اسلامیاتسیاسی و سماجی

ایمان کی حفاظت‘ دجالی دور کی سب سے اہم ضرورت

ہم لوگ جس دور سے گزر رہے ہیں یہ دجالی دور ہے۔دجال کے پیروکار ،کفروشرک کے پجاری، نیوولڈآڈرکےقیام کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے ساری دنیا کی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے پر تلی ہوی ہیں

احادیث میں قرب قیامت کی علامات میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ نہر فرات سے سونے کا پہاڑ نکلےگاجس کے حصول کے لیے زبردست رسہ کشی ہوگی جس میں سو میں سے نناوےقتل ہونگے(مسلم۔ ج۔ 3ص7253۔۔ مشکوۃ۔ ج۔2۔ ص۔469)چنانچہ بعض علما کے مطابق یہ سونے کا پہاڑ تیل (پٹرول)کی شکل میں نکل چکا ہے۔ اور دنیا کی بیشتر ضروریات اسی پر منحصر ہونے کی وجہ سے پٹرول پر قبضہ کی جنگ بھی چھڑ چکی ہے، جس کی وجہ سے چہار دانگ عالم میں بے شمار مسلمان قتل ہورہے ہیں
یہ (مادی وسائل پر قبضہ) بھی دجالی حکومت کے قیام کی تیاری کا ایک حصہ ہے۔۔۔۔ اس کے علاوہ ساری دنیا پر قبضہ کے لیے ان لوگوں نے یہ منصوبہ تیارکیاکہ دنیا کی آبادی کم کردی جاے
جس کے لیے انہوں نے دو طریقے اختیار کیے۔
1۔ جنگ کے ذریعے
2۔ مصنوعی وباؤں کے زریعے لوگوں کو ہلاک کیا جاے۔۔

*موجودہ وائرس سماوی یاانسانی؟ *
آج کل جو ساری دنیا میں کرونا کی دہشت ہےیہ انہیں دجالی طاقتوں کی مذکورہ پلاننگ کا ایک حصہ ہے، انہیں کی طرف سے یہ وبا پھیلائ گئی اور پھر میڈیا کے ذریعے اسکا ڈر اور خوف لوگوں میں اس دردجہ بٹھادیا گیا کہ معمولی سی چھینک یا کھانسی سے لوگ اس طرح ڈرنے لگے جیسے وہ بندوق کی گولی یا زہر ہو، پھر اس پر مستزاد یہ کہ لاک ڈاؤن کرکے ساری دنیا کو عملاً بند کردیا گیا
یہی کھیل ہمارے وطن عزیز میں بھی کھیلا گیا کہ اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے یہ حکم دیا گیا کہ جو جہاں ہے وہ وہیں رہے(حالانکہ طریقہ یہ تھا کہ بتدریج پابندیاں لگائ جاتیں، تاکہ جو لوگ اپنے گھروں سے دور کہیں دوسرے مقام پر ہیں وہ اپنے گھر پہونچ جائیں) اس پابندی پر عمل کرتے ہوئے جو لوگ جہاں تھے وہیں رک گئے۔۔۔ لیکن اس موقع پر پھر شیطانی طاقتیں متحرک ہوئیں اور انہوں نے اسلام کو بدنام کرناشروع کردیا کہ مسلمانوں کے فلاں طبقہ کے فلاں مقام پر جمع رہنے سے یہ بیماری پھیل رہی ہے یعنی مسلمانوں نے یہ بیماری پھیلائ۔۔
چونکہ دجل کے معنی ہی مکر و فریب اور دھوکہ دہی کے ہیں، اور دجالی سونچ اور فکر بھی یہی ہے کہ جعل سازی کے ذریعے اچھے کو خراب اور خراب کو اچھا بناکر پیش کیا جاے، اس لیے منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو اور ان کے ایک مخصوص گروہ کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں اس بیماری کے پھیلنے کا سبب قرار دیا گیا( اور ابھی بھی یہ کوشش جاری وساری ہے) تاکہ عوام کے ذہنوں میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوں۔۔ اور عام طبقہ اس جماعت سے متنفر ہوجاے
اور یہ لوگ اپنے اس منصوبے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوے۔۔۔۔۔ کہ کچھ مسلمان بھی اسی جماعت کو قصوروار گرداننے لگے ،

