سیاسی و سماجی

دہلی کا ’نبی کریم‘ علاقہ: وجہِ تسمیہ اور تاریخی پس منظر

دہلی میں نو وارد شخص یا کوئی بھی جب مسلمانوں کی آبادی والے علاقے نبی کریم کے بارے میں سنتا ہے تو اولا اس کے ذہن میں یہ بات گردش کرتی ہے کہ اس علاقے کا نام نبی کریم کیوں ہے؟ پھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی کی وجہ سے شاید اسے نبی کریم بولتے ہیں۔لیکن ایک متجسس ذہنcurious Mind) (جب اس کی تلاش کرتا ہے تو اسے بڑے دلچسپ حقائق معلوم ہوتے ہیں:
محمد بن تغلق (1290-1351ء) جب دہلی کا حاکم بنا اور اس نے پوری زندگی دشمنوں کو مات دینے اور باغیوں کے سر کچلنے میں گذار دی، اوردار السلطنت منتقل کرنے اور ٹوکن کرنسی ڈھالنے کی غلطیوں کے علاوہ اپنی نیک نامی اور نیک کامی کا رعایا پر سکہ جما لیا، علم دوست اور کئی زبانوں کا ماہر تھا،جس کا ذکر مشہور سیاح ابنِ بطوطہ (1340-1369ء) نے بھی کیا ہے۔ جب تغلق کا انتقال ہوا تو اس کے پاس کوئی نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھتیجے فیروز شاہ تغلق (1309-1388ء) کی تخت نشینی کی گئی، جسے محمد بن تغلق نے شروع سے اپنے ساتھ رکھا تھا اور پرورش کی تھی اور بالآخر حکومت سونپی۔ فیروز شاہ تغلق ایک نیک دل بادشاہ تھا، تعمیر وتزئین کا دلدادہ تھا۔ اس نے پوری دلّی میں بارہ سو باغیچے بنوائے، نئی عالیشان عمارتیں بنوائیں، قطب مینار کی تزئین کاری ومرمت کروائی، حوض خاص ٹینک کی مرمت کروائی، فیروز آباد شہر بسایا، مؤرخین کہتے ہیں اس کے بعد بادشاہوں میں صرف شاہ جہاں کو ایسا لطیف جمالیاتی ذوق نصیب ہوا۔
فیروز شاہ بڑا ہی خدا ترس بادشاہ تھا، چچا نے اسے یہ ذمہ داری دے دی ورنہ وہ درویش صفت اور مست مولیٰ انسان تھا۔ اس نے اپنے لئے ایک مقبرہ اپنی حیات میں ہی بنوایا۔اس زمانے میں ایک بزرگ تھے سید جلال الدین حسین بخاری مخدوم جہانیان جہاں گشت (1308-ء) جو ساری دنیا کی سیر کرتے رہتے تھے، جس کی وجہ سے آپ جہاں گشت کے نام سے مشہور ہوئے، جب وہ حج پر گئے، تو وہاں کے بادشاہ نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ ِمبارک کا نقش (Footprint) بطور تبرک و ہدیہ پیش کیا۔ حضرت جہانیان ِ جہاں گشت جب دہلی تشریف لائے تو وہ نقش انہوں نے بادشاہ فیروز شاہ تغلق کو دے دیا۔ فیروز شاہ بہت خوش ہوا اور اس نایاب اور مقدس نقش کو اپنے خزانے میں محفوظ کروادیا۔فیروز شاہ کے بیٹے شہزادہ فتح خان تغلق (1351-1367ء) نے ایک بار کوئی بہادری کا کام کیا تو فیروز شاہ نے خوش ہوکر اسے خزانے میں سے کوئی بھی اہم چیز لے لینے کا حکم دیا۔ فتح خان خزانے سے وہی نقشِ پائے محمد ﷺ لے آئے جو ان کے والد صاحب نے رکھوایا تھا۔
