سیاسی و سماجی

مولانا کلیم صدیقی مقدمہ۔ سرکاری سیاست کا شکار

تقریبا تین ماہ قبل جون 2021 میں اترپردیش پولیس کی اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررزم اسکواڈ) نے اسلامک دعوہ سینٹر سے منسلک دو افراد مولاناعمرگوتم اور جہانگیر قاسمی کو ہزاروں ہندووں کا غیر قانونی طریقے سے اسلام مذہب قبول کروانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا،الزامات میں دھوکہ دھڑی، سازش، دومذہبی فرقوں کے درمیان نفرت و دنگہ بھڑکانے کی کوشش اور لالچ و ڈرا دھمکاکر غیرقانونی طریقے اپنا کر مذہب تبدیل کرانے کی دفعات شامل کی تھیں، بعد میں ملک مخالف و ملک کی سالمیت و اتحاد کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات بھی شامل کردیے گئے تھے، اب اسی ایف آئی آر اور ان دفعات کے تحت ملک کے معروف عالم دین مولانا کلیم صدیقی کو بھی اے ٹی ایس اترپردیش پولیس نے گرفتار کرلیا ہے، عدالت نے پوچھ تاچھ کے لئے مولانا کو پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا ہے، اب تک اس مقدمے میں کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق کل اگیارہ افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں، جب کہ تین دیگر افراد مبینہ طور پر اے ٹی ایس کی غیرقانونی حراست میں ہیں جن کے سلسلے میں ابھی تک اے ٹی ایس نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری جس پراسرار انداز میں کی گئی ہے وہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے، یوپی پولیس و اے ٹی ایس کے اعلی افسران نے مولانا کی گرفتاری کا اعلان اگلے روز تین صفحات پر مبنی پریس نوٹ جاری کرکے کیا، اس پریس نوٹ کے آنے تک مولانا کے اہل خانہ کو کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی، یہ پریس نوٹ میڈیا کو دیا گیا جس کا واحد مقصد میڈیا ٹرائل کے ذریعے مولانا کلیم صدیقی کی شخصیت و خدمات کومشکوک و مجروح کرتے ہوئے، ملک میں ہندومسلم باہمی تعلقات کو نفرت کی آگ میں جھونکنا ہی حکومت و حکومتی اداروں کا مقصد محسوس ہوتا ہے، اے ٹی ایس کے ذریعہ جاری کردہ پریس نوٹ کو ایک سنسنی خیز و نفرت آمیز انداز میں پیش کرتے ہوئے جلے حروف میں اوپرلکھا گیا : “ غیرقانونی طور پر تبدیلی مذہب کا ملکی پیمانے پر چلانے والے سنڈیکیٹ اور تبدیلی مذہب کے لئے غیر ممالک سے بذریعہ حوالہ فنڈنگ کرانے کا ملزم اترپردیش اے ٹی ایس کے ذریعے گرفتار، شریعت کے مطابق نظام قائم کرنے کے مقصد سے آبادی کا تناسب بدلنے کے مقاصد کے ساتھ کرواتا تھا تبدیلی مذہب، دیش بھر میں کئی مدرسوں کی فنڈنگ کرکے تبدیلی مذہب کا ایک غیر قانونی نیٹ ورک تیار کیا ہے۔”
اے ٹی ایس کی پریس ریلیز کا انداز اور استعمال کئے گئے جملوں اور الفاظ کو تقریبا اسی انداز میں استعمال کرتے ہوئے میڈیا نے ایک ساتھ پورے ملک کی فضا کو مسلم مخالف ماحول میں تبدیل کردیا، ایک بے لگام میڈیا ٹرائل شروع کرکے ہندو سماج کو یہ ڈراونا پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان علما اور ان کے ذریعے چلائے جانے والے مدارس اس ملک میں ہندو آبادی و نظام حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اس پورے ڈرامے میں میڈیا اور پولیس کا کردار بہت حد تک یکساں رہا ہے۔ تبدیلی مذہب کے نام پر یہ پورا سیاسی کھیل اس وقت شروع ہوا ہے جب اترپردیش میں اسمبلی الیکشن کی تیاریاں زوروشور سے شروع ہوچکی ہیں، یقینا یہ پورا ڈرامہ ووٹوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں پوری طرح کامیاب ہوگا، فرقہ وارانہ سیاست کے اس پورے کھیل میں سب سے اہم کردار میڈیا کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا کو دی گئی پریس ریلیز کے مقابلے میں عدالت میں داخل کی گئی درخواست برائے پولیس ریمانڈ نصف حصہ ہی تھی، کیونکہ عدالت میں پیش حقائق پر سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس مقدمے کی شروعات میں ہی جب کہ پولیس اپنی تفتیش کے ابتدائی مراحل میں تھی، اسی وقت سے نیشنل میڈیا خصوصا ہندی میڈیا کے مقاصد کوسمجھنے کے لئے ہندی روزنامہ دینک جاگرن کی رپورٹ بتاریخ 23 جون 2021 کافی ہے جس نے مولانا عمر گوتم کی گرفتاری کی رپورٹ بنائی تھی کہ “بہرے گونگے بچوں کو انسانی بم بناکر ملک میں دھماکوں کی تھی سازش” نیز پاکستان اور سعودی عرب سے اس کے لئے فنڈنگ ہورہی تھی، آئی ایس آئی سے مل کر ہورہی تھی سازش وغیرہ، اسی قسم کی سنسی خیز اور فرقہ وارانہ خبریں کئی روز تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چلتی رہی تھیں جو ایک بار پھر سے شروع ہوگئی ہیں، جس نے پورے سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کی تھی، بیشک گرفتاری عمل میں آتے ہی میڈیا و سوشل میڈیا میں ایک ہنگامہ برپا کردیا جاتا ہے، اس پورےڈرامے کی اسکرپٹ کہاں اور کس کے اشارے پر تیار کی جاتی ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن اس اسکرپٹ کو ریلیز ہماری پولیس ایجنسیاں کرتی ہیں جن پر میڈیا ٹرائل شروع کردیتی ہیں۔
ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ سیاست اور ان مقاصد کی تکمیل کے لئے بے گناہوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا گھناونا کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن پہلے یہ بے گناہ مدارس کے معصوم طالب علم ہوا کرتے تھے، پھر معمولی استاد اور امام ہونے لگے، لیکن اب ایجنسیوں کے نشانے پر قوم کی مذہبی قیادت ہے، کرونا مہاماری کے دوران تبلیغی جماعت کے روح رواں مولانا سعد صاحب جیسی عظیم شخصیت کو جس آسانی سے سیاسی کھیل کا نشانہ بنایا گیا، مرکز پر لگا سرکاری تالا ابھی کھلا بھی نہیں تھا کہ تبدیلی مذہب کے نام پر مذہبی رہنماوں کا سیاسی شکار شروع ہوگیا، مذہبی و سماجی اداروں کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی تشویشناک رہی ہے، دستوری حقوق کا تحفظ ہماری کوششوں سے ہی ممکن ہوسکتا ہے، بیشک ہمارے ملک میں نظام عدلیہ موجود ہے، اگر میڈیا ٹرائل کے ذریعے سماج میں نفرت کا بیج بونے کی کوشش ہورہی ہے یا پولیس ایجنسیوں کا میڈیا ٹرائل میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں تو ایسے حالات میں سماجی و مذہبی اداروں کی کیا دستوری اور اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہیں؟ ہم نے ایسے بہت سے مقدمات دیکھے ہیں جب عدلیہ نے پولیس اور میڈیا کی سرزنش بھی کیں لیکن افسوس کہ ہم نے ان تمام ہی مقدمات اور فیصلوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، آج بھی ہمارے اکثر وبیشتر سماجی و مذہبی اداروں کے پاس پریس ریلیز اور پریس کانفرنس کے علاوہ مستقبل کا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔
مولانا کلیم صدیقی اور اس مقدمے کے دیگر تمام دس ملزمین کے خلاف اے ٹی ایس کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ موجود نہیں ہیں، مذہبی ادارے قائم کرنا اور اپنے مذہب کی تعلیمات کو پھیلانا، تبلیغ و اشاعت کرنا، اپنی مرضی سے مذہب قبول کرنے والے افراد کے قانونی کاغذات تیار کروانا، شرعی قوانین پر عمل کرنا نیز اس پر عمل کرنے کی تاکید کرنا، مذہبی اداروں یا سرگرمیوں کے لئے غیرممالک سے فنڈنگ حاصل کرنا ہمارے ملک میں جرم نہیں ہے بلکہ یہ دستور ہند میں تحریر بنیادی حقوق میں شامل ہیں، البتہ شرط یہ ہے کہ یہ فنڈنگ اور اس فنڈنگ کا استعمال غیرقانونی طریقوں سے حاصل نا کی گئی ہوں نیز غیر قانونی سرگرمیوں میں اس کا استعمال نا کیا گیا ہو، مولانا کے پاس ایف سی آر اے کے تحت غیر ممالک سے فنڈنگ لینے کی اجازت تھی، جو بھی فنڈ آئے اور جہاں بھی استعمال ہوئے اس کی مکمل تفصیلات نیز آڈٹ رپورٹ موجود ہیں، کسی بھی طرح سے دستور و مروجہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔
نظام عدلیہ کی سست رفتاری انصاف حاصل کرنے کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے، سپریم کورٹ نے بارہا اپنے فیصلوں میں تیزرفتار عدالتی کاروائی کو قیدیوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے، انصاف کا بنیادی تقاضہ ہے کہ ملزم کو جرم ثابت ہونے تک جیل میں نہیں رکھا جانا چاہیے، لیکن ہماری جیلوں میں چار لاکھ سے زائد قیدی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جن میں اکثریت زیرسماعت ملزمین کی ہے، آج تک ہمارے ملک میں فرائض سے کوتاہی برتنے پر پولیس کی جوابدہی طے نہیں ہوسکی ہے، سالہا سال تک مقدمات کے تصفیہ میں ناکام رہنے والی عدلیہ آخر جوابدہی سے آزاد ہے، طویل عرصے کے بعد بے گناہ ثابت ہونے کے بعد بھی ہمارے ملک میں معاوضے یا بازآبادکاری کی کوئی پالیسی نافذ نہیں ہوسکی ہے۔ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں پولیس، میڈیا اور عدلیہ کی جواب دہی طے ہو، قانون کا غلط استعمال یوں ہی فرقہ وارانہ سیاست کا ذریعہ بنا رہا تو ہمارے ملک اور سماج میں ہندو مسلم سیاست کا سرکاری کھیل یوں ہی جاری رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×