتب خانہ حسینیہ دیوبند۔)

مشاجرات صحابہ کے مطالعہ کے شرائط وآداب
اب کوئی یہ اشکال کرسکتا ہے کہ جب مشاجرات صحابہ سننا اور کہنا منع ہے تو پھر مورخین اسلام نے اسکو لکھا کیوں ؟
جواب صاف ہے کہ جو روایتیں ان مورخین اسلام تک پہنچی انہوں نے ہو بہو ان کو آگے پہنچادیں اب اگر کوئی ان کو مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو علماء نے اسکے لئے کچھ شرائط بیان فرمائی ہیں ۔جوکہ مندرجہ ذیل ہیں
1 تنہائی میں کرے
2 منصف مزاج ہو
3 خواہش نفسانی (مخصوص سوچ ) سے پاک ہو
4 پڑھ کر صحابہ کے لئے استغفار کرے جیساکہ اللہ تعالی نے سورہ حشر آیت نمبر 10 میں سکھلایاہے
(5) ان واقعات کو نیک محمل پر محمول کرے۔
(ملاحظہ فرمائیں علامہ ذہبی رح تحریر فرماتے ہیں
وقد یرخص فی مطالعۃ ذلک خلوۃ للعالم المنصف العری من الھوی بشرط ان یستغفر لھم کما علمنا اللہ تعالی حیث یقول : والذین جاءوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولاتجعل فی قلوبناغلاالذین آمنوا۔(20)

اور مجدد الف ثانی رح فرماتے ہیں
اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو انکے درمیان واقع ہوے ہیں نیک محمل پر محمول کرنا چاہئے)(21)

حدیث عمار
مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت جب حضرت عمار بن یاسر رض دو دو اینٹ اٹھارہے تھے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشنگوئی فرمائی تھی کہ
تقتلک الفئۃ الباغیۃ کہ تجھے باغی جماعت قتل کرے گی (22)

تحقیق الحدیث
یہ روایت تقریبا بیس سندوں سے مروی ہے اور حدیث کی تقریبا کتابوں میں موجود ہے یہ روایت اتنی ہی ہے اس پر مزید جو اضافے کئے گئے علامہ ابن کثیر رح فرماتے ہیں کہ وہ رافضیوں کی افتراء پر دازیاں ہیں (23)مثلا یدعوھم الی الجنۃ ویدعونہ الی النار
نیز ۔۔۔۔۔لاانالھا اللہ شفاعتی یوم القیامۃ
الغرض اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی پیشن گوئی فرمائی کہ جو جماعت حضرت عمار بن یاسر رض کو قتل کرے گی وہ باغی ہوگی۔

حدیث عماررض سے استدلال شیعوں کا وطیرہ ہے
حضرت عمار بن یاسر رض کی حدیثِ شہادت شیعوں کے نزدیک قرآن کا درجہ رکھتی ہے ہردور کی شیعی کتابیں اس روایت سے بھری پڑی ہیں جلاء العیون ،حق الیقین،نھج البلاغہ وغیرہ کتبِ شیعہ میں یہ روایت سرخیوں میں نظر آئیگی۔
مگر کبھی بھی اہلسنت نے حضرت امیر معاویہ رض کے خلاف اس کو دلیل نہیں بنایا بلکہ ہردور میں ائمہ اہلسنت نے اس کا دفاع کیا ہے امام اہلسنت احمد بن حنبل رح سے لیکر حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رح تک ہر عالم جلیل نے اس کے وافی شافی جوابات دئے ہیں ۔
مگر افسوس کے آج کے فضلاء غیر محسوس طور پر شیعہ کی شازشوں کا شکار ہورہے ہیں ۔

