سیاسی و سماجی

انسانی دنیا ذہنی پریشانی کا شکار کیوں؟

ہر طرف یاس و قنوطیت نے ڈیرا ڈال دیا ہے،جسے دیکھو ذہنی اضطراب کا شکار ہے،ہر ایک کی زبان گردش دوراں کے ناموافق حالات کا شکوہ کر رہی ہے۔۔خدا گواہ ہے ایک مسلم فرد ہونے کے ناطے تقدیر کی نیرنگی کا شکوہ بالکل نہیں؛رب کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرنا،ناموافق حالات پر صبر کرنا،کٹھن راہوں کو کشادہ قلبی سے عبور کرنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔۔۔۔
لیکن موجودہ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتے ہوئے خارجی حالات میں ذہنی سکون بالکل ختم ہوہوئےہر شخص ڈیپریشن کا شکار ہے،دماغی توازن برقرار نہیں رہا۔اب نہ کھانے میں لطف آتا ہے نہ ٹہلنے میں۔۔اب نہ کسی سے بات کرنے کو دل چاہتا ہے اور نہ وصال یار کے لیے دل تڑپتا ہے،سینے سے اٹھنے والی ہوک سکون چاہتی ہے،اسے نہ ہجر کا غم ہے نہ وصال کا اشتیاق ،قلمی نگارشات سے دلچسپی باقی رہی نہ متنوع مقالات کا مطالعہ ذہنی ہیجان کو کم کرنے کا آلہ ثابت ہوسکا۔۔۔اسے فقط سکون کی تلاش ہے،وہ انسانوں کے رش سے آزاد ہوکر کہیں دور چلا جانا چاہتا ہے،محروم القسمت ہیں وہ لوگ جو سکون کی تلاش میں خود کشی کرتے ہیں۔۔جسم کو آزادی دلاکر روح کو جہنم میں پھینک دیتے ہیں۔۔
معلوم ہونا چاہئیے کہ سکون دولت و ثروت اور شہرت و پبلسٹی میں نہیں۔سکون چاند کا تعاقب کرنے اور رفعتوں کو رام کرنے میں نہیں۔۔سکون نہ پہاڑوں میں گھر بنانے سے ملتا ہے اور نہ ساحل سمندر پر ڈیرا ڈالنے سے۔۔۔۔۔اگر انسان اپنی اصل حقیقت سے مفرور ہوگیا۔۔اگر اس نے خالق کائنات سے رشتہ کاٹ کر اضافی طور پر سکون تلاش کیا۔۔اگر وہ توحیدی تصور کو خیرباد کہہ کر مختلف آستانوں پر جبینیں رگڑنے پہونچا تو سکون نصیب نہیں ہوگا۔۔
آبشاریں اور جھرنے،سمندروں کا تلاطم اور سرسبز باغات کی دلآویزی،دیوار چین کا طواف اور یورپ کی پرفسوں راتیں، پہاڑوں کے خیمے اور دشت و بیابان کی صحرانوردی اور ان جیسی دیگر تمام فطری نیرنگیاں وقتی اور ہنگامی فائدہ تو پہونچاسکتی ہیں؛لیکن کوئی دیرپا فائدہ برآمد نہیں ہوسکتا۔۔
ان نظاروں سے جسم تو سکون پاتا ہے؛لیکن روح آب آب کی صدا لگاتی ہے،روح اپنی تباہی پر ہرلمحہ تڑپتی ہے،روح کی ویرانی سارا سکون ختم کردیتی ہے۔۔پھر نہ دولت کام آتی ہے نہ شہرت،سارے معیارات زمین بوس ہوجاتے ہیں۔۔۔
تڑپتے ضمیر کو اگر کوئی چیز سکون دے سکتی ہے،یا روح کی سیرابی کا باعث بن سکتی ہے ،مضطرب قلب و جگر کو جھنجوڑ سکتی ہے یا مردہ ضمیر کی مسیحائی کرسکتی ہے تو وہ فقط اللہ رب العالمین کا ذکر ہے،اب نہ پہاڑوں کا سفر تھکی ماندہ زندگی کو تازہ دم کرسکتا ہے اور نہ یاروں کی محفل خزاں آشنا زندگی میں رنگ و نور بکھیر سکتی ہے۔۔۔
آنسو کاایک قطرہ، عاجزی کا ایک سجدہ،بے بسی کی ایک آہ اور خشیت و انابت کی ایک فریاد ہے جو کھویا سکون واپس لاسکتی ہے،خوابیدہ قلوب کو بیدار کرسکتی ہے۔۔۔زندگی کو نئے سرے سے اپنے مرکز کی طرف پھیر سکتی ہے۔۔مسلسل ذکر اللہ اور پیہم عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ دولت ایک ناقابل ذکر اور حد درجہ کم تر انسان رازی و غزالی،رومی و سعدی،شبلی و تبریزی اور مجدد الف ثانی کے مقام پر بھی پہونچ سکتا ہے۔۔۔
اللہ سے محبت کیے بغیر ترقی کی ہرخواہش ۔نئی منزل کی ہر جستجو،نشاط افزا زندگی کے لیے اٹھنے والا ہر قدم کھائی میں دھکیلتا ہے،دلدل میں پھنساتا ہے اور عزت کے کفن کو نوچ لیتا ہے۔۔۔۔
پیاسی روحوں کے لیے صرف ایک جام ہے جو سکون کی معراج تک پہونچائے گا۔۔۔صرف خداوند سے ربط ایسا اکسیر گر ہتھیار ہے جس سے مردہ ضمیروں کی مسیحائی کی جاتی ہے۔۔۔ساری ٹیکنالوجی اور فطری نیرنگیاں ایک طرف اور ذکر اللہ تن تنہا دوسری طرف۔۔۔ایک آنسو جو مقدر بدل دیتا ہے۔۔۔پانی کا ایک قطرہ جو خشک روح کو سیراب کرتا ہے۔۔۔۔
رب تعالی کے در سے ہٹ کر کہیں سکون ہے نہ آرام۔۔روح کی اذیت اور اندر کی بےچینی کو صرف خداوند دور کرسکتا ہے۔۔۔ اس چوکھٹ کے علاوہ سب ڈھونگ ہے۔۔۔اس در کا بھکاری قسمت کا سکندر ہے۔۔
بقیہ تمام ایجادات و اختراعات اور معبودانہ باطلہ کے چمکتے ہوئے اجسام سحرسامری کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں۔۔جو وقتی نشاط دیگر ہمیشہ کی روحانی کیفیت سلب کرلیتے ہیں ۔۔۔۔سکون تو فطرت پر زندگی گزارنے میں ہے۔۔سکون تو رب سے رشتہ جوڑنے میں ہے ۔۔سکون تو کالی کملی والے کے آستانے پر ہے۔۔۔
رفعتوں کی جستجو میں ٹھوکریں تو کھاچکے
آستان یار پر اب سرجھکا کر دیکھئے!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×