شاہین باغ کی دبنگ دادی نے کہا کہ حکومت ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی تو ہم بھی ایک رتّی نہیں ہٹیں گے
نئی دہلی: 19؍فروری (عصر حاضر) سپریم کورٹ سے مقرر کردہ ثالثی سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن آج شاہین باغ پہنچ کر مظاہرین سے ملاقات کی اور سپریم کورٹ کا حکم انگریزی اور ہندی میں پڑهھ کر سنایا اور یہ کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ نے بھیجا ہے ، آپ کو بتانے کیلئے ، آپ کے ساتھ مل کر حل نکالنے کیلئے آئے ہیں، ہم آپ سب کی اچھی بُری ہر بات سننا چاہتے ہیں آپ کی ہر بات سنیں گے۔ تاہم اس بات چیت کے دوران میڈیا سے دوری بنائے رکھنا ضروری ہے اور بات چیت ختم ہونے پر ہم میڈیا کو اپنی تفصیلات بتادیں گے‘ لیکن دورانِ گفتگو ان کو قریب نہیں رکھیں گے۔ مصالحت کاروں نے مظاہرین کی باتیں اور ان کے سوالات سنیں اور جواب بھی دئے۔ اس موقع پر سنجے ہیگڑے نے کہا کہ ہم آپ کی بات سننے کیلئے آئے ہیں ۔ جبکہ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا کے سامنے بات چیت کرنا چاہتے ہیں ۔ پہلے دن کی بات چیت کے دوران شاہین باغ کی جرأت مند خواتین نے ثالثی پینل کے سامنے دو ٹوک لہجہ میں اپنے بات رکھتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ یہاں پچهلے 67؍دنوں سے بیٹھے ہوئے ہیں‘ یہاں پر مسلسل احتجاج ہورہا ہے‘ سردی‘ بارش کی پرواہ کیے بغیر دیش کی خاطر جمہوریت کی بقا کی خاطر اور ہمارے وجود پر کھڑے ہورہے سوالات پر اپنی ناراضگی اور غصہ کے اظہار کے لیے اپنے آرام و سکون کو چھوڑ کر مظاہرہ کررہے ہیں‘ لیکن حکومت اپنے آنکھ کھولنا نہیں چاہتی اُلٹا ہمیں نشانہ بنایا جارہا ہے‘ کوئی اس کو چھوٹا پاکستان کہتا ہے تو کوئی یہاں کی مخلص خواتین کو پیسے لیکر بیٹھنے کا الزام لگا رہا ہے‘ جب حکومت کی آنکھیں نہیں کھلیں اور آج ہم سے کہہ رہے ہیں کہ یہ سڑک خالی کردی جائے‘ شاہین باغ کی مشہور و معمر جہت کار جنہیں دبنگ دادی کہا جارہا ہے انہوں نے ہیگڑے کے سوال پر کہ یہ سڑک کب خالی کریں گے تو صاف طور پر کہا کہ جب حکومت یہ سیاہ قوانین واپس لیں گی تب ہم لوگ یہ روڈ خالی کردیں گے اگر حکومت چاہے تو فوراً اعلان کردیں‘ ہم لوگ صرف آدھے گھنٹہ میں اس سڑک کو بحال کرکے بتادیں گے بشرطیکہ حکومت بھی اپنا قانون واپس لیں‘ مختلف خواتین نے پوری جرأت و بے باکی کے ساتھ اپنا مؤقف رکھا اور مجموعی اعتبار سے سبهوں نے یہی کہا کہ ہم لوگ فوری طور پر یہاں سے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں‘ ایک خاتون نے بچوں کی موت پر آدیش جاری کرنے کے بارے میں کہا کہ یہاں جو بچے فوت ہوئے ہیں اس پر تو نوٹ لیا جارہا ہے‘ لیکن وہ بچے جو سینکڑوں کی تعداد میں دواخانوں میں آکسیجن گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے روزانہ اپنی جانیں گنوارہے ہیں اور بھکمری کا شکار بچے ہر دن دم توڑ رہے ہیں حکومت کو تو اس کی فکر نہیں اور یہاں پر سردی بارش سے جوج رہی خواتین سے لاپرواہی برت رہی ہے اور بچوں کی موت پر فکر ہورہی ہے اگر حقیقت میں فکر دامن گیر ہے تو ان خواتین کے مطالبات کو حکومت تسلیم کرکے سیاہ قوانین کی واپسی کا اعلان کردیں حالانکہ جس ماں کی لڑکی فوت ہوئی اس ماں نے صاف کہہ دیا کہ کل کو وہ لڑکی مجھ سے اگر یہ سوال کرلے کہ ملک کی سالمیت امن و امان ختم ہورہا تھا اور آپ لوگ مجھے بڑا کرنے کی فکر کررہے تھے تو ہم کل اس لڑکی کے سامنے کچھ جوابدہی کے قابل بھی نہ رہتے‘ ایک اور خاتون نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ 2003ء میں اٹل بہاری واچپائی کی سرکار میں جب شہریت قانون میں ترمیم کی گئی اس کو بھی ختم کیا جائے تاکہ مستقبل میں این آر سی کا شائبہ بھی نہ رہے تو ہم لوگ اپنی تحریک کو کامیاب سمجھیں گے۔ مصالحت کار سادھنا رام چندرن نے ان خواتین سے بات چیت کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ہم نے ان سے ملاقات کی اور ان کی باتیں سنیں ۔ ہم نے پھر ان سے پوچھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم کل بھی آئیں ، کیونکہ ایک دن میں بات چیت مکمل نہیں ہوسکتی تو مظاہرین نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کل بھی آئیں، اس لئے ہم کل بھی آئیں گے ۔