اسلامیات

عیدالفطر رضائے الٰہی کا پروانہ

عید الفطر خوشی ومسرت اور رحمت ومغفرت کا دن ہے، اس دن اللہ کے نیک بندوں کو بے شمار انعامات سے نوازا جاتا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے ویسمی ذلک الیوم في السماء یوم الجائزۃ (المعجم الکبیر للطبراني) کہ آسمان میں اس دن کو بدلہ کا دن کہا جاتا ہے،اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ عیدالفطر کی رات لیلۃ الجائزۃ (بدلہ کی رات) ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو اہل مدینہ زمانۂ جہالت سے دو دنوں (نیروز اور مہرجان) میں کھیل کود کیا کرتے تھے،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:ان اللہ قد أبد لکم بہما خیرا منہما یوم الأضحی ویوم الفطر(رواہ أبو داؤد)کہ اللہ تعالی نے تم کو ان(نیروز ومہرجان) سے بہتر اور عمدہ دو دن(۱) عید الاضحی اور(۲) عید الفطر کی صورت میں عطا کئے، ان دنوں میں روزہ رکھنا شریعت اسلامی کی رو سے حرام قرار دیا گیا،اس لئے کہ عیدین کے ایام میں خوشی ومسرت کااظہار کسی دنیاوی غرض سے نہیں ہے کہ اس کے لئے اپنے طور پر کوئی طریقہ ایجاد کیا جائے،بلکہ یہ ایک شرعی عمل اور دینی فریضہ ہے، لہذا ان ایام کے لئے شریعت نے جوہدایات صادر فرمائیں اور جو احکام متعین کئے ان کے حدود کا پورا پورا خیال کرتے ہوئے عیدین میں خوشی کا اظہار کرنا ہی اصل عید ہے، اگر ہم شریعت کے طے کردہ حدود سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو یہ عید ہمارے لئے وعید بنجائے گی۔
عید الفطر کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئے کہ جب بندہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے ایک مہینہ کھانہ، پانی اور دیگر حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے، اور ممنوعات ومکروہات سے پرہیز کو یقینی بناتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق اللہ تبارک وتعالی اپنے فرشتوں سے سوال کرتے ہوئے فرماتا ہے: ما جزاء الأجیر اذا عمل عملہ؟(شعب الایمان) کہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کرلیا ہو؟ فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کا بدلہ یہ ہے کہ اس کو پوری پوری مزدوری دیدی جائے۔ تو اللہ تعالی فرشتوں کو گواہ بناکر اپنے عبادت گزار بندوں کو اپنی رضا اور مغفرت کا پروانہ عطا کرتا ہے،اور بندوں کو خطاب کرکے فرماتا ہے: میری عزت وجلال کی قسم آج تم آخرت کے متعلق مجھ سے جو کچھ بھی مانگو گے عطا کروں گا ، اور دنیا کے متعلق جو کچھ بھی مانگو گے اس میں تمہاری بہتری دیکھوں گا، اور ایک حدیث میں کہ اللہ تعالی فرماتا ہیـ: للصائم فرحتان فرحۃ عند فطرہ وفرحۃ عند لقاء ربہ (رواہ مسلم)کہ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک تو روزہ کھولنے کے وقت دوسری جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزہ کھولنے کا وقت خوشی کا وقت ہے، اور روزہ کھولنا دو طرح پر ہے، ایک تو چھوٹا، جو روز مرہ کے افطار کے وقت ہوتا ہے، دوسرا بڑا، یہ وہ جو رمضان ختم ہونے پر روزہ کھولتے ہیں ، جب سب روزے پورے ہوجاتے ہیں، پس اس پر جو خوشی حاصل ہوتی ہے اس کا ہی نام عید ہے‘‘۔(تسہیل المواعظ، صوم اور عید کی تکمیل ص:۲۶)
عید اسلام کی خصوصیات اور شعائر میں سے ہے، یہ در حقیقت تتمہ ہے رمضان المبارک کا، رمضان کی مبارک ساعتوں میں تربیت پانے والے اللہ کے وہ بندے جو للہ، في اللہ، ابتغاء لوجہ اللہ اپنی زندگی کو شریعت کی روشنی میں بہتر بناتے ہیں، اور رمضان المبارک کے قیمتی اوقات اللہ کی عبادت اورتقوی کے حصول میں صرف کرتے ہیں،اورآخری عشرے میں تو طلب جنت اور رضائے الٰہی کی چاہت اس درجہ شدت اختیار کرلیتی ہے کہ اپنا گھر چھوڑ کر رب العالمین کے دروازے پر جا بیٹھتے ہیں، اور بخشش و مغفرت کا سوال کرتے ہیں،رمضان المبارک کے آخری ایام اور ان کی بابرکت طاق راتیں انہیں مخلصانہ عبادتوں اور دعاؤں میں گزار کر بالآخر اپنے رب کو منا ہی لیتے ہیں، ایسے بندوں کے متعلق اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہوتا ہے: انصرفوا مغفورا لکم قد أرضیتموني ورضیت عنکم (شعب الایمان)کہ تم بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا، اسی حدیث میں آتا ہے کہ فرشتے اللہ کی جانب سے بندوں کو ملنے والی اس عیدی اور انعام پر خوشی سے کھِل اٹھتے ہیں۔
