احوال وطن

سپریم کورٹ آف انڈیا میں بابری مسجد مقدمہ میں شامل مسلم پارٹیوں کی طرف سے دیا گیا ایک بیان

نئی دہلی، 18 اکتوبر 2019 (پریس ریلیز) I۔ مسلم پارٹیو ں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دیا گیا بیان۔ ۱- ہمیں ایڈوکیٹ شاہد رضوی کی طرف سے میڈیا کو جاری کردہ اس رپورٹ پر سخت حیرت اور تعجب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ بعض شرطوں کے ساتھ اپنا کیس واپس لینے کے لئے آمادہ ہے۔
۲- تمام میڈیا ایجنسیوں، اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعہ یہ خبر نشر کی گئی کہ یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ بعض شرطوں کے ساتھ اپنا مقدمہ واپس لینے کے لئے تیار ہے۔
۳- ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کو یہ خبر یا تو ثالثی پینل یا نرواہی اکھاڑہ کے ذریعہ جاری کی گئی جو مسجد پر اپنا دعوی رکھتا ہے۔
II۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب سپریم کورٹ میں بابری مسجد مقدمہ اپنے آخری مرحلہ میں تھا اس دوران ثالثی پینل کے ساتھ چند مخصوص لوگ بات چیت کررہے تھے ، جن میں نرواہی اکھاڑہ کے دھرم داس، یوپی وقف بورڈ کے چیر مین زفر احمد اور ہندو مہا سبھا کے چکر پانی اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ دو اور افراد بھی ان مذاکرات میں شامل ہوئے تھے۔
III۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ یہ کیسی ثالثی ہے جس میں کوئی بھی ہندو فریق (مقدمہ میں شامل) شامل نہیں ہے اور مسلمان فریقوں میں سے بھی صرف سنی سنٹرل بورڈ کے چیر مین شامل ہیں اور مقدمہ کے دوران تمام فریقون نے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں اور ثالثی سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
IV۔ اس موقعہ پر یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ ثالثی کمیٹی کے ایک اہم ممبر ایڈوکیٹ سری رام پنچو نے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر کہا تھا کہ زفر احمد، چیر مین وقف بورڈ کو سیکیوریٹی فراہم کی جائے اور سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ انھیں تحفظ فراہم کریں۔ 16؍ اکتوبر کو جب مقدمہ چل رہا تھا مسٹر پنچو کی طرف سے عدالت عظمی کو ایک دوسرا خط ملا لیکن اس کے مندرجات کو خفیہ رکھا گیا۔
V۔ ہم دستخط کنندگان عوام کے سامنے اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ
الف- اس وقت ثالثی کمیٹی کے سامنے جو مذاکرات ہوئے وہ نمائندہ مذاکرات نہیں تھے۔
ب- پریس کو یہ خبر یا تو خود ثالثی کمیٹی نے راست افشاء کی یا ان لوگوں نے جو اس مذاکرات میں حصہ لے رہے تھے۔ ( یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے ثالثی کمیٹی کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ جس بھی نتیجہ پر پہنچے اسے بند لفافے میں کورٹ کو دے دے اسے افشاء کرنے یا کسی کو بتانے کی اجازت نہیں تھی۔ کورٹ نے یہ واضح کیا تھا کہ یہ معلومات خفیہ رہیں گی۔)
ج۔ ایسا لگتا ہے کہ اس خبر کو افشاء کرنے اور مسٹر رضوی کے ذریعہ17 ؍اکتوبر جب کہ کورٹ کی کارروائی ختم ہورہی تھی بہت سوچ سمجھ کر اس موقعہ کو منتخب کیا گیا۔ ثالثی کمیٹی کے ممبر مسٹر پنچو 16 ؍اکتوبر کو نہ صرف عدالت عظمی میں موجود تھے بلکہ وہ زفر احمد صاحب سے برابر رابطے میں بھی تھے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ میں اپیل کنندگان بہت صاف الفاظ میں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں یہ تجاویز جو پریس کے ذریعہ افشاء کی گئی ہیں ہرگز ہرگز بھی منظور نہیں ہیں، اس طرح جس انداز میں ثالثی کی کوشش ہوئی وہ بھی ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح مقدمہ واپس لینے کے لئے جو چیز بطور سمجھوتہ پیش کی جارہی ہے اسے بھی ہم قبول کرنے کے ہرگز بھی تیار نہیں ہیں۔
دستخط کنندگان
ایڈوکیٹ آن ریکارڈ برائے اپیل کنندگان
۱- ایڈوکیٹ اعجاز مقبول
۲- ایڈوکیٹ شکیل احمد سید
۳- ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد
۴- ایڈوکیٹ ارشاد احمد
۵- ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×