حدیث عمار رض کے مصداق کون؟
حدیث عمار رض کی مصداق باغی جماعت ضرور ہے مگر حضرت امیر معاویہ رض حضرت عائشہ رض طلحہ وزبیر رض ہر گرز ہرگز نہیں ۔
یہ وہی جماعت ہے جس نے پہلے پہل بغاوت کا آغاز خلیفہ برحق حضرت عثمان رض کی مظلوم شہادت سے کیا پھر حضرت علی ومعاویہ رض کے دستوں میں ناپاک مقاصد کے لئے داخل ہوے اور حضرت عمار بن یاسر نیز زبیر بن العوام رض کو شہید کیا پھر حضرت علی رض کی اطاعت سے بھی منہ پھیر لیا اور خوارج کہلائے ،چنانچہ حضرت معاویہ رض کو جب حضرت عمار بن یاسر رض کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ انما قتل عمار من جاءوا (24)
کہ عمار رض کو انہوں نے قتل کیا جو انکے پاس ارادہ قتل سے آئے تھے ۔
علامہ ابن تیمیہ رح نے اسی کو تھوڑا تفصیل سے سمجھاتے ہیں کہ
تلک العصابۃ التی حملت علیہ حتی قتلہ وھی طائفۃ من العسکر ومن رضی بقتل عمار کان حکمہ حکمھا ومن المعلوم انہ کان فی العسکر من لم یرض بقتل عمار کعبداللہ بن عمرو بن العاص وغیرہ بل کل الناس کانوا منکرین لقتل عمار حتی معاویۃ وعمرو۔(25)
(اس سے مراد) وہ جماعت ہے جس نے ان پر حملہ کیا یہاں تک کہ شہید کردیا اور وہ لشکر کا ایک تکڑا تھا اور جو انکے قتل پر راضی ہوا تو اسکا حکم بھی وہی ہے جو اس باغی جماعت کا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ لشکر میں ایسے بھی لوگ تھے جو حضرت عمار رض کے قتل سے خوش نہیں تھے جیسے عبداللہ بن عمرو بن العاص رض وغیرہ بلکہ سارے ہی لوگ حضرت عمار رض کے قتل کو ناپسند کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت معاویہ اور عمرو بن العاص رض بھی ۔
چنانچہ اسی لئے علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
لیس نصا فی ان ھذا اللفظ لمعاویۃ واصحابہ (26)
یہ نص نہیں کہ یہ الفاظ حضرت امیر معاویہ رض اور انکے اصحاب کے لئے ہیں ۔

امیر معاویہ رض حدیث عمار کے مصداق نہیں ہیں
اوپر کی بحث سے یہ بات بخوبی واضح ہوچکی ہے کہ حدیث عمار رض کے مصداق صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے انکے قتل کا اردہ کیا اور انکو قتل کیا اور جو اس فعل شنیع پر راضی تھے وہ بھی اسی حکم کے تحت ہیں اب وہ شواہد ملاحظہ فرمائیں جن سے یہ بات قطعاً طئے ہوجاتی ہے کہ اس باغی فرقہ سے مراد حضرت امیر معاویہ رض ہرگز نہیں ۔
1…..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رض کے لئے جو پیشنگوئی فرمائی اسکے الفاظ یہ ہیں
یصلح بین فئتین من المسلمین(27)
کہ وہ دو مسلمان جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا
اور بعض روایتوں میں فئتین عظیمتین من المسلمین (28)آیاہے کہ مسلمانوں کی دوبڑی جماعتیں
اگر اس باغی گروپ سے مراد حضرت امیر معاویی رض ہی ہوتے تو حدیث یوں ہوتی کہ
یصلح بین المسلمین والبغاۃ

حضرت عمار رض کی گواہی

امام بخاری رح اپنی تالیف شہیر التاریخ الصغیر میں اپنی سند سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رض بیمار ہوے تو فرمایا کہ
لا اموت فی مرضی حدثنی حبیبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی لااموت الا قتلاً بین فئتین مؤمنین(29)
کہ میں نہیں مروں گا مگر دو مومن جماعتوں کے درمیان قتل ہوکر ۔
اگر حضرت امیر معاویہ رض باغی ہوتے تو اس روایت مین بھی فئتین مومنین دو مومن جماعتیں” نہ آتا
صحابہ اور حضرت علی رض نے حدیث عمار رض کو بنیاد نہیں بنایا
3….اگر یہ روایت حضرت امیر معاویہ رض کے خلاف نصِ صریح ہوتی تو حضرت علی رض اس کو ضرور بنیاد بناتے مگر کبھی بھی حضرت علی رض نے اس روایت کو بنیاد بنا کر یہ نہیں کہا کہ اس روایت کی بناء پر امیر معاویہ رض باغی ہیں بلکہ آپ رض تو اس کے برخلاف جنگ بندی پر راضی ہوگئے تھے اور ہوچکی جنگ کے تعلق سے نہایت ہی رنجیدہ تھے ،نیز آپ نے فریقین کے مقتولین کو جنت کی بشارت بھی دی جیساکہ آگے آرہاہے ۔نیز تحکیم کے لئے رازی ہوگئے تھے اگر یہ حدیث نص صریح ہوتی تو ہھر تحکیم کیوں ؟
4…..تیسری صدی ہجری کے معروف محدث ابوبکر ابن خلال کی تحقیق کے مطابق اس وقت ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام باحیات تھے مگر اکثریت غیر جانبدار رہی(33) اگر اس روایت کی بنیاد پر امیر معاویہ رض باغی ٹھہرتے تو پھر صحابہ نے حضرت علی رض کا ساتھ کیوں نہ دیا ؟
اور جنہوں نے ساتھ دیا انہوں نے نے بھی معاونت کی وجہ کبھی بھی اس روایت کو قرار نہیں دی۔
الغرض کسی بھی زاویہ سے اس روایت کا مصداق حضرت امیر معاویہ رض کو نہیں بنایا جاسکتا لیکن اگر کوئی بغض وعناد ہی کو شیوہ بنالے تو پھر اسکا کوئی علاج ہی نہیں۔

