ریاست و ملک

حق ترکہ معاف کرنےسےمعاف نہیں ہوتا ہے‘ ترکہ کا تعلق مورث کی وفات کے بعد سے ہے

ممبئی: 19؍ستمبر (پریس ریلیز) آئیے مسلم پرسنل لاسیکھیں(تفہیم شریعت) کےنام سے سلسلہ وارمحاضرات کاچھبیسواں موضوع”وراثت اورترکہ کے احکام ومسائل”پر مفتی جسیم الدین قاسمی(استاذ و مفتی مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹرجوگیشوری) نےگزشتہ سنیچرکوکیڈی مسجد ناگپاڑہ ممبئی میں تفصیلی محاضرہ پیش کیا،انھوں نے بتایاکہ مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اس کاصحیح استعمال رحمت کاباعث ہے، اورغلط استعمال دنیاوآخرت میں خسارہ کاسبب ہے،علم میراث  کی اہمیت پر بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ علم میراث نصف علم ہے، اس کو حاصل کرنے کاحکم دیاگیاہے۔مفتی موصوف نےترکہ کی حقیقت بیان کرتےہوئے کہاکہ اس کاتعلق مورث کی وفات کے بعد سے ہے، اسی وجہ سے اس کو ترکہ یعنی چھوڑی ہوئی چیز کہاجاتاہے،مورث کی وفات کے فورابعد شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق  ترکہ تقسیم کرلیناضروری ہے،تاخیرکی وجہ سے بہت سارے مسائل پیداہوتے ہیں،تاہم زندگی  ہی میں کوئی اپنی جائداد تقسیم کردیناچاہے تو سارے وارثین کوبرابردے۔اس کےباوجود اگر کوئی سہام شرعی کے اعتبارسے یعنی لڑکے کو لڑکی کادوگنادے تو اس کی بھی گنجائش ہے،تاہم یہ بہتر نہیں ہے،اسی طرح انھوں نے یہ بھی کہاکہ کسی وارث  کو محروم رکھ کردوسرے کوسارامال  گفٹ کردینایاتہائی سے زیادہ وصیت کردیناجائز نہیں۔مفتی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ میت کے ترکہ سے چار قسم کے حقوق متعلق ہوتے ہیں،پہلے اس کی تجہیز وتکفین  کاخرچ،قرض کی ادائیگی،ایک تہائی میں وصیت کانفاذ پھر وارثین کاحق ہوتاہے،مفتی صاحب نے کہاکہ  آج کل لوگ اپنے ہی وارثین کے لیے وصیت کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔اسی طرح لوگ بہنوں سے معاف کروالیتے ہیں ، یاپھر بہنیں از خود معاف کردیتی ہیں،حالاں کہ  اس طرح معافی نہیں ہوتی ، بلکہ کچھ لیکربقیہ حصہ کو چھوڑنےکااختیار ہے، مگرکل حصہ کو معاف  کرنے کاحق نہیں،انھوں نے مزیدکہاکہ مورث جو کچھ اپنی بیٹی یابہن کو اپنی حیات میں جہیزکے طورپردیتاہے وہ ترکہ نہیں، بلکہ عطیہ ہے۔یتیم پوتے کی میراث کے تعلق سے مفتی صاحب نے کہاکہ  یتیم پوتے کی کفالت مکمل طورپرداداپرعائدہوتی ہے، اوروہ چاہے تواسےاپنی حیات ہی میں گفٹ بھی کرسکتاہے، اور ایک تہائی  تک وصیت بھی کرسکتاہے، لہذادادا کوچاہئے کہ وہ اپنے یتیم پوتے یاپوتی کے لئے ایک تہائی  مال  تک  ضروروصیت کرے، یااپنی  حیات ہی  میں ہدیہ  دیکر قبضہ بھی دیدے،اس لیے یتیم پوتامحروم نہیں، بلکہ اسے زیادہ حق مل جاتاہے۔مفتی جسیم الدین  صاحب قاسمی نے کہاآج  کل  کوئی بیٹااپنے والدکے کاروبارشامل ہوکرمحنت کرتاہے، مگر اس کی  وضاحت نہیں ہوتی  ہے کہ وہ  معاون کے طورپرکام کرتاہے یاملازم کے طورپر؟اس لئے والدکی وفات کے بعد بھائیوں میں جھگڑاہوجاتاہے، اس لئے معاون  یاملازم ہونے کی  وضاحت ہوجانی  چاہئے،اگراس کی  وضاحت نہیں ہوتی ہےتو  معاون سمجھاجائے گا، تاہم انھوں نے کہاکہ بہتر ہے کہ بیٹے کواپنے کاروبارمیں فیصد کے اعتبارسے   شریک اورپاٹنربنالیناچاہئے ، ایسی صورت میں اس  کے حصے کی  پراپرٹی میں ترکہ  تقسیم نہیں ہوگا۔محاضرہ  کی  صدارت کررہے جناب مولانایوسف  صاحب نے کہاکہ دین کی بنیادی باتوں کو سیکھنافرض ہے، مسلم پرسنل لا اورعائلی مسائل ہمارے زندگی  کااٹوٹ حصہ ہیں،اس لئے ہمیں چاہئے کہ خود سیکھیں اوراپنی اولاد کو سیکھائیں،اوراسی کے عمل بھی  کریں، مولانایوسف نے کہاکہ  لاعلمی کی  بناء میاں بیوی، اوربھائی  بہن حتیٰ کے باپ بیٹے کے درمیان جھگڑے رونماہوتےہیں، اس  لیے ہمیں چاہئے کہ  شریعت کے مطابق خود عمل کریں اوردوسروں کوبھی یس کی تاکید کریں۔واضح رہے کہ کیڈی مسجدناگپاڑہ ممبئی میں ہردوسرے سنیچر کو رات میں مسلم پرسنل لامتعلق مسائل پر تفصیلی محاضرہ دیاجاتاہے، آئندہ مورخہ ٢۸/ستمبر٢۰١۹ء کو محاضرہ ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×