سیاسی و سماجی

بھارت ایک ہندو فاشسٹ اسٹیٹ بنتا جا رہا ہے

انگریزی مضمون: اروندھتی رائے

ترجمانی : محمد عفان منصورپوری

(ملک کے موجودہ حالات پر معروف سماجی کارکن اور بے باک قلم کار اروندھتی رائے نے انگریزی زبان میں ایک چشم کشاتحریر لکھی ھے جسے الجزیرہ اور عالمی میڈیا نے بڑے پیمانے پر نشر کیا ھے ، بزبان اردو اس تحریر کی ترجمانی پیش خدمت ھے )

گزشتہ چند مہینوں کے دوران ، وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ریاستوں میں خاص طور پر حکام نے ان گھروں، دکانوں اور کاروبار کی جگہوں کو بلڈوز کرنا شروع کر دیا ہے جن کا تعلق محض حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے کے شبہ میں مسلمانوں سے ہے ۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اپنی انتخابی مہم میں اس پالیسی کو فخریہ انداز میں پیش کیا ہے۔
میرے ذہن میں یہ اس لمحے کی نشان دہی کرتا ہے جب نقائص سے لبریز کمزور جمہوریت — کھلے عام اور ڈھٹائی سے — زبردست عوامی حمایت کے ساتھ ایک مجرم، ہندو فاشسٹ ادارے اور اسٹیٹ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اب ہم پر ایسے غنڈوں کی حکمرانی نظر آتی ہے جو ہندو بھگوان کے طور پر تیار کیے گئے ہیں ، ان کی کتاب میں مسلم عوام دشمن نمبر ایک ہیں۔
ماضی میں مسلمانوں کو قتل و غارت، لنچنگ، ٹارگٹ کلنگ، حراستی قتل، جعلی پولیس مقابلوں اور جھوٹے بہانوں سے قید کی سزائیں دی جاتی رھیں اب ان کے گھروں اور دوکانوں کو بلڈوز کرنا اس فہرست میں شامل ایک نیا اور انتہائی موثر ہتھیار ہے۔
جن طریقوں سے اس واقعہ کی اطلاع دی جا رہی ہے اور اس کے بارے میں لکھا جا رہا ہے اس سے بلڈوزر کو ایک طرح کی الہی اور انتقامی طاقت کے ساتھ جوڑنے کا تاثر دیا گیا ہے ، اپنے بڑے دھاتی پنجوں کے ساتھ یہ خطرناک مشین جسے "دشمن کو کچلنے” کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اسے شیطانوں کو مارنے والے ایک افسانوی خدا کے مکینیکل ورژن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔
۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے حالیہ دورہ ہندوستان کے دوران ایک بلڈوزر کے ساتھ کھڑے ھوکر فوٹو کھنچوایا تھا ، یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور وہ کس کی حمایت کر رہے ہیں ورنہ کوئی سربراہ مملکت ریاستی دورے کے دوران بلڈوزر کے ساتھ کھڑا ہونے جیسا عجیب و غریب کام کیوں کرے گا؟
اپنی طرف سے، سرکاری حکام کا اصرار ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہے ہیں اور محض غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی جائیدادوں کو منہدم کر رہے ہیں ؛ لیکن یہ استدلال کسی عقلمند کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ، در اصل اس کا مطلب مذاق اڑانا اور دہشت پھیلانا ہے ؛ کیونکہ حکام اوربیشتر ہندوستانی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر قصبے اور شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا نیم قانونی ، بغیر کسی نوٹس، اپیل یا سماعت کے موقع کے خالصتاً تعزیری وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں کو بلڈوز کرنے سے کئی چیزیں بیک وقت حاصل ہو جاتی ہیں۔
بلڈوزر کے دور سے پہلے مسلمانوں کو سرپھرے ہجوم اور پولیس کے ذریعے سزا دی جاتی تھی ، پولیس کا عملہ یا تو سزا دینے میں شریک ہوتا تھا یا پھر منہ موڑ ک کھڑے رھنے کا انتخاب کرتا تھا ۔
اب املاک کو بلڈوز کرنے میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ میونسپل حکام ، میڈیا — جو قتل کے تماشے کو وسعت دینے اور نشر کرنے کے لیے موجود رھتے ھیں — — اور عدالتیں بھی شامل ھورھی ھیں جو اس ظالمانہ کارروائی کی روک پر مداخلت نہیں کرنا چاھتیں ۔
