سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

بیت المقدس :پھر خاک وخوں میں غلطاں!!

طویل سازشی کارروائیوں اورپیہم منصوبہ بند کوششوں کے بعد ،عالمی سطح پرمسلسل مذمت و احتجاج کے باوجود بالاخر۱۴؍مئی ۱۸ء کو درجنوں فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکہ نے اپنا سفارت خانہ ،تل ابیب سے بیت المقدس (یروشلم)منتقل کردیا ؛جس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل میں امریکی سفیرڈیوڈ فریڈمین نے کہاکہ آج ہم بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کا افتتاح کر کے اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کررہے ہیں۔
امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کی مقدس سرزمین کو خون میں نہلادیا،آتش وآہن کی اس سفاکانہ کارروائی میں درجنوں فلسطینی باشندے شہیداورہزاروں زخمی ہوئے،جن میں معصوم بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
دنیا تماشائی بنی دیکھ رہی ہے کہ پچھلے آٹھ عشروں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پرظالمانہ وجابرانہ تسلط جماکراہل فلسطین پرکس طرح عرصۂ حیات تنگ کیاگیااور پوری دنیا سے دجالی پیروکاروں کو لالاکراسرائیل میں بساگیا، جس کاواحدمقصد شیطانی ریاست145 اسرائیل146 کا استحکام اوربدی کے نمائندے دجال اکبر کے خروج کی راہیں ہموار کرنا ہے ۔ اس دجالی اورطاغوتی لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے میں اگرکوئی چیز رکاوٹ ہے تو وہ مسلمانان قدس کا جذبہ ایمانی اورحمیت اسلامی؛جس کی حرارت وتپش سے آج بھی صہیونیت کے ایوانوں میں زلزلہ برپاہے ۔ اگرچہ یہودی جارحیت اوردہشت گردی کی منہ زوریلغارنے باشندگان فلسطین کوسخت ترین مشکلات وتکالیف سے دوچارکررکھاہے ،لیکن مصائب وآلام کے اس بھنور میں بھی فلسطینی مجاہدین استقامت وجواں مردی کاپہاڑبنے کھڑے ہیں۔ بلاشک وشبہ یہ سرفروش اورجانباز پوری امت مسلمہ کی طر ف سے فرض کفایہ کے طورپر،سرزمین انبیا کے تحفظ وسلامتی کی سنہری تاریخ، اپنے لہوکی سرخی سے رقم کررہے ہیں۔

القدس ایک تعارف :

بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی طویل ساحلی آبادی کوفلسطین کہاجاتاہے ۔تقریبا27 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین عرصۂدرازتک انبیاء و رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی ،اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں 147ایلیا148، عربی میں 147القدس148 اور اردو میں 147بیت المقدس148 کہا جاتا ہے ۔ یہ بحر روم سے 52 کلو میٹر ، بحر احمر سے 250 کلو میٹر اور بحر مردار سے 22 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ بحر روم سے اس کی اونچائی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 میٹر ہے ۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے ، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو 148سام بن نوح147 نے آکر آباد کیا، سب سے پہلے 1013 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔( خطط الشام )
اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائیوں اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا ہب اسلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک قابل احترام اور لائق تعظیم ہے ،اہل اسلام کے نزدیک اس لئے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول اور جائے معراج ہے ،عیسائیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ 147کنیسہ قیامہ 147ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علی نبینا و علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کیلئے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں اور بالآخر بطل جلیل سلطان حضرت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شرم ناک اور تباہ کن شکست سے دوچار ہوناپڑا۔ اور یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہیں پر کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں۔
اسی متبرک سرزمین کی با بت اس کے صحیح حقداروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان صدیوں سے ایک مستقل آویزش اورمسلسل کشمکش جاری ہے ،طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلۂ کار بنا کر اسلام کی مقدس ترین مسجد148 مسجد اقصی148 کو نذر آتش کیا؛جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ بتدریج اس مقدس سرزمین سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا جائے ۔

سرزمین فلسطین کا تاریخی منظرنامہ:

