اسلامیات

ماہ ذی الحجہ کے فضائل

ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ خصوصی فضیلت کا حامل ہے، اللہ رب العزت نے سورہ فجر میں کئی چیزوں کی قسم اٹھائی جن میں سے ایک ’’فجر‘‘ ہے، سیدنا ابن عباس، مجاہد اور عکرمہ فرماتے ہیں کہ اس فجر سے مراد دس ذوالحجہ کی فجر ہے۔ دوسری چیز جس کی قسم اٹھائی گئی وہ ’’ولیالٍ عشر‘‘ ہے جس کے بارے میں خود رسول اللہؐ نے فرمایا: ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔
ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ دس راتیں وہی ہیں جن کا موسیٰؑ کے قصے میں ذکر ہے، کیوں کہ یہی دس راتیں سال کے ایام میں افضل ہیں۔
امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ مذکورہ حدیث سے ذْی الحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونا معلوم ہوا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰؑ کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔
جابرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: دنیا کے دنوں میں سب سے افضل ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے دن ہیں۔ (کشف الاستار)
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب ہو اور پسندیدہ ہو‘‘، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے‘‘۔ (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے)۔
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذی الحجہ کے) دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کر عظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں لہٰذا ان میں ’’لاالہ الا اللہ ،اللہ اکبر، الحمد للہ‘‘ کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد، بیہقی)
ان مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلْقات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر، تسبیح وتلاوت، صدقہ، خیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہیے اور روزوں کا بھی جہاں تک ہو سکے، اہتمام کرنا چاہیے۔
9 ذی الحجہ اور اس کے روزہ کے فضائل ومسائل
9 ذی الحجہ کا دن مبارک دن ہے، اس دن میں حج کا سب سے بڑا رکن ’’وقوف عرفہ‘‘ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا: اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
اللہ رب العزت نے قرآن میں ’’مشھود‘‘ کا لفظ فرما کر عرفہ کے دن کی قسم اٹھائی۔ (معارف القران للکاندھلوی:8/421)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: تمام دنوں میں سب سے افضل دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن ہے، اور یہ دن ’’شاہد‘‘ ہے اور ’’مشہود‘‘ عرفہ کا دن ہے اور ’’یوم موعود‘‘ قیامت کا دن ہے۔
عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: (عرفہ کے دن کے مقابلے میں) کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، حق تعالیٰ شانہ (عرفات میں وقوف کرنے والوں سے خصوصی رحمت کے ساتھ) قریب ہوتے ہیں پھر فخر کے طور پر فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟ (مسلم)
مسروق ؒسے روایت ہے کہ عائشہؓ نے فرمایا کہ آپؐ نے فرمایا: سال بھر میں مجھے کوئی روزہ عرفہ کے دن سے زیادہ محبوب نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
اس حدیث میں 9 ذی الحجہ کے دن کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ایک روایت میں ابوقتادہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ سے عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا، رسول اللہؐ نے فرمایا: (9 ذی الحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (مسلم ،مسند احمد)
9 ذی الحجہ کے مسائل
٭عرفہ کے دن کی فضیلت ہر شخص کو اس ملک کی تاریخ کے اعتبار سے حاصل ہوگی جس ملک میں وہ شخص موجود ہے۔ جیسا کہ عیدالاضحی ہر شخص اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے کرے گا اسی طرح عرفہ بھی عیدالاضحی سے ایک دن پہلے شمار ہوگا۔
٭بعض لوگ عرفہ کے دن کسی ایک مقام پر اکٹھے اور جمع ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع کی مشابہت کرتے ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
٭عشرئہ ذی الحجہ اور نو ذی الحجہ کے روزوں کے مسائل دوسرے نفل روزوں کی طرح ہیں۔
عشرہ ذی الحجہ میں بال اور ناخن کا حکم
ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو، اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو وہ تو جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (ترمذی، مسلم، ابوداؤد)
٭بال ناخن نہ کاٹنے کا حکم قربانی والے کے لیے ہے۔
٭یہ مستحب ہے فرض واجب نہیں، لہٰذا کوئی اس کی رعایت نہ کر سکا تو بھی گنہگار نہ ہوگا۔
٭عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
٭اگر زیرناف بالوں اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو یہ حکم نہیں، صفائی ضروری ہے۔
تکبیر تشریق
٭ 9 ذی الحجہ کی فجر سے لے کر 13 ذی الحجہ کی عصر تک پانچ دنوں میں تکبیر تشریق کی خاص تاکید اور فضیلت ہے۔
فقہا کے نزدیک تکبیر تشریق 9ذی الحجہ کی فجر سے لے کر 13 ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
تکبیر تشریق کے مسائل
٭یہ تکبیر ہر فرض اور جمعہ کی نماز کے بعد مرد وعورت، مقیم ومسافر، حاجی وغیرحاجی، تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے والے ہر ایک پر واجب ہے، اور مسبوق ولاحق مقتدی پر بقیہ نماز سے فراغت پر تکبیر کہنا واجب ہے۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عید الاضحی کی نماز کے بعد بھی تکبیرِ تشریق پڑھی جائے۔
٭یہ تکبیر مرد درمیانی آواز سے اور عورت آہستہ پڑھے۔ بہت سی خواتین اور مرد حضرات یہ تکبیر نہیں پڑھتے، حالانکہ اس کا پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح بعض مرد حضرات آہستہ یا بہت بلند آواز سے پڑھتے ہیں، یہ دونوں باتیں قابل اصلاح ہیں۔
٭فرض نماز کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد یہ تکبیر پڑھنی چاہیے۔
٭سلام کے فوراً بعد اگر کوئی یہ تکبیر پڑھنا بھول جائے تو اگر نماز کے خلاف کوئی کام مثلاً بات چیت نہیں کی اور یاد آگیا تو تکبیر کہہ دینی چاہیے۔
٭ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز اسی سال ایام تشریق کے اندرہی قضا کرے تو اس نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہنا واجب ہے، البتہ اگر ایام تشریق سے پہلے کی کوئی نماز ان دنوں میں ادا کرے یا ایام تشریق کی فوت شدہ نماز ان دنوں کے گزر جانے بعد قضاءکرے تو پھر تکبیر نہ کہے۔
٭اگر کسی نماز کے بعد امام یہ تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ فوراً خود تکبیر کہہ دیں امام کے تکبیر کہنے کا انتظار نہ کریں۔
٭ہر فرض نماز کے بعد صرف ایک مرتبہ کہنے کا حکم ہے اور صحیح قول کے مطابق ایک سے زیادہ مرتبہ کہنا سنت کے خلاف ہے۔
٭بقر عید کی نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہہ لینی چاہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×