احوال وطن

متنازعہ شہریت قانون فی الحال نافذ نہیں ہوگا‘ جانیے اہم وجہ

نئی دہلی: 21؍جولائی (عصر حاضر) متنازعہ شہریت قانون کے نفاذ کو لے کر وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران دلیل دی تھی کہ ابھی قانون کے ضابطے بھی نہیں بنائے گئے اور اتنی مخالفت کی جارہی ہے۔ مخالفت کرنے والی درخواستوں پر عدالت سماعت نہ کرے۔ تاہم شہریت قانون کے نفاذ کے لئے ضوابط وضع کرنےکی میعاد گزرجانے کے باوجود وزارت داخلہ خاموش ہے۔ 6 ماہ کے اندر ضابطے وضع ہونے تھے، لیکن پارلیمنٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی کو وزرات داخلہ سے قوانین موصول نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی لیٹر ملا، جس سے ضابطوں کو لےکر اسٹیٹس کی جانکاری مل پاتی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کوئی جانکاری دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اب اسٹینڈنگ کمیٹی جانب سے وزار ت داخلہ کو یاد دہانی کے لئے خط بھیجا گیا ہے۔

کے راگھو راما کرشنا رکن پارلیمنٹ وائی ایس آر سی پی کی سربراہی والی کمیٹی نے تاخیرکو لےکر وزارت داخلہ کو خط لکھا ہے کہ آخر ضوابط وضع کرنے کو لے کر اسٹیٹس کیا ہے۔ کل بھیجے گئے خط میں وزارت داخلہ کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر مزید وقت چاہئے تو کمیٹی کو اس کے بارے میں بتایا جائے۔ پارلیمانی مینوئل کے مطابق کسی قانون کے نفاذ کے لئے 6ماہ کے اندر رولس وضع کرنا ضروری ہیں اور اگر یہ مدت گزرجاتی ہے تو اس سلسلہ میں میعاد میں اضافہ کرانا پڑتا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون 11 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ سے بڑی اکثریت کے ساتھ پاس ہوا تھا اور 12 دسمبر کو صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کو یہ قانون دستخط کے لئے بھیج دیا گیا۔ تاہم 10 جنوری 2020 کو وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کرکے قانون کو ایکٹ بنادیا تھا اور ملک میں قانون نافذ ہوگیا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو 10جولائی تک رولس وضع کرلئے جانے چاہئے تھے۔ اب اس بات کے علاوہ وزارت داخلہ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ضوابط وضع کرنےکی میعاد بڑھانے کے لئے گزارش کریں۔

شہریت قانون پر تنازعہ شہریت قانون کے مطابق مسلمانوں  کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان کے اقلیت ہندو، سکھ، جین، پارسی، عیسائی اگر وہ ہندستا ن میں 31 دسمبر 2014 سے پہلے آچکے ہیں، ان کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔ تاہم اس قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگئے تھے، جن میں 70 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ ان احتجاجات کا سلسلہ کورونا وائرس کی مہاماری کی آمد کے بعد تھم گیا۔ تاہم آسام جیسی ریاست میں اس قانون کا سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ کیونکہ آسام اکورڈ اور شہریت قانون کا سیدھا ٹکراﺅ ہوتاہے۔ آسام اکورڈ کے مطابق مارچ 1971 سے پہلے جو لوگ ہندوستان میں آگئے تھے، ان کو ہندوستانی مانا جائے گا۔ اس اکورڈ کے مطابق آسام میں این آر سی کا عمل کیا گیا، جس میں 19 لاکھ افراد این آرسی سے باہر ہوگئے ہیں، جن میں 12 لاکھ ہندو ہیں۔ ایسے میں الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ باہر ہوچکے ان لوگوں کو شہریت قانون کے ذریعہ ہندوستانی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×