امیر معاویہ رض کا مقصد بغاوت
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رض چوتھے خلیفہ ہیں اور خلفاء راشدین میں شامل ہیں اس لئے ان تمام جنگوں اور معرکوں میں حق بجانب وہی تھے خطا آپ کی مخالف جماعت سے ہوی تھی ۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ علماء اہل سنت نے اس خطاء کو خطائے اجتہادی قرار دیاہے نیز اس پر فریق مخالف کے لئے اجروانعام کو بھی ثابت فرمایاہے ،کیونکہ انکی بغاوت (یہاں بغاوت سے مراد خلیفہ وقت کے خلاف نکلنا ہے حدیث عمار رض کی بنیاد پر نہیں ) مقصد حق ہی کے لئے تھی ۔

ہر بغاوت بری نہیں ہوتی
یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہر بغاوت بری نہیں ہوتی چنانچہ امام ابو راغب اصفہانی رح بغاوت کے متعلق لکھتے ہیں
البغی قد یکون مذموما ومحمودا (34)
بغاوت کبھی بری ہوتی ہے اور کبھی اچھی
نیز حق کے لئے بغاوت تو اہل محبت کا امتیازرہاہے شاعر کہتا ہے
ہم نے ہر دور میں تقدیس رسالت کے لئے
وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
نیز علامہ عامر عثمانی رح فرماتے ہیں کہ
جبر وسفاکی وطغیان کا باغی ہوں میں
نشہ قوت انسان کا باغی ہوں میں (35)

حق کے لئے بغاوت تو غیرت دینی وحمیت اسلامی کی علامت ہے ذرا غور فرمائیں حضرت حسین رض نے یزید کے خلاف بغاوت ہی تو کی تھی یزید کے ہاتھ پر سوائے افراد چند کے جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے سب نے بیعت کرلی تھی اسکے باوجود حضرت سیدنا حسین رض نے حق کے لئے بغاوت کی اور وہ محمود تھی اسی طرح حضرت امیر معاویہ رض کی بغاوت بھی حق ہی کے لئے تھی اس بغاوت سے آپ کا مقصد فساد نہیں تھا۔

حضرت امیر معاویہ رض کا مقصد بغاوت
ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں روایت نقل فرماتے ہیں کہ
قال معاویۃ ماقاتلت علیا الافی امر عثمان(36)
حضرت امیر معاویہ رض فرماتے ہیں کہ میں نے علی رض سے مقاتلہ صرف حضرت عثمان رض کے معاملے میں کیا
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی ومعاویہ رض کے درمیان جنگ اقتدار کی خاطر نہیں تھی ۔

حضرت امیر معاویہ رض نے حضرت عثمان رض کے لئے بغاوت کیوں کی ؟
اس لئے کہ وہ حضرت عثمان رض کے قریب ترین رشتہ دار تھے نیز انتقام کا حق صرف حضرت امیر معاویہ رض ہی کو نہیں تھا بلکہ ہر مسلمان کو حاصل تھا چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رح تحفہ اثناء عشریہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خلیفہ عادل کا بدلہ لینا ہر مسلمان کا حق ہے ورثہ کے ساتھ یہ مخصوص نہیں۔(37)
اور خلیفہ عادل بھی وہ جس کی صرف شہادت کی افواہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے موت پر بیعت لی تھی کیا ایسے صحابی کے خون کا بدلہ لینا حق نہیں ہے ؟
اسی لئے ابن خلدون رح فرماتے ہیں
انما قصد الحق (38)کہ امیر معاویہ رض نے حق ہی کا ارادہ کیا ۔

