اسلامیات

زاویہ سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ( کرونا وائرس سے عبرت کے آئینہ میں)

اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو مجبور محض بنایا نہ مختار کل ،اگر مجبور محض بناتا تو ہر معاملہ میں یہی نعرہ ہوتا ہم تو مجبور ہیں ہمارے بس میں کچھ نہیں،اوراگر مختار کل پیدا کرتاتواس میں عبدیت کے معنی نہ پایا جاتا،زندگی کے شب وروز میں اجبار واختیار کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے،چناچہ اللہ نے انسان کو ایسے انداز میں تخلیق کیا ہے جس سے وہ زندگی میں خدا کی مرضی ونامرضی کو مد نظر رکھ کر اختیاری معاملہ میں فیصلہ کر سکے،اور اسی میں اانسان کا امتحان مستور ہے،اور غیر اختیاری معاملہ میں وہ خدائی فیصلوں کا محتاج ہوتا ہے، جس سے اسکی مجبوری جھلکتی ہے۔اللہ نے قرآن پاک میں مومنین کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہم انہیں چند باتوںمیں سے کچھ آزمائیں گے ،ارشاد باری تعالی ہے ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات (پارہ ۲)اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے الم احسب الناس ان یترکواان یقولوا امنا وھم لایفتنون(پارہ ۲۰)اسی طرح حدیث پاک میںایک صحابی ؓ کا واقعہ نقل کیا ہے جس میں انہوں نے آپﷺ سے عرض کیا مجھے اللہ ورسول سے محبت ہے جوابا نبی رحمت ﷺ نے تین دفعہ ان صحابی ؓ سے یہ الفاظ دہرائے اور فرمایا پھر حالات سے مقابلہ کیلئے تیار ہوجاو،جو بندہ اللہ ورسول سے محبت والفت کا دم بھرتا ہے اس کی طرف حالات ایسے آتے ہیں جیسے اونچائی سے نیچائی کی طرف جس تیزی سے پانی آتا ہے۔اور یہی حالات اسکے مخلص ومنافق ہونے کا پیمانہ ہوتے ہیں،بے شمار نظائر کتب سیروتاریخ میں اس سلسلہ کی مذکور ہیں،اسی لیئے انسانی زندگی میں خلاف طبیعت حالات وواقعات کا آنا کوئی اچھنبی بات نہیںہے۔تاہم کاروان حیات کے اس سفر میں دیگر مخلوقات سے بشریت کو جو چیز یں ممتاز کرتی ہیں،ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ حالات سے عبرت ونصیحت اور سبق لیکرماضی کی کوتاہیوںسے کنارہ کش ہوجائے،اورمستقبل میں اسکے اعادہ سے باز رہے۔موجودہ وقت میں جووباء بنام کرونا وائرس صبح وشام زبان زد خاص وعام ہے، اس سے محفوظ رہنے کیلئے بنیادی طور پر جن باتوں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔
اس میں ایک لفظ ’’احتیاط ‘‘ بھی ہے ، طبی نقطہ نظر سے انسان کوجہاں اسکی جان کے تحفظ کی خاطر نقصان دہ چیزوں سے احتیاط کرنے کو کہا جاتا ہے ،اور کہاجارہا ہے ،وہیں شرعی طور پر بھی خدا ورسولﷺ نے بہت ساری باتیںایسی تعلیم فرمائی ہیں جن میں احتیاط برتنے کو تحفیط ایمان کا سبب بتایا ہے۔بحیثیت انسان۔۔۔انسان کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تر چیز اسکی جان ہوتی ہے ،اور بحیثیت مسلمان۔۔۔ مسلمان کے یہاں جان سے بھی زیادہ گراں قدر نعمت اسکا ایمان باللہ ورسولہ ہوتا ہے ۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ انہوں فر مایا لوگ کہتے ہیں جان ہے تو جہاں ہے میں کہتا ہوں ایمان ہے تو دو جہاں ہے۔لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہم مسلمان اس وباء میں جس قدراپنی جان اور صحت کی حفاظت کی متعلق فکرمند ہیں ،کیا وہیں اپنے ایمان و سلامتی عقیدہ کے حوالہ سے اُسی طرح دردمند ہیں۔اس وباء میںجہاں جان کی حفاظت کی خاطرہم حد درجہ احتیاط کرتے ہیںکہ کہیںدوسروں کے جسم سے ہمارا کوئی عضو مس نہ ہو جائے اور جان کے لالے نہ پڑ جائے،تو کیا وہیں ہم ایمان کی حفاظت کی خاطر خدا ورسول ﷺکے دشمنوں کی طرز زندگی اور انکی تہذیب وتمدن سے بیزار ہیں کہ کہیں ہمارا ایمان اس سے آلودہ نہ ہوجائے،اس وبا ء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطردوسروں سے مصافحہ ومعانقہ سے پرہیز کررہے ہیں، تو کیاہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطر دوسروں کے اموال کو اسکی رضاء کے بغیر استعمال سے گریز کررہے ہیں؟ ،اس وباء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطر دوسروں کی چیزوں کو چھونے سے علیحدہ رہ رہے ہیں ، تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطر دوسروں کی بیٹیوں سے خفیہ آشنائی سے محفوظ رہ رہے ہیں ،اس وباء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطر وباء زدہ اور پُر خطر ماحول میں جانے بچ رہے ہیں ،تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطر معصیت بھرے ماحول اور خدا ورسول کے قہر زدہ جگہوں میں گزرنے سے مامون ہیں ،اس وباء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطر اپنے مکان میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں ،تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطر دینی ماحول اور مساجد میں بھی اپنے اوقات کو گزار رہے ہیں ،اس وباء میں ہم اپنی جان کی حفاظت کی خاطر لمحہ بہ لمحہ اطباء وحکماء کی رہبری کو ناگزیر گردان رہے ہیں ،تو کیا ہم وہیں ایمان وعقیدہ کی حفاظت خاطر علماء وصلحاء سے رہنمائی حاصل کر نے کوصیغہ حیات میں داخل کر رہے ہیں،اس وباء میں ہم جہاں وباء سے متاثر فرد کی جان بچانے کی جتنی فکر کررہے ہیں ،تو کیا وہیں ہم ایمان کی حفاظت کی خاطر اپنے بھائی کوبے دین زندگی گزارنے سے بچانے کی سعی کررہے ہیں ،اس وباء میں ہم ڈاکٹروں کو اپنا محسن اور ہمدرد سمجھ کر انکی خدمات کو سر آنکھوں پر رکھ رہے ہیں ،تو کیا ہم وہیں اہل علم واہل ذکرطبقہ کو اپنا مسیحا سمجھ کر انکی خدمات کی قدر کرہے ہیں جو انہوں نے ملک کے تحفظ اور اسلام کی آبیاری کی خاطر دی ہیں ،اس وباء سے ہم جان کی حفاظت کی خاطر اپنے ماتحت افراد خاندان اور اہل تعلق نیزحلقہ احباب کو احتیاط کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں ، تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطرانہیں سلامتی ایمان وعقیدہ کی تعلیم دے رہے ہیں ،اس وباء کو ہم دشمن جان خیال کررہے ہیں ،تو کیا وہیں ہم شیطان ونفس کو عدو ایمان تصور کررہے ہیں ، اس وباء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطر احتیاط کو لازمی قرار دیتے ہیں ، تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطر بدی سے احتیاط کو لابدی جان رہے ہیں ،اس وباء میں جہاں جان کی حفاظت کی خاطرہماری خواتین ماسک وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں ، تو کیا وہیں وہ لوگ ایمان کی حفاظت کی خاطرشرعی پردہ کو بھی قابل عمل سمجھ رہے ہیں ،اس وباء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطر بازاری مشروبات وماکولات کو ترک کررہے ہیں ،تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطر بازار کی غیر شرعی مصنوعات وملبوسات وغیرہ کو نظر انداز کر رہے ہیں،اس وبا ء میں ہم جان کی حفاظت کی خاطر بادل نا خواستہ ہی سہی حکومتی گائیڈ لائن کی پاسداری کررہے ہیں ، تو کیا ہم وہیں ایمان کی حفاظت کی خاطربحضور قلب و خلوص نیت خدا ورسول کے احکامات اور کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کررہے ہیں ،اس وباء میں ہم مالی نقصان پر رنجیدہ خاطر ہو رہے ہیں ،تو کیا ہم وہیں اعمال کے ضائع ہونے پر بھی افسوس کر رہے ہیں ،اس وباء میں ہم اپنے ہاتھ اور چہرہ کوفضائی آلود گی سے بچنے کی غرض سے دن میں کئی دفعہ دھورہے ہیں ، کیا کبھی ہم وہیںاپنے دل کو معصیت کی آلودگی سے پاک کر نے کیلئے ندامت وشرمندگی کے آنسووں سے دھو رہے ہیں ،یہ بات سو فیصد مبنی بر حقیقت ہے کہ جان کی حفاظت فرض عین ہے اور تعلیمات نبوی اس سلسلہ میں موجود ہیں ،لیکن غور طلب پہلو یہ کہ ایمان وعقیدہ کی بھی ویسی ہی فکر کی جارہی ہے جیسے جسم وجان کی فکر ہورہی ہے ہمیں اس وبا ء سے یہ عبرت لیکر اپنی عقبیٰ کو سنوارنا ہے ،اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×