ریاست و ملک

دوسرے شوہر کی آبائی ملکیت میں بیوہ خاتون کی پہلی شادی سے پیدا اولاد بھی حصہ دار: گجرات ہائی کورٹ

ایک خاتون کی دو شادیوں سے پیدا اولادوں کے درمیان ملکیت تنازعہ کو لے کر گجرات ہائی کورٹ نے انتہائی اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہندو وراثت ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت جب بغیر وصیت کیے کسی بیوہ کی موت ہو جاتی ہے تو بیٹے اور بیٹی سمیت اس کے وارث یا ناجائز تعلقات سے پیدا اولاد بھی اس کی آبائی ملکیت میں حصہ دار ہوتی ہے۔ جسٹس اے پی ٹھاکر نے مزید کہا کہ چونکہ اس کیس میں مہلوک بیوہ ملکیت کے مالکوں میں سے ایک تھی، ایسے میں اس کے پاس اپنا غیر منقسم حصہ کسی کو بھی دینے کا پورا اختیار تھا۔ خاص طور سے جب وصیت کو ہائی کورٹ کے سامنے کسی نے بھی چیلنج پیش نہیں کیا ہو۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ’’یہاں ہندو وراثتی ایکٹ کا تذکرہ کرنا ضروری ہے جس میں دفعہ 15 کے تحت ایک ہندو بیوہ کو اپنے دوسرے شوہر سے زمین وراثت میں مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ پہلی شادی سے پیدا ہوئے اس کے بچے بھی دوسرے شوہر کی زمین کے وارث ہو سکتے ہیں۔‘‘
دراصل سنگل جج کی بنچ آئین کے شق 226 کے تحت ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں کلکٹر کی طرف سے دیئے گئے حکم کو چیلنج پیش کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اس کیس میں پراپرٹی آبائی ملکیت تھی اور وصیت کے مستفیدین کو سول کورٹ کے حکم پر دعویٰ کی گئی ملکیت کا حق مل سکتا ہے۔ اس کیس میں ملکیت کے حقیقی مالک ماکھن بھائی پٹیل تھے۔ انھوں نے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ بیوی کنور بین کو ملکیت کے وارثین میں سے ایک کی شکل میں نامزد کیا تھا۔ اسے 1982 کے ریوینیو ریکارڈ میں بھی درج کر لیا گیا تھا۔ بعد میں کنور بین نے اپنی گزشتہ شادی سے ہوئے بیٹے کی بیوہ کے حق میں زمین کے غیر منقسم حصے کے لیے ایک وصیت تعمیل کروائی۔ عرضی دہندہ بہو کے جانشیں ہیں، جو کنور بین کی موت کے بعد ملکیت میں اپنے حصے کا دعویٰ کر رہے تھے۔
چونکہ معاملے سے منسلک لوگ اور ڈپٹی کلکٹر ریوینیو ریکارڈ میں ملکیت کو ان کے نام پر کرنے میں ناکام رہے، انھوں نے ہائی کورٹ کے سامنے اعتراض ظاہر کیا۔ عرضی دہندگان نے اہم طور پر دلیل دی کہ کنور بین ملکیت کی مکمل مالک بن گئی تھیں اور انھیں اپنی خواہش کے مطابق اسے تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔ اس کے علاوہ 1982 میں کسی بھی فریق کے ذریعہ وارث کو چیلنج پیش نہیں کیا گیا تھا اور اس لیے ریویونیو افسران کو وصیت کے مطابق انٹری کرنی چاہیے۔ گجرات ہائی کورٹ کی سنگل جج بنچ نے غور کیا کہ کنور بین کی پہلے کسی دیگر شخص سے شادی ہوئی تھی اور انھوں نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ماکھن بھائی سے دوسری شادی کر لی۔ ان کی وصیت کے مطابق ماکھن بھائی سے شادی کے بعد مدعا علیہ نمبر 5 اور 6 کی پیدائش ہوئی۔ بعد میں انھوں نے اپنی ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک پچھلی شادی سے ہوئے بیٹے کی موت کے بعد اس کی بہو کے لیے اور باقی ماکھن بھائی کے ساتھ شادی سے پیدا ہوئے اپنے بیٹوں کو دے دیا۔ مدعا علیہ نمبر 5 اور 6 نے زور دے کر کہا کہ چونکہ ملکیت آبائی تھی اس لیے اسے صرف انھیں ہی دیا جا سکتا ہے۔

Related Articles

One Comment

  1. اگر یہ طریقہ اسلامی طور پر صحیح ہے تو میں یہ سمجھتا ہو کہ یہ صحیح ہے
    .
    لیکن میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ. یا تو طلاق شدا عورت مہر کی رقم لے یا وراثت میں حصہ طلاق کے بعد اس کا حق مہر تھا ویراثت تو نہیں .ہا اگر کورٹ یہ کہے کے جہیزکی رقم عورت کو واپس دے دیا جایے تو شا ید بہتر ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×