سیاسی و سماجی

لوجہاد کی بات،سچ یا سازش

ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ سنگھ کی سر پرستی میں قائم مرکزی و ریاستی سرکاروں اور ہندتووادی تربیت گاہوں سے نکلے عناصر کے پاس سماج کو دینے کے لیے کوئی خاص نہیں ہے ، ان کے تحت جاری یہ تمام تر تحریکوں کی بڑی ناکامی ہے ، امن ، ترقی ، آزادی اورسچائی میں سے سماج کو کوئی بھی چیز نہیں مل رہی ہے ، سوائے خوف اور سازش کے ۔ فکری و عملی بحران کی تلافی ،سازش، زبردستی اور اخلاقی و نظریاتی دیوالیہ پن سے نہیں کی جاسکتی ہے ، تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے نام پر بنائے جانے والے قوانین اور ان کے لیے مختلف سطحوں پر جاری سرگرمیاں اسی کے نمونے اور علامتیں ہیں ، یہ دہشت زدہ اور ڈرے سہمے ہونے کا عملی اظہار ہے،تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے نام پر قانون سازی کے بغیر کیوں لگتا ہے کہ ہم وقت کی تیز بارش میں بتاشے کی طرح ڈھے اور پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہوجائیں گے ۔ اس سلسلے میں سچائی کے بجائے سازش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟سچ کی بنیاد یا تو سچے مذہب میں ہوتی ہے یا بہترسماج میں یا ملک کے آئین یا معاشرتی اصول میں، لوجہاد سے متعلق قانون سازی کی بنیاد اور ضرورت تو کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے ، کسی بھی ملک میں کسی بھی طرح کی قانون سازی کی بنیاد اس کی ضرورت میں ہوتی ہے ، اس کے بغیر قانون سازی قطعی بے معنی اور عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی غلط سعی سمجھی جاتی ہے ، کئی طرح کے پبلک سروکار والے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے لو جہاد کے نام پر قانون بنانے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے ، کسی بھی سنجیدہ اور ملک و سماج کا ذرا بھی علم و آگہی رکھنے والے آدمی کی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر آزادبھارت میں لوجہاد کے نام پر قانون بنانے کا تک کیا ہے ؟ اس طرح کے قانون کی بھارت کے آئین کی رو سے کوئی معنویت و حقیقت نہیں ہے ، راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے اس دعوے میں خاصا دم نظر آتا ہے کہ یہ قانون کسی عدالت میں نہیں ٹک سکے گا ، اس سلسلے میں عدلیہ کے رخ سے بھی بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے ، الہ آباد ہائی کورٹ نے نام نہاد مبینہ لوجہاد کے ایک معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا ہے اس سے بہت کچھ صاف ہوجاتا ہے، اس تناظر میں یہ اصل بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دائیں بازو کی ہندوتو وادی طاقتوں کے ڈر کی سیاست ،پرانی عادت کا حصہ ہے ، 1920ءسے ہی وہ اس راہ پر گامزن ہیں ، وہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ بالغ ہندو لڑکیاں بھی عقل و شعور اور اپنے متعلق فیصلے کرنے میں نا پختہ اور نا بالغ ہوتی ہیں ، منوسمرتی میں واضح الفاظ میں متوجہ کیا ہے کہ عورتیں شادی سے پہلے اور بعد میں بھی آزاد نہیں رہ سکتی ہیں ، ہندوتو وادی عناصر کے ذہن پر بھارت کے موجودہ آئین کے بجائے منوسمرتی حاوی ہے، لوجہاد کی تشہیر بنیادی طور سے فرقہ وارانہ و طبقاتی تقسیم و تفریق کی ذہنیت اور ہندوتو کو لے کر فکر ی و عملی بحران کے پیش نظر پیدا شدہ خوف کے تحت تبدیلی مذہب کا مسئلہ ہے ، ایک طرف آئین کی رو سے کسی بھی مذہب و عقیدہ کو اختیار کرنے کی آزادی اور عالمی رویہ و رجحان ہے تو دوسری طرف چور دروازے سے زور زبردستی اور مختلف حربوں سے ملک کے شہریوں کی مذہبی و نظریاتی اور عملی آزادی کو ختم کرنے کی مذموم کوششوں سے بہت طرح کے تضادات و سوالات اور مسائل بھی پید اہوتے ہیں ، بی ، جے پی کے زیر اقتدار جن صوبوں میں لوجہاد کے نام پر اس کے خلاف قانون بنانے کے چرچے ہیں ان میں تبدیلی مذہب کو روکنے کے ساتھ اپنی طرح کے پسندیدہ طرز فکرو حیات کو عوام پر زبردستی لادنے اور قانون کے ذریعے شہریوں کی آزادی و انتخاب کے حق کو سلب کرنا ہی پیش نظر ہے ۔ چاہے مذہب کا معاملہ ہو یا محبت کا اس میں ، سازش، لالچ ،دباﺅ،دھوکے اور زور زبردستی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے ، چار سو بیسی اورکسی بھی عورت کے ساتھ دھوکا ،فریب ،زیادتی کے خلاف پہلے سے کئی قوانین بنے ہوئے ہیں ، اور فوجداری (IPC) قانون کی مختلف دفعات کے تحت واضح طور سے سزا کا تعین کر دیا گیا ہے ۔ ایسی حالت میں لوجہاد کے نام پر اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ کچھ مخصوص کمیونٹیز اور ان کے مذاہب کو نشانہ بناکر سماج میں ان کی حیثیت کو مجروح و مشکوک اور معدوم کردیا جائے اور مکروہ شکل میں پیش کر کے نفرت کا ماحول پید اکیا جائے، اس کی تائید و تصدیق ان تحریروں ،تبصروں اور سرگرمیوں سے پوری طرح ہوتی ہے جو مختلف گروپوں ، تنظیموں اور افراد کی طرف سے مختلف جہات و سطحوں پر ہورہی ہیں ، برقع پوش عورت کی تصویر دے کر اس تبصرے کا کیا مطلب نکل سکتا ہے ‘‘ کل اسے تمہاری بہن یا بیٹی پہن سکتی ہے ۔ ہم کو تاریخ سے سبق لینا چاہیے اور اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے’’ لوجہاد کے نام کو ایک کمیونٹی اور مذہب کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ، فیس بک ، ٹوئیٹر ، ویڈیو،انسٹا گرام اور یوٹیوب پر طوفانی بھیانک پروپگینڈے کا سیلاب آیا ہوا ہے جب کہ مرکزی وزارت داخلہ وضاحت کر چکی ہے کہ موجودہ قوانین میں کہیں بھی لوجہاد کی تعریف متعین نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کیس کی اطلاع کسی بھی مرکزی ایجنسی نے دی ہے ، کیرلا ،کرناٹک جہاں سے 2009 میں لوجہاد کی اصطلاح پید ا ہوئی اور عوامی بحث و مباحثے کا حصہ بنی میں کوئی لڑکا لڑکی کے تعلقات اور شادی ، لوجہاد کا کیس ثابت نہیںہوئی ہے ، یوپی میں جہاں یوگی اور ان کی سرکار لوجہاد کے نام پر فرقہ پرستی اور نفرت کے کھیل میں ازحد پیش پیش ہے ، کوئی بھی معاملہ لوجہاد کا ثابت نہیں ہوا ہے ، اس سلسلے میں اشوک گہلوت کے یہ الزامات باوزن معلوم ہوتے ہیں کہ بی ،جے پی کی یہ حرکت ملک کو تقسیم کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش ہے ، بی ،جے پی ملک میں ایسا ماحول بنا رہی ہے ، جس میں نوجوانوں کی مفاہمت صوبے کے رحم وکرم پر منحصر ہوجائے گی ، یہ ذاتی آزادی کو چھین لینے کی ہم معنی ہے ، اس سے سماجی تصادم کو فروغ ملے گا، جس طرح کے افراد بین مذاہبی شادیاں کرتے ہیں اور پہلے بھی کر چکے ہیں ان کا کسی بھی مذہبی فکرو تحریک یا اسلامی فکرو عمل سے کوئی دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے ،پھر ان کے ذاتی فیصلے و عمل کو جہاد کے زمرے میں کیسے رکھا جاسکتا ہے ؟ جہاد ایک مذہبی مقدس اصطلاح اور فساد وشرکے خلاف تعمیری عمل ہے ، ایسی حالت میں مرد، عورت کے اپنے ذاتی فیصلے اورباہمی شادی کو ایک اسلامی مقدس اصطلاح سے جوڑ کر دیکھنا اور پیش کرنا ظاہر ہے کہ فساد قلب و نظر کی علامت ہے ، سنگھ اور ہندوتووادی آئیڈیا لوجی سے متاثر افراد اور تنظیمیں تضادات فکروعمل کے بحران میں مبتلا ہیں ، ایک طرف تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف یہ بھی سوسال سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ ہندو، ہندوتو کوئی مذہب نہیں ہے ۔بلکہ محض طرز حیات ہے ، آر، ایس ایس کے تمام سر سنچالکوں سمیت وزیر اعظم نریندری مودی تک تسلسل کے ساتھ کہتے آرہے ہیں کہ ہندو اور ہندوتو کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ ایک سنسکرتی اور طرز زندگی کا نام ہے ۔ ایسی حالت میں تبدیلی مذہب کے دعوے کا کوئی معنی و مطلب نہیں رہ جاتا ہے ۔ جب مذہب ہے ہی نہیں ہے تو تبدیلی کس چیز کی ہورہی ہے ؟۔سنگھ کی تشریح و تعبیر کے مطابق معاملہ مذہب اور دھرم کا نہیں ہے بلکہ عبادات کے تسلیم شدہ طریقوں کے اختلافات کا ہے تو طریق عبادات کے اختلافات کو تبدیلی مذہب کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اس تناظر میں بہت سے سوالات، جوابات طلب ہیں اوربہت سے امور بحث طلب بھی ، اس کے ساتھ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ لوجہاد کی بات سچ ہے یا سازش، شادی کے سلسلے میں لوکے ساتھ جہاد کا کیا جوڑ ہے ؟۔یہ ملک کو بتانا ہوگا۔ اس سلسلے میں تمام طرح کے شورو غوغا محض جارحانہ سیاست اور فرقہ پرستی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×