ریاست و ملک

شعبہ خواتین، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کادوسرا بنت المسلم ورکشاپ

13/ فروری (عصر حاضر)شعبہ خواتین آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے 6 ؍فروری سے 14 ؍فروری 2021 تک حیا ویک بطور اصلاح معاشرہ مہم کے انعقاد کیا ، حیا و پاکدامنی کی اس مہم میں بچیوں کے لیے مقابلے رکھے گئے، جیسے حیا ڈریس مقابلہ، مقولہ لکھنے کا مقابلہ میری حجاب کہانی، اردو اور انگریزی زبان میں مسابقہ برائے نظم بعنوان حیا، اور سلوگن مقابلہ۔

ہندوستان کے مختلف صوبے جیسے اترپردیش، مدھیہ پردیش، دہلی، ویسٹ بنگال، کرناٹک، بہار، آسام، تلنگانہ، مہاراشٹر، منی پور، راجستھان، تامل ناڈو، کیرالا کی بچیوں نے ان مسابقوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بنت المسلم نوجوان بچیوں نے حیا ویک میں مختلف پروگرامز میں حصہ لیا، تقاریر کے ساتھ ساتھ بچیوں کے اشکالات رفع کرنے کے لیے ایک نشست، سوال و جواب کا ایک خصوصی پروگرام، بیت بازی مقابلہ، ویلنٹائن ڈے اور سرمایہ داری پر منعقد کیا گیا۔
مہم کے اختتام پر دوسرا دو روزہ بنت المسلم ورکشاپ بعنوان حیا کا انعقاد کیا جارہا ہے، جو زوم اور یوٹیوب پر 13 اور 14 فروری 2021 کو ہوگا۔ نوجوان بچوں اور بچیوں کے لیے ایک خصوصی نشست موجودہ سنگین حالات میں نوجوانوں کا کردار کے عنوان پر 13 فروری 2021 کو صبح 11 بجے بروز سنیچر منعقد کی گئی۔ اس نشست میں تقریر کرنے والے یہ نامور حضرات تھے؛ مولانا ابو طالب رحمانی صاحب، کولکتہ، ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، برادر سید اصرار علی اسحاق، بانی اسکائی ایجوکیشن ممبئی، جناب ناظم الدین فاروقی صاحب، مضمون نگار و سوشل ایکٹوسٹ حیدرآباد۔
شعبہ خواتین کی اہم اراکین مثلا محترمہ فاطمہ مظفر صاحبہ چنائی، محترمہ ڈاکٹر عرشین خان صاحبہ دھولیہ، محترمہ ام احمد صاحبہ بنگلور، محترمہ حوا متین صاحبہ کولکتہ، محترمہ عمیمہ فہد مرادآباد، محترمہ منیرہ گیگانی ممبئی، محترمہ صالحہ رضوان صاحبہ بھوپال، محترمہ یاسمین عنبر صاحبہ جالنہ، محترمہ عظمی پاریکھ صاحبہ ناگپور، محترمہ ھدی راول صاحبہ پٹنہ، محترمہ پروین پاپا صاحبہ چنائی، ان کے علاوہ بھی اصلاح معاشرہ میں سرگرم رہنے والی خواتین نے 6 فروری سے 14 فروری 2021 تک اہم و بنیادی عوانین مثلا طرز لباس، حجاب کی اہمیت، حفظ خوبصورتی کی ضرورت، کردار کی اہمیت، حیا، نکاح کی اہمیت وغیرہ پر تفصیلی خطاب کیے۔
ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ مسؤلہ ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلم سماج کی سینئرز سے درخواست کی ہے، خصوصا سماجی اور مذہبی تنظیموں کے ذمہ داروں سے درخواست کی ہے کہ نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ بچے اور بچیوں کا طرز لباس، اخلاقی اقدار کی اہمیت، اور حیا جیسے قیمتی جوہر کو نوجوانوں کی عادات و طرز زندگی میں شامل کرنا اشد ضروری ہے۔ اسکولز، کالجز اور یونیورسٹی میں سوشل میڈیا کا بے دھڑک استعمال نے گناہوں کی تمام سبیلیں آسان کردی ہیں، نہ صرف موسیقی اور ناچ گانے پر بس نہیں، بیہودہ اور فحش گوئی اور بے حیائی و عریانیت موبائل فون کے ذریعے عام ہوتی جارہی ہے۔ اسلام میں تحفہ و تحائف دینا اور لینا اور کسی بھی قسم کے میسیجیز مخالف جنس کے شخص کو بھیجنا مکمل طور پر حرام ہیں۔ جن کا انجام نار جہنم ہے۔ بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ، تعلقات قبل از نکاح، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود غیروں سے حرام تعلقات پیدا کرنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے افعال ہیں، جس سے خاندان اور پورا معاشرہ اجڑ جاتا ہے۔
والدین کی یہ فوری اور لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جنت کی راہ پر لگائیں اور گزشتہ گناہوں اور خطاوں سے توبہ کرائیں۔ نیکی اور تقوی و پرہیزگاری کی راہوں پر نوجوان نسل کو چلنے کی ترغیب دیں۔
اصلاح معاشرہ کی اس مہم کے لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر محنت پیہم درکار ہے۔ شعبہ خواتین تمام تنظیموں کے ساتھ اخلاق و اقدار کے اس بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے تعاون کررہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×