افکار عالم

چین کے متمول شہر شنگھائی میں غیر معینہ مدت کے لیے لاک ڈاؤن نافذ، امریکہ نے غیرضروری عملہ واپس بلالیا

شنگھائی چین کا ایک گنجان آباد شہر ہے اوردنیا کے نقشے پر ایک متمول شہرکی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتا ہے۔ مگر چین میں کووڈ 19 کے خلاف قطعاً رعایت نہ کرنے یا "زیرو کووڈ” پالیسی پر عملدرآمد کے طریقے یہاں زندگی میں ناگواری کا عنصر بڑھاتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ ڈھائی کروڑ آبادی کے اس شہر میں لوگوں کے کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد شنگھائی کے حکام نے 28 مارچ کو شہر میں عارضی لاک ڈاؤن عائد کر دیا۔ پھر دو اپریل کو متاثرہ بچوں کو والدین سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کا آغاز ہوا اور 5ا پریل کو لاک ڈاؤن غیر معینہ مدت کے لیے عائد کردیا گیا۔
تاہم، والدین کے احتجاج کے بعد بچوں کو والدین سے جدا کرنے کی پالیسی 6 اپریل کو ختم کر دی گئی ۔ اسی دوران 8 اپریل کے اندازے کے مطابق روزانہ کیسز کی تعداد 22,000 تک پہنچ گئی۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز میں شہریوں کو حفاظتی لباس میں ملبوس صحتِ عامہ کے ملازمین کےخلاف مزاحمت کرتے دکھایا گیا اور کچھ مناظر شہریوں کے جبری کووڈ ٹیسٹ کے بھی نظر آئے۔
اسی دوران ڈرونز، جنہیں سرکاری خیال کیا جا رہا ہے، رہائشی علاقوں میں نگرانی کرتے رہے تاکہ لوگ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہ کر سکیں۔
مقامی حکام نے بتایا ہے کہ انفیکشنز کی حالیہ لہر جو بی اے۔2 ویرئینٹ کی وجہ سے ہے، 73,000لوگوں کو متاثر کر چکی ہے لیکن یہ اتنی مہلک نہیں ہے اور شہر میں کسی کی ہلاکت کی خبر بھی نہیں ملی ہے۔
وائس آف امریکہ کی کیلی تینگ اور کاؤفنگ نے اپنی رپورٹ میں شنگھائی میں سخت لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کی مشکلات اور حکام کی جانب سے لوگوں کو مہیا کردہ صحت کی سہولتوں کی تفصیل بیان کی ہے۔
شنگھائی کے لین گینگ فان کائی ہسپتال نے 5اپریل کو 14,00 بستروں کا انتطام کر دیا تھا۔ تاہم اس میں سے نصف خالی پڑے ہیں۔ اسی دوران حکام نے نیشنل ایگزیبشن اینڈ کنونشن سنٹر کو عارضی ہسپتال میں تبدیل کر دیا ہے جہاں 40,000سے زیادہ بستر ہیں۔
سرکاری اخبار ‘گلوبل ٹائمز’ کی اطلاع کے مطابق چین کے دس صوبوں سے طبی عملے کے 38,000 اہلکار اور پیپلز لیبریشن آرمی کے 2,000 سے زیادہ ارکان شنگھائی روانہ کر دیے گئے ہیں۔
اسی دوران گزشتہ ہفتے جمعرات کو ہیومین رائٹس واچ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ بیجنگ کے سخت لاک ڈاؤن پر اصرار نے شنگھائی میں لوگوں کی صحت کی سہولتوں، خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی تک رسائی مسدود کر دی ہے۔
تاہم چین کی نائب وزیرِ اعظم سن چن لین نے 2 اپریل کو شہر کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کی "زیرو کووڈ” پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا،” ڈھائی کروڑ کے اس میگا شہر میں اہم معمولات کو جاری رکھنا اور اومیکرون ویرئینٹ پر قابو پانا ایک بہت بڑا چیلنج اور انتہائی مشکل کام ہے۔”
ہیومین رائٹس واچ کا مزید کہنا ہے کہ علاج میسر نہ آنے کی وجہ سے نامعلوم تعداد میں وہ لوگ موت کا شکار ہوئے ہیں جو کووڈ 19 کے بجائے دیگر امراض میں مبتلا تھے۔
اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ نے شنگھائی میں امریکی قونصل خانے سے اپنے عملے کے ان ارکان کو شہر چھوڑنے کے لیے کہا ہے جن کی وہاں موجودگی لازمی نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×