حضرت امیر معاویہ رض صورتا باغی تھے
حضرت امیر معاویہ رض نے بغاوت حق کے لئے کی تھی مگر وہ چونکہ خلیفہ برحق کے خلاف تھی اس لئے انہیں صورتا باغی مانا گیا اسی لئے علماء نے انکو صورتاً باغی مان کر انکی خطا کو خطائے اجتہادی سے تعبیر فرماکر انہیں مطعون ٹھہرانے سے منع فرمایاہے چنانچہ ابن کثیر رح فرماتے ہیں
ولایلزم تسمیۃ اصحاب معاویۃ بغاۃ تکفیرھم کمایحاولہ جھلۃ الفرقۃ الضالۃ من الشیعۃ (39)
کہ اس سے معاویہ رض اور انکے اصحاب کا تکفیری طور پر باغی ہونا لازم نہیں آتا جیساکہ شیعہ کا جاہل اور گمراہ فرقہ سمجھتا ہے

کیا بغاوت صرف حضرت امیر معاویہ رض نے کی تھی ؟
معاندین معاویہ رض صرف حضرت امیر معاویہ رض ہی پر بغاوت کا لبادہ اڑھاتے ہیں جبکہ اس بغاوت میں بشمول ام المومنین حضرت عائشہ رض کئی صحابہ شامل تھے اور عجیب بات ہے کہ امیر معاویہ رض نے حضرت علی رض کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی مگر طلحہ وزبیر رض (جوکہ عشرہ مبشرہ میں ہیں) نے تو بیعت کرنے کے باوجود بھی بغاوت میں شریک رہے حضرت علی رض نے انکے متعلق کہا کہ
ان طلحۃ والزبیر لاول من بایعنی واول من غدر (40)
کہ طلحہ وزبیر وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مجھ سے بیعت کی اور پہلے ہیں جنہوں نے غداری کی
اب کیا کوئی انکو بھی (نعوذ باللہ ) باغی طاغی عاصی کہہ سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر یہی
حضرت امیر معاویہ رض کے حقیقی باغی نہ ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے اگر بغاوت کو حقیقی مانیں گے تو پھر کئی صحابہ کی ذات مجروح ہوگی جن میں عشرہ مبشرہ بھی داخل ہیں اسی لئے مجدد الف ثانی رح فرماتے ہیں
اے بھائی !معاویہ تنہا اس معاملے میں نہیں ہے کم وبیش آدھے صحابہ کرام اس کے ساتھ اس معاملے میں شریک ہیں پس اگر حضرت امیر معاویہ رض کے ساتھ لڑائی کرنے والے فاسق یا کافر ہوں تو دین سے اعتماد اٹھ جاتاہے جو ان کی تبلیغ کے ذریعہ ہم تک پہنچاہے اس بات کو سوائے اس زندیق کے جس کا مقصود دین کی بربادی ہے کوئی پسند نہیں کرسکتا۔(41)

مشاجرات صحابہ اجتہاد پر مبنی تھے
الغرض خلاصہ یہ ہے کہ امیر معاویہ رض کی خطا خطائے اجتہادی ہے اس لئے انکو مطعون نہ کیا جائے ۔
امام ربانی مجدد الف ثانی رح فرماتے ہیں کہ
لیکن چونکہ یہ خطا خطائے اجتہادی کی طرف تھی اس لئے ملامت سے دور ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں (42)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں
پس حضرت علی رض کے ساتھ لڑائی کرنے والوں کے حق میں فسق وضلال کا گمان جائز نہیں(43)
امام نووی فرماتے ہیں
لکنھم مجتھدون فلااثم علیھم (44)
لیکن انہوں ایسا اجتہاد سے کیا ہے اس لئے ان پر کوئی گناہ نہیں نہیں
ابن کثیر رح فرماتے ہیں کہ
وان کان معاویۃ مجتھدا وھو ماجور ان شاء اللہ (45)
اور اگرچہ معاویہ رض مجتھد تھے اور ان شاء اللہ اللہ کےپاس اجر کو پائیں گے