مسلمانوں کی ذمہ داری
ایسے پرفتن ماحول میں مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہےکہ وہ اپنے ایمان کی فکر کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اسلام کی بدنامی کا اندیشہ ہو، دین کو زندہ رکھنے کی جو فکریں 24گھنٹےاجتماعی طور پر ہوتی تھیں اب اپنے مقام پر رہ کر وہ فکر کریں، مایوس نہ ہوں، کہ۔۔۔ مایوسی اہل کفر کا وطیرہ ہے(سورۃ یوسف/آیت 87) حالات خواہ کتنے ہی مخالف ہوں ذرا بھی نہ گھبرائیں، حالات کے لحاظ سے جتنا کرسکتے ہیں کریں۔۔ دین کی حفاظت کی ذمہ داری تو الله رب العزت نے لے رکھی ہے(سورۃ الحجر/آیت 9) اس لیے دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتا۔۔۔۔۔۔ ہاں! حالات کی سنگینیوں سے لوگ اسلام سے پھر سکتے ہیں اس لیے ایسے حالات میں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے، آزمائش اگر جان پر یا مال واسباب پر آے تو یہ بڑی آزمائش نہیں، بلکہ اگر دین وایمان پر آزمائش آے اور ہمارا تعلق ایمان اور اہل اسلام سے ختم ہوجاے تو یہ بڑے خسارے والی بات ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن کے دجل وفریب کاشکار ہوکر لاک ڈاؤن کے بعد بھی مسلمان اس جماعت کو اور اس کے کاز کو برا سمجھتے ہوے مخالفت ومتارکت پر اتر آئیں۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہواتو یہ بڑے ہی خسارے والی بات ہوگی۔ الله محفوظ رکھے۔

حفاظت ایمان کی کوشش الله کو بہت پسند ہے:

ایسے حالات میں ایمان کو سنبھالے رکھنا، اسلام اور اہل اسلام کا دفاع کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے، اسی لیے وہ چند مخلص بندے جنہوں نے اپنا ایمان بچانے کی خاطر کہف نامی غار میں پناہ لی تھی ، الله رب العزت نے اپنے کلام پاک میں(سورۃ الکہف/آیت.9تا22میں)انکا تذکرہ کرکے انہیں تاریخی بنادیا. نیز ان کے غار کے نام سے ایک مکمل سورۃ نازل فرمادی۔۔۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق جمعہ کے دن اس سورۃ کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت دجالی فتنوں سے بچاوکا موثر ذریعہ ہے(مسلم شریف:809/2937) اسی لیےموجودہ دور میں ہر دن کم از کم ایک بار ان آیات کی تلاوت کا اہتمام ہر شخص کو کرنا چاہیے۔

موت و زندگی کامالک الله ہے
آج لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ رزق کے لیے پریشان ہیں موت کی آہٹ محسوس کررہے ہیں، اس موقع پر بھی اپنا ایمان مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی رازق الله ہے موت وحیات کا مالک الله ہے،حدیث نبوی ﷺ ہے:کوئی شخص اپنا مقدر شدہ رزق مکمل کرنے سے پہلے مر نہیں سکتا،(میزان الاعتدال. ج/3.ص۔ 256)
اسی طرح کوئی شخص اپنے مقررہ وقت سے پہلےمر نہیں سکتا(سورۃ النحل/آیت 61) ایک مسلمان کایہی ایمان ہونا چاہیے۔
ہمارے سامنے ایمانداروں کے بھی حالات ہیں اور ایمان فروشوں کے بھی، ہم ایمان والوں کے حالات کا مطالعہ کریں۔ صحابہ وصحابیات رضی الله عنہم کے حالات کا مطالعہ کریں ، ان پر جو حالات آے ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اس کے مطالعہ سے ہمارے ایمان میں پختگی آےگی اور الله پر یقین میں اضافہ ہوگا
آج کل لوگ کہ رہے ہیں کہ:جان سلامت تو جہاں سلامت۔۔ لیکن اس سے اہم یہ بات ہے کہ:ایمان سلامت تو دونوں جہاں سلامت۔ اس لیے اصل اور حقیقی دولت کی سلامتی کی فکر ہونی چاہیے۔

