سیاسی و سماجی

کھرگون سے جہانگیر پوری تک

جہانگیر پوری اس داستان کانیا عنوان ہے جو اس ملک میں گزشتہ 75 برسوں سے دہرائی جارہی ہے۔اس داستان کے کردار ضرور بدلتے رہتے ہیں،لیکن سلسلہ واقعات ہمیشہ یکساں رہتا ہے۔مسلمانوں نے حملہ کیا، پتھر برسائے اور گھروں میں قید ہوگئے۔اس کے بعد پولیس آتی ہے اور وہ سنگین دفعات میں گرفتار کرکے انھیں جیل بھیج دیتی ہے۔ میڈیا ملزمان کے خلاف نت نئی کہانیاں ایجاد کرتا ہے اور ملک دشمنی کا مقدمہ بناتا ہے۔جس کو پولیس عملی جامہ پہنانے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتی۔اب اس میں ایک نئی چیزشامل ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ حکومت’فسادی مسلمانوں‘ کے گھروں پر بلڈوزر چلاکر انھیں نیست ونابود کرنے لگی ہے تاکہ برسوں بعدجب وہ ملک دشمنی کے الزام سے بری ہوکر باہر آئیں تو ان کے پاس سر چھپانے کا آشیانہ بھی نہ ہو اور وہ ساری عمر دیواروں سے سر ٹکراتے رہیں۔ کھرگون کے بعد جہانگیر پوری میں بھی مظلوم مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلے ہیں اور ان کے زندہ رہنے کے اسباب چھین لئے گئے ہیں۔ مسلمان اس وقت سخت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا ان کے خلاف اعلان جنگ کردیا گیا ہو۔
آج ملک میں جن مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا ہے، وہ دراصل ان لوگوں کے وارث ہیں جنھوں نے 1947میں پاکستان جانے کی بجائے ایک سیکولر جمہوری ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ایک اسلامی مملکت کی بجائے ایسے ملک میں زیادہ محفوظ رہیں گے جہاں کا دستور سیکولر ہوگااور سب کو برابری کے حقوق حاصل ہوں گے۔جہاں مذہب،زبان، رنگ ونسل اور ذات پات کے نام پر کوئی ’بھید بھاؤ‘ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ان کا خیال درست ثابت نہیں ہوا۔آزادی کے دوسال بعد سیکولرازم کی پہلی آزمائش اجودھیامیں شروع ہوئی۔ دسمبر1949میں 450 سالہ قدیم بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اس وقت یوپی کے وزیراعلیٰ گووند ولبھ پنت سے جب ان مورتیوں کو ہٹانے کے لیے کہا تو انھوں نے ہاتھ کھڑے کردئیے۔یہ آزاد ی کے فوراً بعد اس ملک کے سیکولرازم کے خلاف رکھی گئی پہلی اینٹ تھی جس کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے۔ بابری مسجدکی اراضی عالیشان رام مندر بنانے کے لیے سپریم کورٹ نے ان لوگوں کو سونپ دی ہے جنھوں نے زورزبردستی مسجد میں مورتیاں رکھی تھیں اور عددی طاقت کے زعم میں مسجد کو شہید کیا تھا۔
آج مسلمان خالی ہاتھ ہیں مگراس سانحہ کے بعد ان کی دیگر مسجدوں پر بھگوا پرچم لہرانے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ میں جھگڑا اسی وقت شروع ہوا جب ہنومان جینتی کے جلوس میں شامل بجرنگ دل اور وشوہندو پریشد کے فسادیوں نے مقامی مسجد کے دروازے پر بے ہودہ ڈانس کرکے وہاں زعفرانی جھنڈا پھیرانے کی کوشش کی اور مسجد پر شراب کی بوتلیں پھینکی گئیں۔ مسجد کے بزرگ امام کا کہناہے کہ جب مسجد کی بے حرمتی کی گئی تو ہمارے بچوں کو برداشت نہیں ہوا اور وہ بے قابو ہوگئے۔ اس کے بعد کی کہانی تو گودی میڈیا نے خوب بڑھاچڑھا کر بیان کی ہے اور مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ حکمراں جماعت اور پولیس نے ایسی تمام کہانیاں تخلیق کرلی ہیں جو مسلمانوں کو ہی بدی کی طاقت ثابت کرنے کے لیے گودی میڈیا رات دن اپنے ناظرین کو بے شرمی کے ساتھ پروس رہا ہے۔بار بار یہی کہا جارہا ہے کہ مسجد سے حملہ ہوا اور ہنومان یاترا میں شامل’امن پسند‘ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ گودی میڈیا نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ شام کو افطار کے وقت تلواروں، خنجروں اور ترشولوں کے ساتھ مسجد کے دروازے پر ڈانس کرنے اور مسلمانوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرنے والے کون تھے؟ بلا اجازت خطرناک ہتھیاروں، خنجروں اور تلواروں کے ساتھ یاترا نکالنے والوں کے خلاف پولیس نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ گودی میڈیا اور پولیس نے ظالموں کو مظلوم اور مظلوموں کو ظالم بنانے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا دیا ہے۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو مسجدوں پر حملوں اور ان پر بھگوا جھنڈا پھیرانے کی کوششوں میں اچانک اضافہ ہی ہوگیا ہے۔