الغرض خلاصہ یہ ہے کہ انکی خطا خطائے اجتہادی تھی وہ صورتا باغی تھے ورنہ حقیقت میں انکا جنگ کرنا بھی حق کے خاطر ہی تھا اس لئے ان پر ملامت کرنا زندیقیت کی علامت ہے ۔

فریقین حق پر تھے
جیساکہ ابھی گزرا کہ حضرت امیر معاویہ رض کی بغاوت حق کے لئے تھی اسی لئے حضرت علی رض بھی انہیں باغی نہیں سمجھتے تھے لہذا دونوں جماعتیں حق پر تھیں اس کی سب سے بڑی دلیل تو اوپر گزرچکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رض کی صلح والی روایت میں فئتین مسلمین فرمایا
اسی لئے ابن کثیر رح فرماتے ہیں
قد شھدت الاحادیث الصحیحۃ بالاسلام الفریقین من الطرفین (46)
طرفین کے مسلمان ہونے پر احادیث صحیحہ شاہد ہیں
امام ربانی مجدد الف ثانی رح فرماتے ہیں
وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں نہ کہ ہواء وہوس پر یہی اہل سنت کا مذہب ہے (47)

اسی لئے حضرت علی رض سے جب یوم صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ قتلانا وقتلاھم فی الجنۃ (48)
ہمارےاور انکے مقتولین جنت میں ہیں
صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے فریق مخالف کے مقتولین کی نماز جنازہ بھی پڑھائی ہے(49)

فریقین کی مثال
حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رح فرماتے ہیں کہ
حضرت علی رض اور حضرت امیر معاویہ رض کے درمیان اگر باہم کچھ مناقشہ ہوا بھی تو وہ ایسا ہی تھا جیسا حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرر یوسف اور انکے بھائیوں اور حضرت موسی وخضر علیھم السلام میں جھگڑے اور قضیے ہوے۔ (50)
جب زلات انبیاء کے باوجود انبیاء کا مقام ومرتبہ کم نہیں ہوتا تو پھر صحابہ کا کیوں ؟

حضرت امیر معاویہ رض کو برا بھلا نہ کہاجائے
جب یہ طئے ہوگیا کہ حضرت امیر معاویہ رض حقیقتا باغی نہیں تھے تو اب انکے خلاف زبان درازی کرنا بھی جائز نہیں چنانچہ علامہ ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں کہ
من لعن احدا من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کمعاویۃ بن ابی سفیان وعمروبن العاص ونحوھما فانہ مستحق للعقوبۃ البلیغۃ باتفاق ائمۃ الدین (51)
جو کوئی کسی بھی صحابی مثلا معاویہ بن ابی سفیان رض عمرو بن العاص رض کو برابھلا کہتا ہے وہ سخت سزا کا مستحق ہے ائمہ دین کے اتفاق سے
حافظ ابن حجر رح ابوزرعہ رازی کا قول نقل فرماتے ہیں کہ اذا رایت الرجل ینتقض احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق (52)
کہ تم کسی آدمی کوصحابہ کو برابھلا کہتادیکھو تو سمجھو کہ وہ زندیق ہے
ملاعلی قاری رح فرماتے ہیں
لم ینقل عن السلف المجتہدین والعلماء الصالحین جواز لعن معاویۃ واحزابہ (53)
مجتہدین سلف اور علماء صالحین سے حضرت معاویہ رض اور انکے اصحاب کو برابھلا کہنے کا جواز منقول نہیں ہے
لہذا آج اگر ہم حضرت امیر معاویہ رض کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں تو اپنی عاقبت خود خراب کرتے ہیں ۔

