احوال وطن

بابری مسجد ٹائٹل سوٹ؛ رام کی خاص جائے پیدائش کا ہمیں کہیں ذکر نہیں ملتا: ڈاکٹر راجیو دھون

نئی دہلی: 18؍ستمبر 2019ء (پریس ریلیز) آج ڈاکٹر دھون صاحب نے اپنی بحث کا آغاز کل ججوں کے اس موقف پرکیا کہ4 تاریخ دانوں نے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کو جو رپورٹ دی تھی وہ ان کی ایک رائے تھی جس کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ اگر یہ ان کی رائے ہے تو اس مقدمہ میں ہندو فریقوں نے اب تک جو کہا ہے وہ بھی بس ایک رائے ہی ہے۔ یہ ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ تھی۔ اس کمیٹی کے کنوینر مشہور تاریخ دان سورج بھان نے باضابطہ کورٹ میں آکر گواہی دی ہے اور گواہی پیش کرنے کے جتنے اصول و ضوابط ہیں ان سب کو پورا کیا ہے۔ رپورٹ پر4 میں سے 3 تاریخ دانوں کے دستخط موجود ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ جو کورنگ لیٹر ہے اس پر سب کے دستخط موجود ہیں۔ یہ رپورٹ تمام چیزوں کا مطالعہ کرنے کے بعد لکھی گئی ہے۔ اسے صرف اس بنیاد پر رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس پر ایک شخص کے دستخط نہیں ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہاکہ اسکندپران میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ رام اسی جگہ پیدا ہوئے جہاں بابری مسجد ہے۔ کسی خاص جگہ پر رام پیدا ہوئے اس کا کوئی ذکر ہمیں نہیں ملتا ہے۔
ڈاکٹر دھون نے آگے کہا کہ اطالوی سیاح ٹفن تھیلر نے بھی رام جنم استھان کو بیدی ( چبوترے) پر بتایا ہے۔ جو کہ باہری حصہ میں ہے۔ ہائی کورٹ کی فائنڈنگ میں بھی یہ ہے کہ بالمیکی رامائن، رام چررتر مانس اور اسکند پران میں صرف یہ ذکر ہے کہ ایودھیا میں رام جنم استھان ہے کسی خاص جگہ کا ذکر نہیں ہے۔
جہان تک وشنو ہری شیلا لیکھ(Inscrptions) کا سوال ہے۔ اس میں بھگوان شری رام کے جنم استھان کا کوئی ذکر نہیں ہے گھیدروال کے راجاؤں کے جنم استھان کا تو ذکر ہے۔
سوٹ نمبر5 میں جو پٹیشنر ہیں انہوں نے اپنے دعوؤں میں 1528 سے بابری مسجد کا موجود ہونا تسلیم کیا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے فیض آباد کے گزیٹیئر کے بارے میں کہا ان کے بیانات قابل اعتبار نہیں ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ رام مندر کو بابر نے توڑا تھا تو کبھی وہ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب نے۔ لہذا ان کی بات کو مستند نہیں مانا جا سکتا ہے۔
دوران بحث ایک جج نے یہ جاننا چاہا کہ باہری صحن میں جہاں چبوترہ ہے اور اندرونی حصہ کے بیچ دیوار کب تعمیر کی گئی تھی اس پر دھون صاحب نے کہا کہ یہ میں کل بتاؤں گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ اندرونی حصہ میں مسلمان اور ہندو دونوں عبادت کرتے تھے اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ بہرحال اس پر بھی کل باضابطہ ثبوت پیش کریں گے۔
ہینس بیکر کی کتاب جس پر ہندو فریق انحصار کررہا ہے اس میں ہنس بیکر نے کہا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ یہی جگہ رام جنم بھومی ہے۔ یہ کتاب 1986 میں لکھی گئی تھی جو ایک Ph. D کی تھیسس ہے۔ آج کی بحث یہیں پر ختم ہوگئ۔
آج کی بحث کے دوران ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے ۔ اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×