احوال وطنفقہ و فتاوی

امسال عید کی نماز کیسے ادا کریں؟

مرادآباد: 19؍مئی (عصر حاضر) ہفتوں سے ملک کے طول و عرض سے اہل علم کی طرف سے امسال عید کی نماز کی ادائیگی سے متعلق سوالات آتے رہے ، اور یہی جواب دیا جاتا رہا کہ عید کا دن قریب آنے دیا جائے اس کے بعد حالات کے اعتبار سے غور کیا جائے گا۔ اور اب عید کا دن قریب آنے والا ہے اور لاک ڈاون کی پابندی میں کسی قسم کی نرمی کی کوئی شکل نظر نہیں آ رہی ہے؛ اس لئے چند جملے پیش خدمت ہیں! ہو سکتا ہے کہ اس سے مسلمانوں کو آسانی پیدا ہوجائے جو حسب ذیل ہیں۔

یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جمعہ کی نماز کی صحت کے لئے جو شرائط ہیں حضرات حنفیہ کے نزدیک عید کی نماز کی صحت کے لئے بھی وہی شرائط ہیں، نیز عید کی نماز میں تکبیرات زوائد کا اضافہ بھی لازم ہے جو جمعہ کی نماز میں نہیں ہوتی ہے اور جمعہ کی نماز میں خطبہ واجب ہوتا ہے اور نماز سے پہلے ہوتا ہے اور عید کی نماز میں خطبہ واجب نہیں ہوتا ہے بلکہ سنت ہوتا ہے اور نماز کے بعد ہی ہوتا ہے۔

اب اس تمہید کے بعد امسال عید کی نماز کے بارے میں حسب ذیل گزارشات ہیں۔
عید کی نماز کے اعتبار سے امسال مسلمان دو قسموں پر نظر آ رہے ہیں:

1: وہ مسلمان جو کسی بھی درجہ میں چند افراد کے ساتھ عید کی نماز کے شرائط و واجبات کی رعایت کرتے ہوئے عید کی نماز ادا کرسکیں گے اور ایسے لوگ کروڑوں مسلمانوں میں سے بہت ہی کم تعداد میں ہونگے؛کیونکہ کروڑوں مسلمانوں میں سے پانچ دس فیصد بھی ایسے مسلمان مشکل سے ہونگے جو عید کی نماز میں امامت کر سکیں گے،
نیز حکومت کی طرف سے ایسی۔‌ پابندیاں اور سختیاں جاری ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک امام کے پیچھے محلہ کے دس، بیس، پچاس آدمی اکٹھا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتے،
اور ایک ایک محلہ میں نماز پڑھنے والے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں اور ہزار میں سے امامت کرنے کی ہمت ایک دو کو بھی مشکل سے ہوتی ہے،
اگر حکومت کی پابندی کی رعایت کی جائے تو پانچ ہزار میں سے ایک ہزار امامت کرنے والوں کی تعداد ہونی چاہیے اور یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا؛
اس لیے امسال کتب فقہ کی تصریحات کے مطابق عید کی نماز اپنے شرائط کے مطابق ادا کرنے والے کروڑوں مسلمانوں میں سے بہت ہی کم تعداد میں ہونگے۔
اور بہت سے لوگ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اثر کے مطابق عمل کریں گے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اثر یہ ہے کہ انہوں نے بصرہ سے کچھ فاصلہ پر زاویہ نامی گاؤں میں رہائش اختیار فرمایا تھا، وہ عید کے دن اپنے گھر والوں کو اکھٹا کرکے اپنے آزاد کردہ غلام کے ذریعے عید کی نماز اسی طرح ادا کرتے تھے جس طرح شہر اور قصبات میں ادا کی جاتی ہے،
اس اثر کو حضرات حنفیہ نے اختیار نہیں فرمایا
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اثر ذیل میں مذکور ہے:
كان انس رضي الله عنه اذا فاتته صلاه العيد مع الامام جمع اهله فصلى بهم مثل صلاه الامام في العيد.
ويذكر عن انس بن مالك انه اذا كان بمنزله بزاوية فلم يشهد العيد بالبصرة جمع مواليه وولده ثم يأمر مولاه عبد الله بن ابي عتبه فيصلي بهم كصلاة اهل مصر ركعتين يكبربهم كتكبيرهم.
(السنن الكبرى للبيهقي كتاب الصلاة العيدين،باب صلاة العيدين سنة اهل الاسلام حيث كانوا، مكتبه دار الفكر بيروت ٨٩/٥ رقم ٦٣٢٩
معرفه السنن والاثار: كتاب صلاة العيدين، باب الامام يأمر من يصلي بضعفة الناس العيد في المسجد، مكتبه دار الكتب العلميه بيروت ٥٩/٣ تحت رقم ١٩٤٥
تغليق التعليق: كتاب العيدين، باب اذا فاته العيد يصلي ركعتين، المكتبه الاثرية باكستان ٣٨٦/٢
وذكره البخاري تعليقا كتاب العيدين،تحت ترجمة اذا فاته العيد يصلي ركعتين،النسخة الهندية ١٣٤/١ قبل رقم ٩٨٧،٩٧٧

