اسلامیات

رمضان میں ملی روحانی سوغات کی قدر کریں

رمضان المبارک کا عظیم مہینہ اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کر نے اور مغفرت کو یقینی بنانے کا ہے ،قدرت کی جانب سےماحول ہی کچھ ایسا سازگار ملتا ہے جس میں ترک معصیت کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے، اوامر پر عمل کرنے کا حوصلہ بھی مل جاتا ہے عامی مسلمان بھی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ برکات رمضان سے کچھ مستفید ہو جائے، ہر قدر داں کو رمضان میں کی گئی اپنی بساط بھر عبادتوں، ریاضتوں کا فائدہ حاصل ہو جاتا ہے، دل نرم پڑجاتے ہیں , معصیت سے قدرے نفرت ہونے لگتی ہے ،اعمال صالحہ کو ترک کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ،ما بعد رمضان اپنی زندگی کو منظم و مرتب کرنے کا ارادہونےلگتا ہے، روزے کی برکت سے فاقہ مستوں کے درد کا احساس ہوتا ہے، خیر خیرات سے حب مال پر ایک ضرب لگتی ہے، نمازوں کی فکر پیدا ہو جاتی ہے لا یعنی اقوال افعال سےبچنے کی ہمت بن جاتی ہے لیکن ان سب کے باوجود بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جن کے ارادوں ،عزائم میں پختگی باقی رہتی ہے وہ کسر ہمت کے شکار نہیں ہوتے ،وہ رمضان میں ملنے والی سوغات کی پوری سال حفاظت کرتے ہیں اور یہ قبولیت عمل کی علامت بھی ہے، بزرگوں کا فرمان ہے کہ جن کو اعمال پر مداوامت اور استقامت کی دولت مل جائےاور اس عمل سے دوسرے عمل کے کرنے کا شوق پیدا ہو تو یہ پہلے والے عمل کی قبول ہونے کی علامت ہے،کئی احادیث میں مداومت اور استقامت اعمال کی ترغیب اور عند اللہ اس عمل کے محبوب ہونے کی بات بتلائی گئی سورہ کھف کی آخری آیت میں ہر اس بندے کو مخاطب بنا کر تاکید کی گئی ہے جو کہ لقاء رب کا خواہش مند ہے کہ اگر تم کو اپنے رب سے ملنے کی آرزو تمنا ہے تو پھر اعمال صالحہ کا سلسلہ جاری رکھو اور اس عمل کو اخلاص کے ساتھ مزین بھی کرو کیونکہ نیکی میں عدم اخلاص بطلان عمل کا ذریعہ ہو جاتی ہے جب کہ نیکی کرنے والے کا خیال رہتا ہے کہ اس نے بہت کچھ نیکی کمائی ہے حالانکہ وہ اس کا خیال محض ہوتا ہےوھم یحسبون انھم یحسنون صنعا-
دوسری ایک اہم بات بھی پیش نظر ہونا چاہیے کہ نیکی کا کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ نیکی کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا ہے، بہت سے خوش نصیب مگر قابل ترس وہ لوگ ہوتے ہیں جو بڑے جذبے کے ساتھ ثواب کے کام کرتے ہیں، پہاڑوں جیسا اجر جمع کرتے ہیں پھر کچھ ایسی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جس سے یہ نیکیوں کا پہاڑھباءامنثورا ہو کر رہ جاتا ہے بندے کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا-
ہم اپنے مالک حقیقی کے غلام ہیں تادم حیات اس کی مرضیات پر چلنا اس کی رضا کی جستجو میں لگے رہنا،اس کے مواخذے سے ڈرتے رہنا، یہ حقیقی غلامی کے تقاضےاور حیات مستعار کا مقصد ہے، جس رب کو ہم نے رمضان میں تلاش کیا اس کو خوش کرنے کے لیے مشقتیں برداشت کیں،اس کے روبرو اپنے بندے ہونے کا ثبوت دیا، اب رمضان کے بعد بھی یہ احساس تازہ رہنا چاہیے کہ وہی رب سال کے اور مہینوں میں بھی زندہ ہے، ہمارے اعمال و اقوال پر نظر رکھے ہوئے ہے-
لہذا جس کسی کو اللہ تعالی کی توفیق سے اس رمضان میں نیک اعمال کرنے کا موقع ملا اور تقوی کا جو مزاج بنا یہ خدا تعالی کی طرف سے سوغات سمجھ کرعزم کرنا چاہیے ہے کہ ہم اس سوغات کی قدر کریں گے اور اس کی قدر یہ ہے کہ رمضان کے بعد بھی وہی منظم و مرتب زندگی گزاریں گے جو رمضان میں اور خصوصا اخیر عشرے میں گزار رہے تھے اوراس بات کی بھی پوری کوشش کریں گے کہ ہماری ذات سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوجس سے ہمارے اعمال کا اجر اکارت اور تقوی والی کیفیت مضمحل کمزور پڑ جائے-
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کی ناقص عبادتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے،تقصیرات سے صرف نظر فرمائے، رمضان کے بعد بھی اپنی مرضیات پر چلنے کا حوصلہ عطا فرمائےآمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×