اسٹاک ہوم:22؍جنوری (ذرائع) سویڈش حکام کی جانب سے اسلام مخالف مظاہروں کی اجازت دینے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے رہنما راسمس پالوڈن نے اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے باہر اسلام پر شدید تنقید اور قرآن پاک کو نذر آتش کیا۔ ترکیہ کی خلاف مظاہرے سے انقرہ میں ترک حکومت شدید ناراض تھی جس کی وجہ سے ترک وزیر دفاع نے یہ اعلان کیا کہ سویڈش وزیر دفاع کا اگلے ہفتے کے لیے طے شدہ دورہ ترکیہ منسوخ کر دیا ہے۔ ترکیہ کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے کہا کہ اس ملاقات کی اب کوئی اہمیت نہیں اس لیے ہم نے اس دورے کو منسوخ کردیا۔ترک سفارت خانے کے باہر انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان راسمس پالوڈن نے اسلام پر شدید تنقید اور گالم گلوچ کرنے کے بعد قرآن پاک کو نذر آتش کیا، انہوں نے مظاہرین سے کہا کہ اگر آپ نہیں سمجھتے کہ آزادی اظہار رائے ہونا چاہیے تو آپ کو کہیں اور رہنا چاہیے۔ گزشتہ سال اپریل میں، پالوڈن کی جانب سے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران قرآن جلانے کے اعلان نے سویڈن میں فسادات کو جنم دیا تھا۔سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں توہین مذہب کی اجازت دینے پر ترکیہ نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سویڈن کے سفیر کو طلب کر لیا۔ سفیر اسٹافن ہیرسٹروم کو بتایا گیا کہ ترکیہ اس اشتعال انگیز عمل کی شدید مذمت کرتا ہے، جو کہ ہیٹ اسپیچ تقریر کے مترادف ہے، اور اسٹاک ہوم کا مؤقف ناقابل قبول ہے۔ ترکیہ کی حکومت نے کہا کہ سزا یافتہ نسل پرست راسمس پالوڈن مسلم مخالف جذبات رکھتا ہے، اور انقرہ اشتعال انگیز عمل کی مذمت کرتا ہے، جو واضح نفرت انگیز جرم ہے۔ترکیہ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی اجازت دینے پر سویڈن کا رویہ ناقابل قبول ہے، توقع ہے کہ سویڈن حکومت ایسے اقدامات کو روکے گی اور اجازت واپس لے گی۔ ترکیہ حکومت کا مؤقف تھا کہ جمہوری حقوق کی آڑ میں مقدس اقدار کی توہین کا دفاع نہیں کیا جا سکتا، واضح رہے کہ ترکیہ اور سویڈن کے درمیان نیٹو میں شمولیت سے متعلق اختلافات چل رہے ہیں۔اس کے علاوہ ترک وزارت خارجہ نے فوری طور پر ایک بیان میں کہا، ہم اپنی مقدس کتاب پر ہونے والے گھناؤنے حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں اس اسلام مخالف عمل کی اجازت دینا، جو مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہو اور ہماری مقدس اقدار کی توہین کرتا ہو، مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے کردوں کے احتجاج پر پابندی لگانے میں سویڈش حکام کی ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نسل پرستانہ کارروائی ہے، یہ آزادی اظہار کے بارے میں نہیں ہے۔پاکستان، سعودی عرب، اردن اور کویت سمیت کئی عرب ممالک نے بھی سویڈن میں قرآن کریم جلانے کی مذمت کی۔ سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب بات چیت، رواداری اور بقائے باہمی کی اقدار کو پھیلانے کا مطالبہ کرتا ہے اور نفرت اور انتہا پسندی کو مسترد کرتا ہے۔ پاکستان نے سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے دنیا بھر کی 1.5 بلین مسلم کمیونٹی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلامو فوبیا کا یہ ایک بے ہودہ اور اشتعال انگیز عمل دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔وزارت نے کہا کہ اس طرح کے عمل کو آزادی اظہار کے حق کے تحت نہیں لایا جا سکتا۔ آزادی اظہار میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی ذمہ داریاں شامل ہیں، جن میں نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے والی کارروائیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔وزارت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامو فوبیا، زینو فوبیا، عدم برداشت اور مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد پر اکسانے کے خلاف عہد کریں اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کریں۔اس کے علاوہ پاکستان نے اپنے تحفظات کو لیکر سویڈن میں حکام کو آگاہ کیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھے اور اسلامو فوبک کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔سویڈن کے وزیر خارجہ توبیان بل اسٹروم نے بھی راسمس پالوڈن کے احتجاج پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا پر مبنی اشتعال انگیزی خوفناک ہے، سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سویڈن کی حکومت یا میں ذاتی طور پر اس اظہار کی حمایت کروں۔دارصل سویڈن کے شہروں میں کردوں کی حمایت میں ترکیہ کے خلاف احتجاج جاری ہے جس سے ترکیہ ناراض ہے۔ مظاہرین نے کردستان ورکرز پارٹی، یا PKK سمیت مختلف کرد گروپوں کے جھنڈے لہرائے، جس گروپوں نے ترکیہ کے خلاف دہائیوں سے بغاوت کر رکھی ہے۔ PKK کو ترکیہ، یورپی یونین اور امریکہ میں ایک دہشت گرد گروپ سمجھا جاتا ہے، لیکن سویڈن میں اس کی علامتوں پر پابندی نہیں ہے۔ جبکہ سویڈن کو نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے ترکیہ کی حمایت کی ضرورت ہے۔ ترکیہ کا موقف ہے کہ سویڈن کرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے کافی اقدام نہیں کر رہا ہے جنہیں انقرہ دہشت گرد کے طور پر دیکھتا ہے۔