یہ بات بھی یاد رکھیں کہ حضرت انس رضی اللہ کے اثر کو ان حضرات نے اختیار فرمایا ہے جنہوں نے دیہات میں جمعہ اور عیدین کو جائز قرار دیا ہے۔

2: دوسری قسم: ملک کے طول عرض میں وہ مسلمان نظر آرہے ہیں جو کسی بھی امام کے پیچھے عید کی نماز ادا نہیں کر پائیں گے ایسے لوگوں کی تعداد پورے ملک کے اندر 60، 70 فیصد سے کم نہیں ہوں گے۔

اور جن اہل علم کی طرف سے سوالات آئے ہیں ان میں سے اکثر ایسے مسلمانوں کے بارے میں ہے جو شہروں اور قصبات میں رہتے ہیں اور خود عید کی نماز پڑھنے اور پڑھانے پر قادر نہیں ہیں مگر عید کی نماز کے لیے‌ شوق اور آرزو رکھتے ہیں،ان کے لیے شریعت کا کیا حکم ہوگا ؟
اور شہر میں رہتے ہوئے ایسے لاکھوں مسلمان موجود ہوتے ہیں جو صرف مغرب کی نماز پڑھانے پر بھی قادر نہیں ہوتے ہیں تو یہ لوگ عید کی نماز کیسے پڑھیں گے اور کیسے پڑھائیں گے؟
اور اگر ایک جگہ چار پانچ آدمی اکھٹا ہونے پر بھی قادر ہوں اور شرائط بھی موجود ہوں لیکن ان کو نماز پڑھانے والا کوئی نہ ہوگا چونکہ عید کا دن سال بھر میں ایک مرتبہ آتا ہے اور جو مسلمان کبھی کوئی جمعہ بھی نہ پڑھتا ہو وہ بھی عید کی نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور عید کی نماز فوت ہوجانے پر اپنے آپ کو بہت بڑا محروم سمجھتا ہے،تو ایسے لوگوں کے لئے امسال مسئلہ کا حل کیا ہوگا ؟
تو ایسے مسلمانوں کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ وہ ہرگز غمزدہ نہ ہوں ،فقہاء کی تصریحات کے مطابق وہ عید کے دن عید کی نماز کے اوقات کے اندر چار رکعت یا دو رکعت نفل نماز پڑھ لیں اور اللہ سے ثواب کی امید رکھیں !
اور بعض روایات میں مخصوص سورتوں کے ساتھ چار رکعت پڑھنے پر عظیم ترین اجر وثواب کا وعدہ بھی مذکور ہے، جس کی تصریح کتب فقہ میں ہے۔
اور چار رکعت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت صراحت کے ساتھ موجود ہے اور یہ چار رکعت اگرچہ نفل ہونگی مگر امسال کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے ان کا ثواب انشاءاللہ عید کی نماز سے کم نہیں ہوگی۔
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت اور فقہاء کی مختصر تصریحات ذیل میں درج ہے:

عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: "من فاتته العيد فليصل اربعا”

المعجم الكبير للطبراني: مكتبه دار احياء التراث العربي ٣٠٦/٩ رقم ٩٥٣٣،٩٥٣٢
المصنف لعبد الرزاق: كتاب صلاة العيدين، باب من صلاها غير متوضئ ومن فاته العيدان، مكتبه دار الكتب العلميه بيروت ١٧٢/٣ رقم ٥٧٣٠
مصنف لابن ابي شيبه: كتاب الصلاة، باب الرجل تفوته الصلاه في العيدين كم يصلي؟ مكتبه مؤسسه علوم القران بتحقيق الشيخ محمد عوامة ٢٣٥/٤ رقم ٥٨٥٠
مجمع الزوائد: كتاب الصلاة، باب في من فاتته صلاة العيد، مكتبه دار الكتب العلميه بيروت ٢٠٥/٢
جمع الفوائد: كتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، مكتبة مجمع الشيخ محمد زكريا السهارنفور ١٩٢/٢ رقم ١٥٨٩

وروي في ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم وعدا جميلا وثوابا جزيلا.