عید الفطر کا دن اسلامی تعلیمات کے مطابق نہایت اہمیت اور غیر معمولی فضائل کا حامل ہے،اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میںرمضان المبارک کے احکام وفضائل بیان کرنے کے فورا بعد فرماتا ہے:ولتکبروا اللہ علی ما ہداکم ولعلکم تشکرون(البقرۃ ۱۸۵)ترجمہ:تاکہ اللہ کی جانب سے تم کو جو ہدایت عطا ہوئی اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اس موقع پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ جل شانہ نے اس آیت میں عید کا بھی ذکر کردیا،عید کا نام تو نہیں آیا، لیکن عید کا مقصد، عید کا وظیفہ، عید میں کرنے کا کام،یہ سب اس میں آگیا کہ جب اللہ تعالی رمضان میں روزے کی توفیق دے ، کہ رمضان آئے اور خیریت کے ساتھ، توفیق الٰہی کے ساتھ، دن کے روزوں کے ساتھ ، رات کی عبادتوں کے ساتھ گزر جائے ’’ولتکبروا اللہ علی ما ہداکم‘‘ اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اللہ نے ہدایت دی، ایمان اور اسلام کی دولت سے نوازا‘‘۔(عیدالفطر کا پیغام، ص:۵) لہذاشریعت اسلامی نے اس بات کو مسنون قرار دیا کہ ایک راستہ سے عید گاہ جائے اور دوسرے راستہ سے واپس آئے، اور اس دوران اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرے،اور آہستہ آواز میں یہ الفاظ دہرائے ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘مزید یہ کہ عید الفطر کے مبارک ومسعود دن کے مقصد کے پیش نظرعید کی واجب نماز میں چھ واجب تکبیرات کا اضافہ کیا گیا۔
مذکورہ آیت اور احادیث کی روشنی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ عید الفطر کے غیر معمولی انعامات اور اس مبارک دن میں خوشی و مسرت کا حق دار وہی شخص ہے جو اپنے طرز زندگی کو تبدیل کرلے اور جس کو مغفرت اور رضائے الٰہی کا پروانہ حاصل ہوجائے، اور جو شخص نافرمانی پر اتر آئے، اور اللہ کے احکام کو نظر انداز کرے ،گناہوں سے ذرا بھی بیزار نہ ہو، بلکہ برائیوں اور قابل ملامت باتوں کو فخر سے بیان کرے اور اس پر عامل رہے،رسول اللہ ﷺکی سنتوں کے ساتھ بے رغبتی کا معاملہ کرے ایسے شخص کی قسمت میں عید کی مبارک خوشیاں نہیں بلکہ روز قیامت کی زلت ورسوائی ہے، حدیث میں آتا ہے’’ ورغم أنف رجل اذا دخل علیہ رمضان ثم انسلخ قبل أن یغفر لہ‘‘ (رواہ الترمذي) کہ وہ شخص ذلیل ہو جس کی زندگی میں رمضان آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر گزر گیا۔اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عید کی خوشیوں کا حق دار تو وہی شخص ہے جس نے رمضان کے مقصد کو پورا کیا،نمازیں قائم کیں، تلاوت کلام اللہ کا اہتمام کیا، اللہ کے عطا کردہ رزق میں سے خفیہ وعلانیہ خرچ کیا نیز یہ کہ مالی اور بدنی تمام عبادتوں کو بخوبی ادا کیا، ایسے بندے کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’’یرجون تجارۃ لن تبور‘‘ (فاطرـ۲۹) کہ یہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں خسارہ نہیں ہے۔
عیدین کے ایام جہاں مسلمانوں کے لئے خوشی ومسرت کا رمز سمجھے جاتے ہیں وہیں پوری دنیا کے تاجروں اور صنعت کاروں کو ان مبارک ایام کا شدت سے انتظار رہتا ہے، جہاں عیدالفطر کے فطرہ اور رمضان کی زکوۃ سے غریب اور لاچار مسلمانوں کے حالات کسی حد تک بہتر ہوتے تو وہیں ان ایام میں ہونے والی خریداری کے ذریعہ سے نہ جانے کتنے بے روزگاروں کو روزگار فراہم ہوتا ہے ، رمضان المبارک میں خرید وفروخت جاری رکھنے کے لئے اسٹاف میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے ،یوں عارضی طور پر ہی سہی،لیکن ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، اور لوگوں کو اضافی آمدنی میسر آتی ہے،خلاصہ یہ کہ عید الفطر کا دن جہاں مسلمانوں کے لئے نہایت بابرکت،محترم اور مسعود ہے، وہیں دیگر اقوام عالم بھی اس کو عزت وعظمت کی نظر سے دیکھتی ہیں،ملکی معیشت اور صنعت کاری پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے،اگر عید کی خریداری کو معیشت سے الگ کردیا جائے تومعیشت کا حجم بہت مختصر رہ جائے گا،عید کے جونمایاںاثرات معاشرہ پر مرتب ہوتے ہیں ان میں اخوت ومحبت اور صلہ رحمی سر فہرست ہیں، دو بھائی اور دو دوست سال سال بھر ایک دوسرے بدظن رہنے کے بعد جب عیدالفطر کی نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں تو ’’ونزعنا ما في صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقابلین‘‘ (الحجر ۴۷)کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالی شریعت کے احکام وہدایات کی روشنی میں عیدالفطر کے واجب ومسنون اعمال ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا شمار ان لوگوں میں فرمائے جن کے متعلق ارشاد ہوتا ہے’’قد أرضیتموني ورضیت عنکم‘‘۔ آمین

۲۷؍رمضان؍۱۴۴۱ھ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×