احوال وطن

خود ساقیٔ کوثر نے رکھی مئے خانے کی بنیاد یہاں؛ دارالعلوم دیوبند کی 155؍ویں یومِ تاسیس پر خصوصی پیشکش

عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند عالمی سطح پر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، یہ ادارہ پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات، اسلام کی نشرواشاعت، اسلامی فکر، اسلام کی ترویج و تفہیم کے لئے مشہور ہے، اس کی بنیاد 30 مئی 1866 کو رکھی گئی تھی۔ ملاحظہ کریں ایک خصوصی پیشکش۔

دارالعلوم دیوبند کی 155 برس قبل مرحوم حاجی سید عابد حسینؒ اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے چھتہ کی مسجد میں واقع انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے عربی مدرسے کی تاسیس سے کی تھی۔

اس چھوٹے سے مکتب نے وقت کے ساتھ ایک ایسے تناور درخت کی شکل اختیار کرلی، جس کو اب پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس ادارے سے دیوبندی مکتبہ فکر نے ترویج پائی جس کی پیروی کرنے والے اب دنیا بھر میں موجود ہیں جن کی تعداد شمار کرنا ممکن نہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا ملک کی آزادی میں اہم کردار

دارالعلوم دیوبند نے ایک دینی تعلیمی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی آزادی کے لئے ایک طویل مہم چلائی ہے۔ اس ادارہ سے منسلک سینکڑوں علماء ،خاص طورپر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ وغیرہ نے ملک کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

دارالعلوم سے جاری ہونے والے فتوے

دارالعلوم دیوبند کی وجہ سے دیوبند کو فتووں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم کی جانب سے جاری ہونے والے فتوے مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کرتے ہیں۔ دارالعلوم کے شعبہ دارالافتاء سے ہر سال تقریبا سات سے آٹھ ہزار فتوے جاری کیے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ میڈیا دارالعلوم کے فتووں پر بحثیں کرتا بھی نظر آتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرات اور ان کی میعاد کار

حاجی محمد عابد 10 سال

مولانا رفیع الدین 19 سال

حاجی فضل حق 10 سال

مولانا منیر نعمانی ڈیڑھ سال

مولانا حافظ محمد احمد 34 سال

مولانا حبیب الرحمن عثمانی سوا سال

مولانا قاری محمد طیب صاحب 52 سال

مولانا مرغوب الرحمٰن بجنوری 32 سال

مولانا غلام محمد وستانوی 7 ماہ

مفتی ابوالقاسم نعمانی موجودہ مہتمم

دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم و ممتاز عالم دین مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ یہ ادارہ دینِ اسلام کی روشنی سے پوری دنیا کو منور کر رہا ہے اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔دارالعلوم کے قیام سے لے کر آج تک اس ادارے نے پوری دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلائی ہے۔ اس ادارہ کے بانیوں، مخلصین، شوریٰ کے اراکین اور علمائے کرام کی قربانیوں کو مسلم دنیا عقیدت و احترام کے ساتھ دیکھتی ہے اور انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ملک کی آزادی کی جدوجہد میں دارالعلوم دیوبند اور علمائے کرام نے جو قربانیاں پیش کیں ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دارالعلوم کے پہلے طالب علم مولانا محمود الحسنؒ نے ریشمی رومال تحریک چلا کر آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا تھا۔ شیخ الہند کی انہیں خدمات کے پیش نظر ریشمی رومال کی تحریک کے نام پر حکومت ہند نے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا اور سہارنپور میں میڈیکل کالج بھی شیخ الہندؒ کے نام پر رکھا گیا۔

بھارت میں آزادی کی شمع جلانے والے اور اسے ایک نئی سمت دینے والے مولانا محمود الحسنؒ 1851 میں دیوبند کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1905 میں دارالعلوم کی باگ ڈور سنبھالنے والے مولانا محمود حسنؒ آزادی کے ان مجاہدوں میں شامل تھے جنھیں اپنے قلم، علم، اخلاقیات اور طرز عمل سے شیخ الہندؒ (بھارتی اسکالر) کے لقب سے نوازا گیا۔