حضرت امیر معاویہ رض صحابہ کی نظر میں
حضرت علی رض کی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہ رض نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی تو اس وقت مطلع بالکل صاف ہوچکا تھا حالات کے ماتھے سےگرد غبار چھٹ چکے تھے اگر امیر معاویہ رض باغی ہوتے تو صحابہ نہ انکے ہاتھ پر بیعت کرتے اور نہ انہیں خلافت دینے کے حق میں ہوتے مگر اسکے برعکس تمام صحابہ اولیاء وصالحین نے شیر وشکر کی طرح انکی اطاعت فرمائی حضرت ابن عباس رض تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ
مارایت رجلا کان اخلق للملک من معاویۃ (54)
کہ میں حکومت کرنے کے لئے امیر معاویہ رض سے بڑھ کسی کو لائق نہ پایا
حضرت سعد بن ابی وقاص رض جو مکمل غیر جانبدار تھے کسی بھی جنگ میں شریک نہیں ہوے وہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رض بہترین فیصلے کرنے والے ہیں (55)
الغرض حضرت امیر معاویہ رض کے اٹھارہ سالہ دور حکومت میں ایک بھی مثال ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ حضرت امیر معاویہ رض کی حاکمیت سے کسی نے بیزاری کا اعلان کیا ہو یا انکے دور حکومت کو ظلم وزیادتی سے تعبیر فرمایا ہو یہاں تک کہ حسنین رض سے بھی نہیں ۔
چنانچہ امام اوزاعی رح فرماتے ہیں
ادرکت خلافۃ معاویۃ جماعۃ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم ینتزعوا یدا من طاعۃ ولا فارقوا جماعۃ (56)
صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت نے دور خلافت معاویہ رض کو پایا مگر کسی نے بھی امیر معاویہ رض کی اطاعت سے روگردانی نہیں کی اور نہ ہی الگ تھلک ہوے ۔
الغرض ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رض کو باغی کہنا صریح گستاخی نرا تعصب اور کھلی گمراہی ہے جو کسی کے لئے خیر نہیں ہوسکتی۔اس لئے علماء امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شان معاویہ رض مقام معاویہ رض کو خوب واضح کرکے اپنا کردار اداء کریں۔

خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عثمان رض کی شہادت کے بعد حالات ناگفتہ بہ ہوگئے تھےجس کی وجہ سے صحیح اور غلط کا فیصلہ مشکل ہوگیا تھا ایسی صورت میں صحابہ نے انہیں جو حق محسوس ہوا وہ کیا کسے نے حضرت امیر معاویہ رض کا ساتھ دیا کسی نے حضرت علی رض کا اور اکثر غیر جانبدار رہے ہر ایک نے اپنے اجتہاد سے راہ حق اختیار کی اس لئے کسی کو بھی برا بھلا کہنا جائز نہیں سب کے سب حق پر تھے .
رہی حدیث عمار رض جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رض کو شہید کرنے والوں کو باغی قرار دیا ہے تو اس سے وہ جماعت مراد ہے جنہوں نے آپ کو شہید کیا اور آپ کے قتل پر راضی ہوے اور جماعت اپنے ناپاک مقاصد کے تحت لشکر معاویہ رض میں داخل ہوگئے تھے وہی اس حدیث کا مصداق ہیں .
مگر حضرت امیر معاویہ رض اس سے ہرگز مراد نہیں اگر اس سے حضرت امیر معاویہ رض کو مراد لیا جائے تو بہت سارے صحابہ خاص کر عشرہ۔مبشرہ میں داخل زبیر بن العوام رض بھی زد میں آئیں گے البتہ خلیفہ برحق حضرت سیدنا علی رض کے خلاف خروج کی وجہ سے علماء اہلسنت نے حضرت امیر معاویہ اور انکا ساتھ دینے والے صحابہ اور انکی جماعت کے فعل کو خطائے اجتہادی قراردیا ہے ساتھ ہی اس پر اجروثواب کو بھی بیان فرمایا نیز اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ اس پر انہیں کوئی گناہ نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے ملامت والا کام کیا.
اسی لئے علماء اس موضوع کو چھیڑنے ہی سی منع فرمایا اور انکا تذکرہ خیرہی سے کرنے کی تاکید فرمائی ہےخاص کر حضرت امیر معاویہ رض پر بھی لعن طعن کرنے سے منع فرمایاہے کیونکہ دونوں فریق حق پر تھے ،حضرت امیر معاویہ رض کی امارت بھی بالکل حق پر تھی تمام صحابہ نے بسروچشم اسکو قبول کیا اور تاحیات امیر المومنین حضرت امیر معاویہ رض کی اطاعت کرتے رہے اور انکے حق میں کلمہ خیر ہی کہتے رہے اس لئے ہمیں بھی انکے تعلق سے خیر کے سوا کچھ نہی کہنا چاہئے۔