بیٹے کا حسنِ انتخاب دیکھ کر فیروز شاہ تغلق نے کہا کہ آپ کوئی اور چیز لے لیں یہ میں نے اپنے لئے رکھوایا ہے،یہ سوچ کر کہ میرے مرنے کے بعد یہ مقدس نقش میری قبر پر لگا یا جائے۔ بیٹے نے ضد کی تو معاملہ یہ طے ہوا کہ جس کی بھی وفات پہلے ہوتی ہے اس کی قبر پر یہ لگا یا جائے گا۔بادشاہ نے سوچا میں سن رسیدہ ہوں، میرا ہی انتقال پہلے ہوگا۔ معاملہ یہاں رفع دفع ہوگیا۔ بد قسمتی سے فتح خان تغلق کا ہی انتقال پہلے ہوگیا۔ سب سے بڑے بیٹے اور ولی عہد کے انتقال سے فیروز شاہ بہت دل برداشتہ ہوا اور غموں کا طوفان اس کے سرپر ٹوٹ پڑا،کیونکہ فتح خان سے فیروز کو ایک خاص لگاؤ تھا، اس کی پیدائش اسی دن اور دورانِ سفر ہوئی جب فیروز حکومت سنبھالنے کے لئے ٹھٹھ(حالیہ پاکستان) سے دہلی کے لئے چلا تھا، اس کی ولادت کی خوشی میں پنجاب کے شہر ’اکدار‘ کا نام ’فتح آباد‘ رکھا گیا۔ بھائیوں میں سب سے بڑااور سمجھ دار تھا، اور کئی جنگوں میں اپنی بہادری کے سکّے جما چکا تھا، صرف سات سال کی عمر اپنے والد کے ساتھ بنگال میں جنگ کے محاز پر گیا، اور دو سال بعد پھر بنگال کی جنگ میں والد کا ساتھ دیا اور بہادری کے ہنر دکھائے، اسی سفر میں فیروز شاہ نے اسے اپنا ولی عہدمقرر کر دیا۔جون پور سے لکھنوتی، بنگال کی طرف فوج کے ساتھ کوچ کرتے وقت فیروز شاہ نے اسے شاہی خلعت سے نوازا اور حکم دیا کہ فتح خاں کے نام سے سکے ڈھالے جائیں۔
اس کے انتقال کے بعد حسبِ وعدہ بادشاہ نے وہ نقشِ پائے رسول ﷺ فتح خان کی مرقد پر لگانے کا حکم دیا، اور جو مقبرہ اس نے اپنے لئے بنوایا تھا اس میں فتح کو دفن کیا گیا۔اور اس پر تبرکاًوہ مقدس نقشِ پا لگوایا گیا۔ اس طرح وہ مزار ’قدم شریف‘ اور ’درگاہِ قدمِ رسول‘ کے نام سے مشہور ہوااور اس پورے علاقے کو ’نبی کریم‘ کہا جانے لگا۔
سعدیہ دہلوی اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتی ہیں کہ تغلق دورِ حکومت کے اختتام کے بعد کے دور میں بھی قدم شریف کا مزار لوگوں کے لئے اہمیت کا حامل رہا، اور یہاں لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہئ تاریخ کے سابق صدرا ور ہیومینیٹیزفیکلٹی کے سابق ڈین پروفیسر عزیز الدین ہمدانی کا کہنا ہے کہ اگر چہ مشہور مؤرخ ضیاء الدین برنی (1285-1357ء) اور مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اس مزار کا ذکر نہیں کیا، اور خود فیروز شاہ تغلق کی سوانح حیات ’تاریخِ فیروز شاہی‘ میں بھی اس کا ذکرموجود نہیں ہے، مگر دیگر مصادر و مراجع یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ مزار مرجع الخلائق رہا ہے۔اور سر سید احمد خاں (1817-1898ء) نے اپنی شہرہئ آفاق کتاب ’آثار الصنادید‘ میں بتفصیل اس مزار کا ذکر کیا ہے اور نقوش و تصویروں کے ذریعے اس کا مکمل جائے وقوع بتایا ہے۔سر سید مکمل تفصیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قدم شریف یا مقبرہئ فتح خان: یہ درگاہ بہت نامی اور درحقیقت یہ مقبرہ ہے شاہزادہ فتح خان بن فیروز شاہ کا جبکہ ۷۷۶ہجری مطابق ۴۷۳۱ عیسوی کے شاہزادہئ فتح خان نے انتقال کیاتو اسکی لاش یہاں دفن ہوئی اور فیروز شاہ نے اسکے گرد مکانات اور مدرسہ اور مسجد بنائی اور چار دیواری کے پاس ایک بہت بڑا حوض بنوایاکہ اب تک موجود ہے جناب پیغمبر خدا ﷺسے ایک معجزہ ہوا تھا کہ اسکے سبب پتھر پر نقش قدم