عظیم انقلابی شخصیت مولانا شیخ الہند نے ملک کو خود مختار بنانے کے لئے ریشمی رومال کی تحریک چلائی، جو بھارت کو آزاد کرانے کی بین الاقوامی سطح پر پہلی انقلابی تحریک تھی۔ انہوں نے اپنے خاص شاگردوں اور متحرک لوگوں کے توسط سے انگریزوں کے خلاف مہم شروع کی اور ہزاروں مسلمانوں کو برطانوی سلطنت کے خلاف اس تحریک میں شامل کیا۔

اس تحریک کے تحت فرنگی حکمرانی کو ختم کرنے کے لئے ریشم کے رومال پر تمام خفیہ منصوبے بھیجے گئے تھے۔ سال 1916 میں ریشمی رومال کی تحریک عروج پر تھی۔ یہ دیکھ کر کہ اس تحریک نے فرنگیوں کی حکمرانی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے برطانوی حکمرانوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کو اپنے ساتھیوں مولانا عذیر گل، حکیم نصرت حسین اور مولانا وحید احمد کے ساتھ گرفتار کیا، اور روم ساگر کے جزیرے مالٹا کے جنگل میں قید کردیا جہاں شیخ الہند اور ان کے ساتھیوں نے چار سال تک قید بامشقت برداشت کیں۔

جیل کی سزا بھگتنے کے بعد شیخ الہند نے مہاتما گاندھی سے ملاقات کرکے آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا۔ 30 نومبر 1920 کو آزاد ملک کا خواب لیکر شیخ الہندؒ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔حکومت ہند کی جانب سے شیخ الہند کی آزادی کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے حکومت ہند نے گذشتہ سال تحریک ریشمی رومال اور شیخ الہند کے نام پر ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔

صرف یہی نہیں حال ہی میں اترپردیش کی ایس پی حکومت نے بھی ضلع سہارنپور میں واقع میڈیکل کالج کا نام شیخ الہند رکھا ہے۔دارالعلوم دیوبند اسلامی تعلیم کے علاوہ ادب و صحافت کے میدان میں بھی انمول خدمات انجام دے رہا ہے۔ تاریخی عمارت کی دیواروں پر خوبصورت شیشے کے فریم میں طلباءکے ذریعہ شائع ہونے والے اخبارات اس کی زندہ مثال ہیں کہ دارالعلوم اعلیٰ معیار کے صحافی بھی تیار کرتا ہے۔
دارالعلوم میں جرنلزم کورس کے علاوہ سو سے زیادہ وال میگزین بھی شائع ہو رہے ہیں۔ ادارے میں زیر تعلیم ملک کی مختلف ریاستوں اور اضلاع کے طلباء اپنے اساتذہ کی سرپرستی میں یہاں اخبارات شائع کرتے رہتے ہیں۔ ان اخباروں میں، طلبا مضامین کے ذریعے مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، قومی سطح کے سلگتے مسائل بھی ان اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتے ہیں۔

دارالعلوم میں دیوان اخبارات کے آغاز کی کوئی تاریخ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ مولانا وحید الزمان کیرانویؒ نے دارالعلوم کے طلباءکو سنہ 1960 میں اپنی تقرری کے بعد لکھنے کے لئے تحریک دی تھی۔ اس کے بعد ہی دیوان اخبارات کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ ایک وقت تھا جب سادہ کاغذ پر ہاتھ سے کتابیں لکھی جاتی تھیں ، لیکن حال ہی میں وہ ہاتھ کے علاوہ کمپیوٹر کے ذریعہ بھی شائع ہو رہی ہیں۔ جس نے اخباروں میں خوبصورتی کا اضافہ کردیا ہے۔ شیشے کے فریم میں اپنی منفرد پیش کش کی وجہ سے یہ اخبارات نوجوان طلباءکو اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور انہیں لکھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ نیز دور دراز سے دارالعلوم کی زیارت کے لئے آنے والے لوگوں کو یہ وال میگزین اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×