سیاسی و سماجی

یوم عاشقاں اور اسلام

14/فروری کو پوری دنیا میں کیامسلمان کیا غیر مسلم سب کے سب اظہار محبت کا دن مناتے ہیں اس کا آغاز وابتدا کہاں سے ہوئی کیوں ہوئی کیا وجوہات کارفرما تھیں اور کس کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے ان سب سوالات میں پڑے بغیر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس رسم بد کے جو انتہائی ذلیل ترین نتائج اور نسل نو میں اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہورہے ہیں وہ ہم سب کے آنکھوں دیکھے ہیں۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جو ہدایات واحکامات دیئے ہیں وہ سراپا عزت حیاء اور پاک دامنی پر مبنی ہیں، ہم مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے اس بری رسم سے حتی الامکان احتراز کرنے اور اپنی اولاد کو اس سے دور رکھنے کی انتہائی سخت ضرورت ہے
یوم عاشقاں کو بعض اسکولوں اور کالجوں میں بطور پروگرام اور فنکشن منایا جاتا ہے جہاں بچوں اور بچیوں کو کھلم کھلا ایک دوسرے سے اظہار محبت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور یہ بچے بھی پوری جرأت وبے باکی کے ساتھ اس بے حیائی میں مبتلا ہوتے اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ الامان الحفیظ
حالانکہ مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ایک صاف ستھرے مذہب کے پیروکار اور ماننے والے ہیں ان کے مذہب کی تعلیمات میں محبت اور دوستی جائز تو ہے مگر یکسر اور کلیۃ نہیں بلکہ اس کے حدود قائم کیے گئے ہیں۔ یوم عاشقاں (ویلنٹین ڈے ) ایک بے حیائی والی رسم ہے جس سے ہر مسلمان بچے اور بچیوں کو اجتناب کرنا ناگزیر ہے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں حیا کا کیا مرتبہ ہے اس کو کتنی اہمیت دے کر بیان کیا گیا ہے۔
قرآن مجید اور ذخیرہ احادیث کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ حیاء ہی مبداء ایمان اور کمال اسلام ہے ایک حدیث پاک میں ایمان کی شاخوں اور شعبوں کو بیان کرتے ہوے فرمایا گیا کہ
الحیاء شعبۃ من الایمان حیاء ایمان کی شاخوں میں ایک اہم ترین شاخ ہے اس روایت میں ایمان کے اعلی وادنی شاخوں کو بیان کرنے کے بعد پوری خصوصیت واہتمام سے حیاء کو الگ سے بیان کیا گیا۔
شارحین حدیث نے لکھا ہیکہ حیا پہلے ایمان کا مبداء بنتی ہے اور ایمان لانے کے بعد پھراسے تقویت ملتی ہے کہ اگر انسان اللہ تعالی کے بے حد وحساب نعمتوں کے عرفان وایقان کے باوجود ایمان نہیں لاتا ہے تو یہ اس انسان کی سب سے بڑی بے حیائی ہے اور ایمان لانے کے بعد مومن کو حیاء سے تقویت اس طور پر ملتی ہیکہ وہ اللہ پاک کی ان گنت نعمتوں کا شکریہ ادا کرتاہے جو محض اس کی حیاء ہی کا نتیجہ ہوتا ہے
یقینا حیاء سے ہی تمام شعبوں کو زندگی ملتی ہے حیاء ہی اسلام کے تمام احکامات کو بجا لانے کا ذریعہ اور سبب بنتی ہے اگر حیاء ہوگی تو ہی انسان گناہوں سے بچے گا اسے یہ فکر دامن گیر ہوتی ہیکہ کل اللہ پاک کو میں کیا منہ دکھاؤں گا اس لیے وہ عصیان و نافرمانیوں سے بچتا ہے اور جب انسان سے حیاء ہی ختم ہوجاتی ہے تو وہ خیال کرتا ہیکہ کوئی کر کیا کرلے گا۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت جب تمہارے اندر حیاء ہی نہیں ہے تو جو چاہو کرو، مثل مشہور ہیکہ بے حیاباش ہرچہ خواہی کن اس لیے بطور خاص ہمیں اپنے بچوں کی دنیوی تعلیم گاہوں اور ماحول کے اثرات سے بچانے کی بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے
اللہ پاک عالم کے تمام ہی مسلمانوں کو شعور والی عقل اور فہم والا دماغ نصیب فرمائے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×