• ہمارے بارے میں
  • رابطہ
ہفتہ, جنوری 16, 2021
Asre Hazir
  • عصر حاضر نیوز
    • حیدرآباد و اطراف
    • ریاست و ملک
    • عالم اسلام
  • مضامین و مقالات
    • اداریہ
    • اسلامیات
    • سیرت و تاریخ
    • فقہ و فتاوی
    • سیاسی و سماجی
    • شخصیات
  • قلم کار
    • مولانا سید احمد ومیض ندوی
    • مفتی محمد صادق حسین قاسمی
    • مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی
    • مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
    • مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی
  • اسلامی ویب سائٹس
  • اصلاحی مجالس
  • ماہنامے
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
English
کو ئی نتیجہ نہیں
تمام نتائج دیکھیں
  • عصر حاضر نیوز
    • حیدرآباد و اطراف
    • ریاست و ملک
    • عالم اسلام
  • مضامین و مقالات
    • اداریہ
    • اسلامیات
    • سیرت و تاریخ
    • فقہ و فتاوی
    • سیاسی و سماجی
    • شخصیات
  • قلم کار
    • مولانا سید احمد ومیض ندوی
    • مفتی محمد صادق حسین قاسمی
    • مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی
    • مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
    • مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی
  • اسلامی ویب سائٹس
  • اصلاحی مجالس
  • ماہنامے
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
کو ئی نتیجہ نہیں
تمام نتائج دیکھیں
Asre Hazir
کو ئی نتیجہ نہیں
تمام نتائج دیکھیں

لوجہاد کی بات،سچ یا سازش

عبد الحمید نعمانی

Asrehazir از Asrehazir
نومبر 26, 2020
میں سیاسی و سماجی
0
0
شیئر
108
دیکھا گیا
Share on FacebookShare on Twitter

ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ سنگھ کی سر پرستی میں قائم مرکزی و ریاستی سرکاروں اور ہندتووادی تربیت گاہوں سے نکلے عناصر کے پاس سماج کو دینے کے لیے کوئی خاص نہیں ہے ، ان کے تحت جاری یہ تمام تر تحریکوں کی بڑی ناکامی ہے ، امن ، ترقی ، آزادی اورسچائی میں سے سماج کو کوئی بھی چیز نہیں مل رہی ہے ، سوائے خوف اور سازش کے ۔ فکری و عملی بحران کی تلافی ،سازش، زبردستی اور اخلاقی و نظریاتی دیوالیہ پن سے نہیں کی جاسکتی ہے ، تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے نام پر بنائے جانے والے قوانین اور ان کے لیے مختلف سطحوں پر جاری سرگرمیاں اسی کے نمونے اور علامتیں ہیں ، یہ دہشت زدہ اور ڈرے سہمے ہونے کا عملی اظہار ہے،تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے نام پر قانون سازی کے بغیر کیوں لگتا ہے کہ ہم وقت کی تیز بارش میں بتاشے کی طرح ڈھے اور پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہوجائیں گے ۔ اس سلسلے میں سچائی کے بجائے سازش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟سچ کی بنیاد یا تو سچے مذہب میں ہوتی ہے یا بہترسماج میں یا ملک کے آئین یا معاشرتی اصول میں، لوجہاد سے متعلق قانون سازی کی بنیاد اور ضرورت تو کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے ، کسی بھی ملک میں کسی بھی طرح کی قانون سازی کی بنیاد اس کی ضرورت میں ہوتی ہے ، اس کے بغیر قانون سازی قطعی بے معنی اور عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی غلط سعی سمجھی جاتی ہے ، کئی طرح کے پبلک سروکار والے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے لو جہاد کے نام پر قانون بنانے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے ، کسی بھی سنجیدہ اور ملک و سماج کا ذرا بھی علم و آگہی رکھنے والے آدمی کی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر آزادبھارت میں لوجہاد کے نام پر قانون بنانے کا تک کیا ہے ؟ اس طرح کے قانون کی بھارت کے آئین کی رو سے کوئی معنویت و حقیقت نہیں ہے ، راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے اس دعوے میں خاصا دم نظر آتا ہے کہ یہ قانون کسی عدالت میں نہیں ٹک سکے گا ، اس سلسلے میں عدلیہ کے رخ سے بھی بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے ، الہ آباد ہائی کورٹ نے نام نہاد مبینہ لوجہاد کے ایک معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا ہے اس سے بہت کچھ صاف ہوجاتا ہے، اس تناظر میں یہ اصل بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دائیں بازو کی ہندوتو وادی طاقتوں کے ڈر کی سیاست ،پرانی عادت کا حصہ ہے ، 1920ءسے ہی وہ اس راہ پر گامزن ہیں ، وہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ بالغ ہندو لڑکیاں بھی عقل و شعور اور اپنے متعلق فیصلے کرنے میں نا پختہ اور نا بالغ ہوتی ہیں ، منوسمرتی میں واضح الفاظ میں متوجہ کیا ہے کہ عورتیں شادی سے پہلے اور بعد میں بھی آزاد نہیں رہ سکتی ہیں ، ہندوتو وادی عناصر کے ذہن پر بھارت کے موجودہ آئین کے بجائے منوسمرتی حاوی ہے، لوجہاد کی تشہیر بنیادی طور سے فرقہ وارانہ و طبقاتی تقسیم و تفریق کی ذہنیت اور ہندوتو کو لے کر فکر ی و عملی بحران کے پیش نظر پیدا شدہ خوف کے تحت تبدیلی مذہب کا مسئلہ ہے ، ایک طرف آئین کی رو سے کسی بھی مذہب و عقیدہ کو اختیار کرنے کی آزادی اور عالمی رویہ و رجحان ہے تو دوسری طرف چور دروازے سے زور زبردستی اور مختلف حربوں سے ملک کے شہریوں کی مذہبی و نظریاتی اور عملی آزادی کو ختم کرنے کی مذموم کوششوں سے بہت طرح کے تضادات و سوالات اور مسائل بھی پید اہوتے ہیں ، بی ، جے پی کے زیر اقتدار جن صوبوں میں لوجہاد کے نام پر اس کے خلاف قانون بنانے کے چرچے ہیں ان میں تبدیلی مذہب کو روکنے کے ساتھ اپنی طرح کے پسندیدہ طرز فکرو حیات کو عوام پر زبردستی لادنے اور قانون کے ذریعے شہریوں کی آزادی و انتخاب کے حق کو سلب کرنا ہی پیش نظر ہے ۔ چاہے مذہب کا معاملہ ہو یا محبت کا اس میں ، سازش، لالچ ،دباﺅ،دھوکے اور زور زبردستی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے ، چار سو بیسی اورکسی بھی عورت کے ساتھ دھوکا ،فریب ،زیادتی کے خلاف پہلے سے کئی قوانین بنے ہوئے ہیں ، اور فوجداری (IPC) قانون کی مختلف دفعات کے تحت واضح طور سے سزا کا تعین کر دیا گیا ہے ۔ ایسی حالت میں لوجہاد کے نام پر اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ کچھ مخصوص کمیونٹیز اور ان کے مذاہب کو نشانہ بناکر سماج میں ان کی حیثیت کو مجروح و مشکوک اور معدوم کردیا جائے اور مکروہ شکل میں پیش کر کے نفرت کا ماحول پید اکیا جائے، اس کی تائید و تصدیق ان تحریروں ،تبصروں اور سرگرمیوں سے پوری طرح ہوتی ہے جو مختلف گروپوں ، تنظیموں اور افراد کی طرف سے مختلف جہات و سطحوں پر ہورہی ہیں ، برقع پوش عورت کی تصویر دے کر اس تبصرے کا کیا مطلب نکل سکتا ہے ‘‘ کل اسے تمہاری بہن یا بیٹی پہن سکتی ہے ۔ ہم کو تاریخ سے سبق لینا چاہیے اور اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے’’ لوجہاد کے نام کو ایک کمیونٹی اور مذہب کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ، فیس بک ، ٹوئیٹر ، ویڈیو،انسٹا گرام اور یوٹیوب پر طوفانی بھیانک پروپگینڈے کا سیلاب آیا ہوا ہے جب کہ مرکزی وزارت داخلہ وضاحت کر چکی ہے کہ موجودہ قوانین میں کہیں بھی لوجہاد کی تعریف متعین نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کیس کی اطلاع کسی بھی مرکزی ایجنسی نے دی ہے ، کیرلا ،کرناٹک جہاں سے 2009 میں لوجہاد کی اصطلاح پید ا ہوئی اور عوامی بحث و مباحثے کا حصہ بنی میں کوئی لڑکا لڑکی کے تعلقات اور شادی ، لوجہاد کا کیس ثابت نہیںہوئی ہے ، یوپی میں جہاں یوگی اور ان کی سرکار لوجہاد کے نام پر فرقہ پرستی اور نفرت کے کھیل میں ازحد پیش پیش ہے ، کوئی بھی معاملہ لوجہاد کا ثابت نہیں ہوا ہے ، اس سلسلے میں اشوک گہلوت کے یہ الزامات باوزن معلوم ہوتے ہیں کہ بی ،جے پی کی یہ حرکت ملک کو تقسیم کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش ہے ، بی ،جے پی ملک میں ایسا ماحول بنا رہی ہے ، جس میں نوجوانوں کی مفاہمت صوبے کے رحم وکرم پر منحصر ہوجائے گی ، یہ ذاتی آزادی کو چھین لینے کی ہم معنی ہے ، اس سے سماجی تصادم کو فروغ ملے گا، جس طرح کے افراد بین مذاہبی شادیاں کرتے ہیں اور پہلے بھی کر چکے ہیں ان کا کسی بھی مذہبی فکرو تحریک یا اسلامی فکرو عمل سے کوئی دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے ،پھر ان کے ذاتی فیصلے و عمل کو جہاد کے زمرے میں کیسے رکھا جاسکتا ہے ؟ جہاد ایک مذہبی مقدس اصطلاح اور فساد وشرکے خلاف تعمیری عمل ہے ، ایسی حالت میں مرد، عورت کے اپنے ذاتی فیصلے اورباہمی شادی کو ایک اسلامی مقدس اصطلاح سے جوڑ کر دیکھنا اور پیش کرنا ظاہر ہے کہ فساد قلب و نظر کی علامت ہے ، سنگھ اور ہندوتووادی آئیڈیا لوجی سے متاثر افراد اور تنظیمیں تضادات فکروعمل کے بحران میں مبتلا ہیں ، ایک طرف تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف یہ بھی سوسال سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ ہندو، ہندوتو کوئی مذہب نہیں ہے ۔بلکہ محض طرز حیات ہے ، آر، ایس ایس کے تمام سر سنچالکوں سمیت وزیر اعظم نریندری مودی تک تسلسل کے ساتھ کہتے آرہے ہیں کہ ہندو اور ہندوتو کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ ایک سنسکرتی اور طرز زندگی کا نام ہے ۔ ایسی حالت میں تبدیلی مذہب کے دعوے کا کوئی معنی و مطلب نہیں رہ جاتا ہے ۔ جب مذہب ہے ہی نہیں ہے تو تبدیلی کس چیز کی ہورہی ہے ؟۔سنگھ کی تشریح و تعبیر کے مطابق معاملہ مذہب اور دھرم کا نہیں ہے بلکہ عبادات کے تسلیم شدہ طریقوں کے اختلافات کا ہے تو طریق عبادات کے اختلافات کو تبدیلی مذہب کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اس تناظر میں بہت سے سوالات، جوابات طلب ہیں اوربہت سے امور بحث طلب بھی ، اس کے ساتھ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ لوجہاد کی بات سچ ہے یا سازش، شادی کے سلسلے میں لوکے ساتھ جہاد کا کیا جوڑ ہے ؟۔یہ ملک کو بتانا ہوگا۔ اس سلسلے میں تمام طرح کے شورو غوغا محض جارحانہ سیاست اور فرقہ پرستی ہے ۔