المحيط البرهاني: صلاه العيدين مكتبه المجلس العلمي ٤٩٩/٢ تحت رقم ٢٢٦٩
فتاوى قاضيخان: كتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، مكتبه زكريا جديد ١١٥/١
البنايه شرح الهداية, مكتبة الاشرفيه ديوبند ١٢٠/٣

خلاصہ :

1: عید کی نماز جو لوگ بغیر روک ٹوک کے کسی امام کے پیچھے پڑھنے پر قادر ہوں اور عید کی شرائط بھی پوری ہوں ان کے اوپر عید کی نماز پڑھنا واجب ہے۔

2: عید کی نماز واجب ہے اور خطبہ دینا مسنون ہے لہذا اگر کہیں عید کی نماز ادا کرنے کے لیے سارے اسباب موجود ہوں اور نماز پڑھانے والا بھی موجود ہو لیکن خطبہ دینے پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں بھی عید کی نماز پڑھنا ان پر واجب ہے کیونکہ بغیر خطبہ کے بھی عید کی نماز صحیح ہو جاتی ہے۔

3 : بہت سے مقامات میں یہ صورت بھی پیش آنے والی ہے کہ بغیر روک ٹوک کے عید کی نماز اپنی شرائط کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں لیکن نماز پڑھانے والا کوئی نہ ہوگا تو ایسے لوگوں پر امسال کی موجودہ حالات میں عید کی نماز واجب نہیں ہوگی،بلکہ ایسے لوگوں سے عید کی نماز معاف ہو جائے گی۔
اور چاشت کی نماز کی طرح چار رکعت نماز پڑھنا ان کے لیے مستحب اور باعث اجر ثواب ہوگا اور ایسے لوگوں کی تعداد ملک بھر کے اندر لاکھوں کروڑوں میں ہونگے۔

4: ایسے مقامات ہزاروں کی تعداد میں ہونگے جہاں کے لوگوں کو عید کی نماز کے لیے کسی طرح کی سہولت میسر نہیں ہوگی اور وہ اپنے اپنے گھروں میں ایک ایک دو دو تین تین مردوں کے دائرے میں ہوں گے وہ کسی طرح سے عید کی نماز کی صحت کے لیے تعداد کو پوری نہیں کر سکیں گے اگرچہ ان میں نماز پڑھانے کی صلاحیت کیوں نہ ہو،
تو ایسے لوگوں کے اوپر سے بھی تعداد پوری نہ ہونے کی وجہ سے عید کی نماز کا وجوب ساقط ہو جائے گا اس لیے کہ عید کی نماز صحیح ہونے کے لئے امام کے علاوہ کم سے کم تین آدمی کا ہونا لازم ہے۔
اور یہ لوگ بھی تنہا تنہا چار رکعت نفل نماز چاشت کی طرح ادا کریں گے اور ان کو بھی انشاء اللہ پورا ثواب ملنے کی امید ہے۔

5: پورے ملک میں ایسے لوگ بھی لاکھوں کی تعداد میں ہونگے جن کو عید کی نماز ادا کرنے کے لیے تعداد کی شرط حاصل ہوگی لیکن ان میں کوئی عید کی نماز پڑھانے والا نہیں ہوگا،تو ایسے لوگوں کے اوپر سے بھی عید کی نماز پڑھنا معاف ہوجائے گا اور یہ لوگ بھی اپنی اپنی رہائش گاہوں میں تنہا تنہا چاشت کی نماز کی طرح چار رکعت ادا کریں گے ان کو بھی انشاءاللہ پورا ثواب ملے گا۔

6: ایسے لوگ بھی ملک میں بھاری تعداد میں ہونگے جن میں صحت عید کے لئے افراد کی تعداد پوری ہوگی اور نماز پڑھانے والا بھی ہوگا مگر جس جگہ پر وہ لوگ ہیں وہ جگہ جمعہ اور عیدین کی صحت کے لیے شرائط پوری نہیں کرسکتی ان کے یہاں زنان خانے کے علاوہ ایسے باہری کمرہ یا بیٹھک بھی نہیں ہوگی جس میں اذن عام ہو اور اڑوس پڑوس کے لوگ آ جا سکتے ہوں، نیز آنے جانے میں سرکاری پابندی کا خطرہ الگ سے ہے اور نہ ہی یہ لوگ سرکاری پابندی کی وجہ سے اڑوس پڑوس میں جاکر عید کی نماز ادا کرسکتے ہیں اور پورے ملک میں ایسے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی،
تو ایسے لوگوں پر سے بھی عید کی نماز معاف ہوجائے گی اور یہ لوگ بھی بجائے عید کی نماز کے چاشت کی نماز کی طرح چار رکعت نفل ادا کریں گے،ان کو بھی انشاءاللہ پورا ثواب ملنے کی امید ہے۔

7: اگر کوئی چار رکعت نہ پڑھ کر دو رکعت نفل پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے صرف دو رکعت نفل پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔

8: یہ نوافل مستحب ہیں واجب اور لازم نہیں ہے لیکن اللہ سے موجودہ حالت میں اجر ثواب کی پوری امید ہے۔فقط والله أعلم

۔۔۔۔۔۔۔شبیر احمد قاسمی۔۔۔۔۔۔۔۔
خادم الافتاء و الحدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد
٢٤ رمضان ١٤٤١ھ 18 مئی 2020ء

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×