حضرت عمرؓ کے بعدسلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے مسلسل معرکوں کے ذریعہ اسے عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت تھا جو درمیان کے نوے برس کے عرصہ کے علاوہ حضرت عمرؓ کے دور سے مسلمانوں کے پاس ہی رہا ہے ، حتیٰ کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے دسمبر 1917ء میں اس پر قبضہ کر کے اس پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ اس سے قبل فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا، پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اس لیے جرمنی کی شکست کے ساتھ ہی خلافت عثمانیہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہوگئی تھی اور اس کشمکش میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا۔ 146146گاڈ فرے ڈی بولون145145 نامی انگریز کمشنر نے 10 دسمبر 1917ء کو فلسطین کا اقتدار سنبھالا اور 15 مئی 1948ء تک فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ رہا۔ خلافت عثمانیہ نے یہودیوں کو ویزے پر بیت المقدس آنے اور اپنے مقدس مقامات کی زیارت اور وہاں عبادت کی آزادی دے رکھی تھی مگر انہیں فلسطین میں زمین خریدنے ، کاروبار کرنے اور رہائش اختیار کرنے کا حق قانونی طور پر حاصل نہیں تھا۔ اس دوران یہودیوں نے عالمی سطح پر 146146صہیونیت145145 کے عنوان سے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ 145 صہیون146 بیت المقدس کا ایک پہاڑ ہے جو یہودیوں کے ہاں بہت متبرک سمجھا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس پہاڑی پر حضرت داؤد علیہ السلام کی عبادت گاہ تھی۔ اس پہاڑ کے تقدس کو عنوان بنا کر یہودیوں نے تحریک شروع کی جس میں فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دے کر اسے واپس لینے کا عزم کیا گیا تھا۔ صہیونی تحریکوں کے لیڈروں نے اس وقت کے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید دوم مرحوم سے درخواست کی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا حق دیا جائے ۔ سلطان نے اس سے انکار کر دیا، انہیں بیش بہا مالی مراعات کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول نہیں کیں۔ سلطان عبد الحمید دوم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ یہودی صرف فلسطین میں آباد ہونے کا حق نہیں مانگ رہے ؛ بلکہ اس کی آڑ میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں، اس لیے ان کی ملّی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ یہودیوں کو اس بات کا موقع فراہم کریں۔ اس وجہ سے سلطان عبد الحمید دوم یہودیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے اور ان کے خلاف وہ تحریک چلی جس کے نتیجے میں وہ خلافت سے محروم ہو کر نظر بندی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے اور اسی نظر بندی میں ان کا انتقال ہوا۔ اس موقع پر برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہیں اور موقع ملنے پر انہیں وہاں آباد ہونے کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں؛جسے اعلان بالفور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے عوض یہودیوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے مالی نقصانات کی تلافی کرنے کا وعدہ کا تھا اور ان مالی مفادات کے باعث برطانیہ اور اس کے ساتھی ممالک نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ جب فلسطین برطانیہ کے قبضے میں گیا تو وہ قانون منسوخ کر دیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے اور سکونت اختیار کرنے سے روکا گیا تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر سے یہودی وہاں آنا شروع ہوگئے اور فلسطین میں زمینیں اور مکانات خرید کر انہوں نے آباد ہونے کا آغاز کر دیا۔ اس موقع پر مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینیؒ نے فتویٰ جاری کیا کہ چونکہ یہودی بیت المقدس میں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے فلسطین کی زمین یہودیوں پر فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔ برصغیر کے اکابر علماء کرام نے بھی جن میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ شامل ہیں اس فتویٰ کی تائید کی۔ مگر اس فتویٰ کے باوجود فلسطین میں یہودیوں پر زمینوں اور مکانات کی فروخت نہیں رکی۔ صرف اتنا ہوا کہ زمینوں کی قیمتیں بڑھ گئیں اور یہودیوں نے جو دنیا کے مختلف ممالک سے وہاں مسلسل آرہے تھے دُگنی چوگنی قیمتوں پر فلسطین کا ایک بڑا حصہ خرید لیا۔ اس طرح اسرائیل بننے سے پہلے 1948ء کی اس خوفناک، خون آلود، دہشت گردی اور بربریت کی جنگ میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوئے ۔ خاندان تباہ ہوئے ، فلسطینی خانہ بدوش، مہاجر کمپوں کے رہائشی بنے ، بوڑھے ، بچے ، بیمار ناتواں پیدل سفر کی صعوبتوں سے جان کی بازی ہارگئے ۔ جو فلسطین کے پشتوں سے شہری تھے ان کو زبردستی ملک بدر کرکے غیر ملکوں کو ان کے گھروں میں لاکر بسایا جارہا تھا۔ 1948ء کی اس جنگ، اس حادثے اور اس کھلی ناانصافی کو یہودی اسرائیلی جنگ آزادی کا نام دیتے ہیں؛جو قتل و غارت گری ایک سال تک جاری رہی۔ یہودیوں نے برطانیہ کا مینڈیٹ ختم ہونے سے پہلے ہی ایک مسلح آرمی تیار کرلی تھی، یہ آرمی دہشت گردی، لوٹ مار، غنڈہ گردی کی ماہر تھی۔ اور اپنی کاررائیوں سے عام عرب شہریوں کو متوحش کر رہی تھی، اس آرمی نے فلسطینیوں کے سینکڑوں گاؤں خالی کرا کر دوسرے ممالک سے ترکِ وطن کرکے آنے والے یہودیوں کے حوالے کر دیئے تھے ۔ مئی 1948ء کے بعد اسرائیلیوں نے منظم سازش کے تحت بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے لئے قتل گاہیں سجائیں، ان میں سے بدترین قتل گاہ دیریا سین نے 9 اپریل 1948 میں اس جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے 78 فی صد علاقے پر قبضہ کرکے سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو ملک بدر کر دیا، یہ فسلطینی مہاجر لبنان، شام، اردن، ویسٹ بنک، غزہ، مراکش، تیونس، مصر اور دنیا کے کونے کونے میں جاکر پناہ گزیں ہوئے اور آج تک مہاجر ہیں۔ ان فلسطینی مہاجروں کو اپنے وطن میں واپس آنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ان ستم رسیدہ فلسطینیوں کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اسرائیل نے بین الاقوامی نظروں کے سامنے سفاکی کے ساتھ فلسطینیوں کو اپنی دھرتی سے زبردستی ملک بدر کردیااوربین الاقوامی ضمیر سویا رہا یا مصلحتِ وقت کی بنا پر خاموش رہا۔ ادھر یہودی فلسطینیوں کی جائیداد، گھروں، باغات، فصل سے لدے ہوئے کھیتوں اور زمینوں کے راتوں رات مالک بن گئے ۔ اسرائیل میں ایمرجنسی قوانین نافذ کر دیئے گئے جو آج تک لاگو ہیں۔
الغرض:1918ء سے 1948ء تک برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کی آمد اور آبادی کی سرپرستی کرکے 146146اعلان بالفور145145 کے ذریعہ کیا گیا وعدہ پورا کیا اور جب دیکھا کہ فلسطین کا ایک بڑا حصہ یہودی خرید چکے ہیں تو 15 مئی 1948ء کو فلسطین کا علاقہ یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا اعلان کر کے برطانیہ وہاں سے چلا گیا۔ اس کے بعد فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان جنگوں اور جھڑپوں کا وسیع سلسلہ چل نکلا(جس کی ایک جھلک اوپر دکھلائی گئی)۔ یہودیوں نے اپنے لیے برطانیہ کی طرف سے مخصوص کردہ علاقے میں اسرائیل کے نام سے نئی سلطنت قائم کرنے کا اعلان کر دیا جسے امریکہ اور روس سمیت عالمی طاقتوں نے تسلیم کر لیا اور اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حد بندی کر کے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ اس کشمکش میں یہودیوں نے اچھے خاصے علاقے پر قبضہ کیا مگر بیت المقدس کا مشرقی حصہ جس میں بیت المقدس کا مقدس احاطہ ہے ، اردن کے پاس رہا اور اس پر اس کا انتظامی حق تسلیم کر لیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے (مصر، شام اور اردن کے دیگر علاقوں کے ساتھ)یروشلم کے مشرقی حصے اور مسجد اقصیٰ پر بھی قبضہ کر لیا اور اس وقت سے یہ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے ، اسرائیل نے اس دوران مسلسل کوشش کی ہے کہ بیت المقدس پر اس کے قبضے کو جائز تسلیم کیا جائے اور یروشلم کو غیر متنازعہ شہر قرار دے کر اسرائیل میں شامل قرار دیا جائے ؛ لیکن عالمی رائے عامہ اس کے اس موقف کو قبول نہیں کر رہی۔ 1995ء میں جب اسرائیل نے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 5دسمبر 1995ء کو بھاری اکثریت کے ساتھ قرار داد منظور کر کے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا اور واضح طور پر کہا کہ یروشلم کی حیثیت ایک متنازعہ شہر کی ہے اور باقاعدہ فیصلہ ہونے تک یہ متنازعہ شہر ہی رہے گا۔

آخری بات:

موجودہ جاں بہ لب حالات، اسلامی برادری اور ملی قیادت کے لیے ایک زبردست چیلنج ہیں ،ایسے میں عالم اسلام کا اولین فریضہ ہے کہ وہ تمام منصف مزاج قائدین کیساتھ متحد ہ محاذبناکر اسرائیل سے نبردآزماہواور اسے فلسطین پر غاصبانہ قبضوں سے بازرکھنے کی ہرممکن کوشش کرے،محض مذمتی بیانات ،وقتی قراردادیں اور میڈیائی چہل پہل مسئلہ کے حل تک پہونچنے کے لیے ہرگزکافی نہیں ،علاوہ ازیں اسلامی دنیا کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اگرمادی اعتبار سے کسی درجہ سودمند ہو سو ، لیکن نقصان وخسران کا خطرہ دائمی ہے؛ کیوں کہ یہودیوں کی سرشت میں بدعہدی اور حسد شامل ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے ہمیشہ اپنے وعدوں سے انحراف کیا اور پھر امت مسلمہ کواس کا خمیازہ بھگتناپڑا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×