یہ دنیا دھوکہ ہے
ایمان کے مقابلہ میں دنیا اوراسکی چمک دمک کی کوئی حیثیت نہیں، ایک وقت آےگا کہ ہر شخص کہے گا::
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
اور دنیاوی زندگی حقیقیۃ ًایک خواب ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے:الناس نیام فاِذا ماتو انتہبوا(الدررالمنتثرہ للسیوطی/133) کہ سارے لوگ سوے ہوے ہیں، موت ہی انہیں نیند سے بیدار کریگی
اس لیے موجودہ دور کے حکمرانوں کی طاقت ودبدبہ سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، کہ۔۔۔۔۔ یہ ایک مسلمان کاشیوہ نہیں ان جیسے ہزاروں ظالم وجابر حکمران آے اور چلے گئے اسی طرح ایک دن یہ بھی ختم ہو جائیں گے
اس لیے دل میں دنیا کی بے وقعتی پیدا کریں اور الله رب العزت کی کبریائی انکی بادشاہت اور انکی عظمت دل میں پیوستہ کریں، قرآن واحادیث کا مطالعہ کریں جس سے الله کی بڑائی دل میں جاگزیں ہوگی، جب دل الله کی عظمت وہیبت سے معمور ہوگا تو دنیا کی ساری طاقتیں ہیچ معلوم ہونگی اور ایمان بھی پختہ ہوگا

مسلمانوں کی ہلاکت کا سبب
آج اسلام دشمن طاقتیں جو مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے درپے ہیں اس کے بنیادی سبب کی جانب آج سے دیڑھ ہزار سال قبل الصادق المصدوق ﷺنے اشارہ فرمادیا تھا، آپﷺ نے فرمایا تھا:*یوشک الأمم ان تداعی علیکم کما تداعی الأکلۃ اِلی قصعتہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ولیقذفن اللہ فی قلوبکم الوھن، فقال قائل:یارسول اللہ، وماالوھن؟ قال:حب الدنیا وکراھیۃ الموت (ابوداؤد/4297)
کہ جس طرح لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اسی طرح لوگ چہار جانب سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور یہ مسلمانوں کی قلت تعداد کی بنا پر نہیں ہوگا بلکہ وہن نامی بیماری (دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت) کی وجہ سے ہوگا
آج یہ دونوں چیزیں مسلمانوں میں عام ہیں ، آج جتنا ہم وائرس سے سہمے ہوے ہیں اس سے کہیں زیادہ وہن سے ڈرنے اور سہمنے کی ضرورت ہے اپنے دلوں سے اس بیماری کو نکال پھینکنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کفریہ دجالی طاقتوں کوان کے مذموم مقاصد میں ناکام کر سکیں۔

خلاصہ
یہ ہےکہ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے ہم پر حالات آے ہوے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ
1۔ ہم اپنے ایمان (الله سے اپنے تعلق ) کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔
2۔ اپنے اخلاق سدھاریں
3۔ سلامتی ِ ایمان کی دعا خصوصاً۔۔ یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینکاور اس جیسی دعائیں روز مرہ کا معمول بنالیں
4۔ سنت نبوی ﷺ سے اپنی زندگیوں کو آراستہ کریں
5۔ اسلام کے خلاف پھیلاےجانےوالےگمراہ کن پروپیگنڈوں کاشکار ہونے سے بچیں
6۔ دن میں ایک بار کم از کم سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات کاورد کریں

الله توفیق عمل دے

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×