زرعی قوانین: سپریم کورٹ کے تشکیل کردہ پینل پر اٹھنے لگے سوال
نئی دہلی: 20؍جنوری (عصرحاضر) نئے زرعی قانون کی مخالفت میں کسان 56 دن سے آندولن کر رہے ہیں‘ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ تینوں قوانین کی واپسی تک کسان اپنے محاذ پر ڈٹے رہیں گے۔ 26 جنوری کو کسانوں کی ہونے والی ٹریکٹر ریلی کو لے کر دہلی پولیس کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران سپریم کورٹ کی جانب سے حال ہی میں بنائی گئی کمیٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ جس پر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے سخت لہجے میں کہا کہ اگر کسان کمیٹی کے سامنے نہیں جانا چاہتے تو مت جائیں۔ مگر ایسے کسی کی بھی شبیہ خراب نہ کریں۔ اس طرح کی برانڈنگ نہیں ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر واضح کیا کہ کمیٹی کو کوئی فیصلہ لینے کی طاقت نہیں دی گئی ہے، اسے صرف ہمیں رائے دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ کمیٹی کو ہم نے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔ اسے صرف کسانوں کی پریشانیاں سننے اور ہمیں رپورٹ دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔ آپ بغیر سوچے سمجھے بیان دیتے ہیں۔ کسی نے کچھ کہا تو وہ نا اہل ہوگیا؟ میں نے قوانین میں ترمیم کرنے کے لئے کہا تھا، آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ قوانین کی حمایت کرتے ہیں۔
بوبڈے نے سخت لہجے میں کہا- ’آپ اس طرح کے لوگوں کو برانڈ نہیں کرسکتے۔ لوگوں کی رائے ہونی چاہئے۔ یہاں تک کہ سب سے اچھے ججوں کی بھی کچھ رائے ہوتی ہے، جبکہ وہ دوسری طرف فیصلہ بھی دیتے ہیں’۔
دراصل، ایک کسان یونین نے کورٹ میں بحث کرکے کمیٹی کے اراکین کے بارے میں اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ دوے کے موکل نے کمیٹی کے بننے سے پہلے ہی کمیٹی کے سامنے نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آپ کون ہیں؟ سالسٹر جنرل نے دوے سے پوچھنے کو کہا- دوے کس یونین کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ دوے 8 کسان یونینوں کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں۔ دوے نے کہا کہ کسان مہا پنچایت مظاہرین کسانوں میں سے نہیں ہیں۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ یونینوں کا کہنا ہے کہ ہم کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