اعلان
اعلان
پچھلی پوسٹ

بہار اسمبلی انتخاب ۲۰۲۰ ء

اگلی پوسٹ

ظالموں کا انجام

Asrehazir

Asrehazir

اگلی پوسٹ

ظالموں کا انجام

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سماجی رابطے

اشتہار

Email Us Today To Book This Space: [email protected]

تازہ ترین خبریں

اب 8؍فروری کو واٹس اپ بند نہیں ہوگا ‘ واٹس اپ نے کیا اعلان‘ اپنے بزنس پلان کو کیا ملتوی

جنوری 16, 2021

دنیا کی سب سے بڑی کووڈ -19 ٹیکہ کاری مہم کے پہلے مرحلہ کا وزیر اعظم مودی نے کیا آغاز

جنوری 16, 2021

اردو یونیورسٹی حیدرآباد کی 27؍جنوری سے مرحلہ وار کشادگی

جنوری 15, 2021

دارالعلوم دیوبند کے سابق میڈیا ترجمان اور مشہور صحافی عادل صدیقی کا انتقال

جنوری 15, 2021

ہمارے بارے میں

Asre Hazir

عصر حاضر اردو اور انگلش میں ہندوستان کے ادبی و تہذیبی شہر حیدرآباد دکن سے چلنے والا ایک اسلامی پورٹل ہے۔

ہماری پیروی کریں

اشتہار

Email Us Today To Book This Space: [email protected]

تازہ ترین پوسٹ

  • اب 8؍فروری کو واٹس اپ بند نہیں ہوگا ‘ واٹس اپ نے کیا اعلان‘ اپنے بزنس پلان کو کیا ملتوی جنوری 16, 2021
  • دنیا کی سب سے بڑی کووڈ -19 ٹیکہ کاری مہم کے پہلے مرحلہ کا وزیر اعظم مودی نے کیا آغاز جنوری 16, 2021
  • اردو یونیورسٹی حیدرآباد کی 27؍جنوری سے مرحلہ وار کشادگی جنوری 15, 2021
  • دارالعلوم دیوبند کے سابق میڈیا ترجمان اور مشہور صحافی عادل صدیقی کا انتقال جنوری 15, 2021
  • 17جنوری کو مدرسہ اسلامیہ دعوۃ الحق چک بہاء الدین میں قومی یکجہتی کانفرنس جنوری 15, 2021
  • مسجد حسینی وجئے نگر کالونی میں جلسہ دعوتِ دین اور اصلاح معاشرہ جنوری 15, 2021
  • امارت شرعیہ کی جانب سے دیگھا پٹنہ میں کمبل کی تقسیم جنوری 15, 2021

مشہور پوسٹ

  • واٹس اپ صارفین کی نجی تفصیلات کو متأثر ہونے نہیں دیں گے‘ واٹس اپ نے کیا بڑا خلاصہ

    0 shares
    Share 0 Tweet 0
  • مسجد بلال ٹولی چوکی میں مولانا پیر صلاح الدین سیفی نقشبندی کا اصلاحی خطاب

    0 shares
    Share 0 Tweet 0
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ

Asrehazir. All Rights Reserved. | Designed By: AQCDS Hyderabad. (+91) 9100078978

کو ئی نتیجہ نہیں
تمام نتائج دیکھیں
  • عصر حاضر نیوز
    • حیدرآباد و اطراف
    • ریاست و ملک
    • عالم اسلام
  • مضامین و مقالات
    • اداریہ
    • اسلامیات
    • سیرت و تاریخ
    • فقہ و فتاوی
    • سیاسی و سماجی
    • شخصیات
  • قلم کار
    • مولانا سید احمد ومیض ندوی
    • مفتی محمد صادق حسین قاسمی
    • مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی
    • مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
    • مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی
  • اسلامی ویب سائٹس
  • اصلاحی مجالس
  • ماہنامے
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • English
  • Old Urdu

Asrehazir. All Rights Reserved. | Designed By: AQCDS Hyderabad. (+91) 9100078978

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
×
porno • porno • porno • porno • porno • porno
porno • porno • porno porno • porno • porno