اس کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ تم اپنے طور پر جو چاھو کرلو کوئی مدد نہیں آئے گی اور حد یہ ھے کہ آپ کی اپیل کی سماعت کے لئے کوئی عدالت تیار نہ ھوگی ۔
دوسری کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے حکومت مخالف مظاہرین کی املاک کو کبھی بھی اس طرح نشانہ نہیں بنایا جاتا ، مثال کے طور پر، 16 جون کو بی جے پی حکومت کی فوج میں بھرتی کی نئی پالیسی سے مشتعل دسیوں ہزار نوجوان پورے شمالی ہندوستان میں پرتشدد ہنگامے پر چلے گئے انہوں نے ٹرینوں اور گاڑیوں کو جلا دیا، سڑکیں بلاک کر دیں اور ایک قصبے میں انہوں نے بی جے پی کا دفتر بھی جلا دیا ؛ لیکن ان میں سے چونکہ اکثر مسلمان نہیں ہیں اسلئے ان کے گھر اور خاندان محفوظ رہیں گے۔
2014 اور 2019 کے دو عام انتخابات میں بی جے پی نے یہ دکھایا ہے کہ اسے قومی انتخابات میں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی 200 ملین مسلم آبادی کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے لہذا درحقیقت اس کو ہم ایک طرح سے حقِ رائے دہی سے محروم کرنے کی طرف اٹھنے والے ایک قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یقینا اس کے خطرناک نتائج ہوں گے ؛ کیونکہ ایک مرتبہ جب آپ حق رائے دہی سے محروم ہوجاتے ہیں تو آپ غیر ضروری ہو جائیں گے اور آپ کو بےجا زیادتی کا نشانہ بنایا جا ئیگا ، یہ وہی ہے جس کا اب ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ھے کہ بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے عوامی طور پر ہر اس شخصیت کی توہین کرنے کے بعد جو مسلمانوں کی نگاہ میں سب سے زیادہ مقدس ھے ، توھین کرنے والی کو اپنی حمایت سے محروم نہیں کیا اور نہ ہی اس کو پارٹی یا اسکے ذمے داران کی طرف سے معنی خیز تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ان گستاخیوں کے ردعمل میں مسلمانوں کی طرف سے نمایاں طور پر جو احتجاج کیا گیا وہ قابل فہم تھا پھر احتجاج کے بعد جو پولرائزیشن ہوا اس نے بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہی کیا ہے ، توہین کرنے والی بی جے پی کی ترجمان کو اگرچہ پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے، لیکن پارٹی کارکنان نے کھلے عام اسے گلے لگایا ہے اور اس کا سیاسی مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
آج ہندوستان میں ہم ایسے حالات دیکھ رھے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ محسوس ھوتا ھے کہ وہ ادارے جنہیں بنانے میں برسوں لگے وہ تباہی کے دہانے پر ھیں ، نوجوانوں کی ایک نئی نسل پوری طرح سے برین واش کرکے پروان چڑھ رھی ھے جس کا اپنے ملک کی تاریخ یا ثقافتی پیچیدگی سے کوئی تعلق نہیں ھے ، حکومت تقریباً 400 ٹی وی چینلز ان گنت ویب سائٹس اور اخبارات پر مشتمل میڈیا کی مدد سے – ہندو مسلم دونوں طرف نفرت پھیلانے والے کرداروں کی وجہ سے تعصب اور نفرت کا مسلسل ڈھول پیٹ رھی ہے۔
سوشل میڈیا پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کھلے عام پوسٹ کا سامنا کرنا معمول بن گیا ہے ۔
اس موقعہ پر ہم میں سے جو لوگ اس ماحول کے خلاف کھڑے ہیں خاص طور پر ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہم اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ جواب دینے کے لیے مشکل سوالات ہیں، کیوں کہ آج ہندوستان میں خود مزاحمت خواہ کتنی ہی پرامن ہو، دہشت گردی کی کارروائی کے مرادف ایک گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×