پڑ گئے تھے چنانچہ اکثر کتابوں میں یہ مذکورہے،مشہور ہے کہ انھیں نقش قدم کے پتھروں میں کا ایک پتھر فیروز شاہ کے عہد میں آیا اور اسنے وہ پتھر بطور تبرک اپنے بیٹے کی قبر پر لگا دیااور اسی سبب سے یہ مقبرہ قدم شریف کے نام سے مشہور ہوااس قبر پر حوض بنادیا ہے اور اوسکے گرد سنگ مرمر کا کٹہرا لگایا ہے اسمیں پانی بھرتے ہیں اورنقش قدم کو دھو کر پانی کا تبرک لے جاتے ہیں اور زبان حال سے یہ شعر پڑھتے ہین:
اے خضر دل اسی کے پیے سے نجات ہے پانی قدم شریف کا آبِ حیات ہے
بارھویں ربیع الاول کو ہر سال یہاں بہت بڑا میلا ہوتا ہے، تمام خلقت جمع ہوتی ہے اور ہزاروں ملنگ آتے ہیں اور دروازے کے آگے دھمال کرتے ہیں“۔ (آثار الصنادید،ص 203)
مغلیہ دورِ سلطنت میں بھی اس مزار کی ایک خاص معنویت تھی، اور شاہ جہاں و دیگر بادشاہوں نے اس کی توسیع وتزئین کاری بھی کی، اورنگ زیب (1618-1707ء) کے عہد میں جب ڈاکو اور قزاقوں کی بدمعاشیاں بڑھ گئی تھی تو یہاں پر پانچ سو چوروں اور راہزنوں کو پھانسی دی گئی تھی، یعنی یہ مقام تقدس وعبرت اور عوامی مجلس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ایطالوی سیاح و مؤرخ نکولاؤ منوچی(1638-1717ء) مغلیہ سلکنت پران کا سفر نامہ اہم تاریخی دستاویز مانا جاتا ہے وہ لکھتے ہیں:
”جشن وتہوار کے بعد بادشاہ اورنگ زیب نے چوروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، جب ان کی گرفتاری ہوئی تو ان کی تعداد پانچ سو تھی، اور ان کو قدم شریف کے قریب پھانسی دے دی گئی، اور اس مقام کو قدمِ رسول بھی کہا جاتا تھا۔ اس جگہ پر پیغمبر محمد کے قدموں کے دو نشان موجود تھے اور لوگ اس کی بڑی تعظیم کیا کرتے تھے“۔ (مغل انڈیا،چوتھی جلد، طباعت اول1907ء)
انگریز بھی اس جگہ کے تقدس واحترام سے واقف تھے، تقسیمِ ہند کے و قت اس محلے سے اکثر لوگ ہجرت کر گئے اور یہ مرقد بے توجہی کا شکار رہا، لوگ اسے بھول سے گئے،جو کچھ لوگ یہاں رہ گئے تھے وہبیچارے اپنے وجود اور تشخص کی تلاش میں سرگرداں تھے، ایک مزار و تبرک کو کہاں تک سنبھالتے۔ پھر آزادی کے بعد اس علاقے میں ایسی بے ہنگم، بے ترتیب وغیر منظم آبادی کا سیلاب آیا کہ یہاں کی فلک بوس عمارتوں کے درمیان یہ مزار مکمل بے اعتنائی کا شکار ہوگیا، کہیں دب گیا اورلوگ اسے بھول گئے۔آج افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کثیر مسلم آبادی والے علاقے میں وہ مزار اس قدر بے توجہی کا شکار ہے کہ کسی کومعلوم تک نہیں کہ اس کی تاریخ وافادیت کیاہے، عمارتیں بوسیدگی کا شکار ہیں، نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر واقع یہ مقدس و تاریخی مقام گمنام ہوگیا ہے اور غیر قانونی قبضوں کے بیچ یہ تاریخی وتہذیبی ورثہ کہیں دب سا گیا ہے۔ اس مقبرہئ فتح خاں تغلق کی حالتِ زار دیکھ کرتمام زائرین کو شہزادی زیب النساء مخفی(1638-1702ء) کایہ مشہور شعر یاد آتا ہے:
بر مزارِ ما غریباں، نے چراغے،نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×