جہانگیرپوری سے قبل ملک کے کئی حصوں میں مسجدوں اور مزاروں پر بھگوا جھنڈے پھیرائے گئے ہیں۔ یہ کوششیں دراصل ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے جانبدارانہ فیصلے کے بعد اچانک بڑھی ہیں۔ شرپسندوں کو یہ حوصلہ ضرور ملا ہے کہ وہ کسی بھی مسجد کو ناپاک کرکے اس پر قبضہ کرنے کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ سرکاری مشنری اور عدالتیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اجودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر قبضہ کرنے کے اعلانات وہ لوگ کررہے ہیں جو آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا کر اقتدار میں آئے ہیں۔مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر اتروانے کی کوششوں نے بھی رفتار پکڑلی ہے۔اذان کی ضد میں مسجدوں کے سامنے ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار کے آثار مٹاکر وہاں مندر تعمیر کرنے کے لیے دہلی کی عدالتوں میں بار بار عرضیاں گزاری جارہی ہیں۔
کئی برس پہلے ایک عرب ملک کے سفیر نے مجھ سے دریافت کہا تھاکہ مجھے دہلی میں اونچی کرسی والی تاریخی مسجدیں بہت متاثر کرتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم بادشاہوں نے ایسے بلند مقامات پر مسجدیں تعمیر کی ہیں کہ وہ بہت دور سے نظر آتی ہیں۔ دراصل مسجدوں کی یہ بلندی اور ان کے مینارے ہی فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کے نشانے پر ہیں۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے ان بلند میناروں کو زیرکرنا ضروری ہے تاکہ اپنی فتح اور اس طاقت کا احساس کرایا جاسکے جس کی بانگی حال ہی میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے دی ہے۔ انھوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ کہہ کر ڈنڈا رکھنے کی نصیحت دی ہے کہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہیں۔ مگر وہ یہ بتانا بھول گئے ہیں کہ اگر آپ بلاوجہ کسی چڑیا کے گھونسلے میں بھی ہاتھ ڈالیں گے تو وہ چونچ ضرور مارے گی۔قدرت نے اپنا دفاع کرنے کی فطری طاقت سبھی کو دی ہے۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں مسلمانوں کو حاشیہ پر پہنچانے کی جو مہم چل رہی ہے، اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔پوری منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو یہ احسا س دلایا جارہا ہے کہ وہ اس ملک میں بالکل تنہا ہیں۔ یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پورا ملک ہندتواکے سیلاب میں غرق ہوچکا ہے۔ یہ دراصل مسلمانوں کو بیگانہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ وہ فسطائی طاقتوں کے آگے سرنگوں کردیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ آج بھی برادران وطن کی وہ کثیرتعدادجس کے ساتھ آپ کا ہروقت واسطہ ہے، اب بھی گمراہ نہیں ہوئی ہے۔آج بھی بے شمار لوگ بلاتفریق مذہب وملت ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہیں۔ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں نے رام نومی اور ہنومان یاترا پر بھول برساکر برادران وطن کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں نے ہنومان جینتی کی یاترا میں شریک لوگوں کو شربت اور ٹھنڈاپانی پلایا ہے۔ اس قسم کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ برادران وطن کا بڑا طبقہ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ اگر ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوئے تو اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لیے وہ بھی پرامن بقائے باہم کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ابھی امید کی کرنیں باقی ہیں۔ ناامیدی اور مایوسی کفر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی طاقت وقوت کو سمیٹ کر عمل کے میدان میں سرگرم ہوں۔ وہ فضول کاموں سے گریز کرکے اپنی پوری توجہ تعلیم وتربیت پر مرکوز کردیں۔وہیں سے مستقبل کی تعمیر ہو گی۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھی امید کی کرنیں چمک رہی ہیں۔شرط صرف ان کا ادراک کرنے کی ہے۔بقول امیرقزلباش

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×