حوالہ جات
(1)المنھاج لشرح مسلم ابن الحجاج 18/10 کتاب الفتن واشراط الساعۃ ط:المطبعۃ المصریہ ازھر
(2) تاریخ طبری 4/446 استئذان طلحۃ والزبیر ط:دارالمعرفہ بیروت
(3)حوالہ سابق
(4)السنۃ لخلال 3/458 ذکر صفین والجمل ط:دار الرایۃ ریاض
(5)البدایۃ والنھایۃ 10/472 ط:دارھجر قاہرہ
(6) المنھاج لشرح مسلم ابن الحجاج 10/18 کتاب الفتن ط:الطبعۃ المصریۃ
(7) فتح الباری کتاب الفتن باب ما التقی المسلمان بسیفھما37/13
(8) فتاوی ابن تیمیہ 406/3 المفاضلۃ بین الاربعۃ ووجوب الامساک ط:ملک فھد بن عبدالعزیز
(9)سیر اعلام النبلاء92/10 ط:مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت
(10) شرح فقہ اکبر لملا علی قاری ص 309 ط:دارالبشائر الاسلامیہ ،دمشق
(11) السنۃ لابن الخلال 659/3 ط:دار الرایۃ ریاض
(12) حوالہ سابق
(13) حوالہ سابق
(14)البدایۃ والنھایۃ 427/11 دار ھجر قاہرہ
(15)حوالہ سابق
(16) السنۃ لابن الخلال 460/3 ط:دارالرایۃ ریاض
(17) سیر اعلام النبلاء 92/10 مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت
(18) شرح فقہ اکبر ص 309 ط: دارالبشائر الاسلامیہ دمشق
(19) اجوبہ اربعین ص 189 ط: ادارہ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃالعلوم گوجرنوالہ
(20) سیر اعلام النبلاء 92/10 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(21) مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 251؛515/2 ط:پروگریس بکس لاہور
(22) متفق علیہ
(23) البدایۃ والنھایۃ 538/4 فصل فی بناء مسجد الشریف ،باب ھجرۃ الرسول ط: دار ھجر قاہرہ
(24) مجمع الزوائد 241/7
(25) فتاوی ابن تیمیہ 77/35 باب الخلافۃ والملک ط: مجمع الملک فھد
(26) حوالہ سابق
(27) بخاری 662/1 کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین
(28) فتح الباری 71/13 کتاب الفتن
(29) التاریخ الصغیر 104/1 ط: دارالمعرفہ ،بیروت
(33) السنۃ لابن الخلال 458/3 ط: دارالرایہ ریاض
(34) مفردات القرآن ص 126 ،ط:دارالقلم دمشق
(35) یہ قدم قدم بلائیں ص 109 ط: مرکز مکتبہ اسلامی پبلشر دہلی
(36)مصنف ابن ابی شیبہ 149/10 باب فی الامراء رقم :31175 ط:الفاروق الحدیثیہ قاہرہ
(37) تحفہ اثناء عشریہ ص 232 ط:دارالاشاعت کراچی
(38) مقدمہ ابن خلدون 386/1 الفصل الثامن والعشرون ط:داریعرب ،دمشق
(39) البدایۃ والنھایۃ 538/4 فصل فی بناء المسجد الشریف ط: دارھجر ،دمشق
(40) الکامل لابن الاثیر 121/3 ط:دارالکتب العلمیہ ،بیروت
((41) مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 251 ط:پروگریس بکس لاہور
(42) حوالہ سابق
(43) حوالہ سابق
(44) المنھاج لشرح مسلم ابن الحجاج 40/18 کتاب الفتن ط: المکتبۃ المصریہ ،ازھر
(45) البدایۃ والنھایہ 563/10 ذکر خروج الخوارج ط: دارھجر قاہرہ
(46) البدایۃ والنھایہ 430/11
(47) مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 251
(48) مصنف ابن ابی شیبہ 443 /13 رقم : 38894 باب ماذکر فی صفین ط: الفاروق الحدیثیہ ،قاہرہ
(49) تاریخ طبری 538/4 توجع علی علی قتلی الجمل ط:دارالمعرفہ ،مصر
(50) اجوبہ اربعین ص 189 ط: مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانولہ
(51) فتاوی ابن تیمیہ 58/35
(52) الاصابۃن23/1 ط:دارالکتب العلمیہ ،بیروت
(53) شرح فقہ اکبر ص 309
(54) مصنف عبدالرزاق 453/11 رقم: 20985 باب ذکرنالحسن ط: المکتب الاسلامی ،بیروت
(55) البدایۃ النھایۃ 435/11
(56) الاستیعاب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×