ربیع الاول کی آمد کے ساتھ مسلمانوں میں ایک غیر معمولی جوش دیکھا جاتا ہے، ہر طرف سیرت النبیؐ کے جلسوں کا ایک سماں بندھ جاتا ہے، جگہ جگہ جشن کا منظر نظر آنے لگتاہے، لوگ غیر معمولی جوش وخروش کے ساتھ جلسہ ہائے سیرت میں شرکت کرتے ہیں،ہر محلہ میں محافل میلاد النبیؐ کا انعقاد عمل میں آتا ہے، سیرت النبیؐ کے ان جلسوں کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن سیرتِ رسولؐ سے متعلق ہماری ذمہ داریاں صرف جلسوں کے انعقاد سے ختم نہیں ہوتیں، سیرت کے جلسوں کے مثبت اثرات کے ساتھ ان کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ مسلمان صرف جلسوں کے انعقاد ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں،جبکہ سیرتِ رسولؐ سے وابستگی مسلمانوں پر عظیم ذمہ داری عائد کرتی ہے۔
اس وقت امت ایک نازک موڑ سے گذر رہی ہے، اس کی عزت ذلت میں تبدیل ہوچکی ہے، دشمنوں کی یلغار ہے، عالم اسلام طاغوتی قوتوں کے آگے بے بس نظر آرہا ہے، دنیا کے گوشہ گوشہ میں خون مسلم کی ارزانی ہے، مسائل کے اس دلدل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ امت مسلمہ پورے طور پر سیرتِ رسول سے وابستہ ہوجائے، سیرتِ رسولؐ اور اسوۂ حسنہ کو پوری طرح اپنی عملی زندگی میں رائج کرنے کے لیے اجتماعی حیثیت سے امت کو کچھ عملی اقدامات کرنے ہوں گے، اس سلسلہ کا پہلا کام یہ ہے کہساری تحریکیں، جماعتیں اور ادارے ملک بھر میں مسلمانوں کو سیرتِ رسولؐ کے عملی گوشوں سے متعارف کرنے کے لیے تعارفِ سیرت پروگراموں اور جلسوں کا انعقاد عمل میں لائیں، یہ کام ملک گیر سطح پر انجام دیا جائے، عوام الناس کے لئے سیرت کے جلسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ اہل علم طبقہ میں مختلف زبانوں میں سیرت کے علمی موضوعات پر مستند کتابیں عام کی جائیں ، یہ جلسے اور پروگرام اور تعارف سیرت کی یہ مہم صرف ماہ ربیع الاول تک ہی محدود نہ رہے بلکہ سال کے بارہ مہینے وقفہ وقفہ سے ان کا انعقاد عمل میں آتا رہے، عصری اداروں او رکالجوں میں زیر تعلیم طلبا کے لیے ایسا نصاب تیار کیا جائے جو سیرتِ رسولؐ وسیرتِ خلفاء راشدین اور تاریخ اسلا م پر مشتمل ہو، اسی طرح چھوٹے بچوں کے لیے ابتدائی درجہ کی عام فہم کتابیں تیار کی جائیں، سیرتِ رسولؐ سے استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کی جانکاری حاصل کی جائے، امت کا بڑا طبقہ سیرت کی ابتدائی چیزوں سے نابلد ہے، عصری درسگاہوں میں زیر تعلیم مسلمان طلباء چونکہ ان کے کورس میں سیرت کا مضمون نہیں ہوتا سیرت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں، تعارفِ سیرت کی اس مہم میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ سیرت کا ہر گوشہ سامنے آجائے، یہ ایک جامع ترین سیرت ہے، اس میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے کے لیے اسوہ پایا جاتا ہے، مختلف طبقات کے لیے الگ الگ موضوعاتی پروگراموں کا انعقاد بھی ممکن ہے، مثلاً تاجر طبقہ کے اجلاس میں رسول اکرمؐ کی تجارتی تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے، خواتین کے اجلاس میں رسول اکرمؐ کی خواتین سے متعلق ہدایات ذکر کی جائیں، قائدین اور رہنمائوں کے اجتماع میں آپؐ کے قائدانہ کردار کو اجاگر کیا جائے، اساتذہ کے مجمع میں تعلیم وتدریس سے متعلق اسوہ نبویؐ کی توضیح کی جائے وغیرہ، تعارفِ سیرت کی اس مہم کو اگر منظم انداز میں روبہ عمل لایا جائے تو اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تعارفِ سیرت کے بعد دوسرا مرحلہ سیرت رسولؐ کو عملی زندگی میں اختیار کرنے کا ہے، اس وقت امت سیرت سے وابستگی کے لمبے چوڑے دعوے کرتی نظر آتی ہے، لیکن اسکی عملی زندگی سیرت رسول سے بہت دور ہے، سیرت سے وابستگی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک اعتقادی دوسری عملی ،اعتقادی وابستگی کا مطلب یہ کہ آپؐ کو خدا کا برحق رسول تسلیم کیاجائے اور آپ کی تعلیمات کو پاکیزہ تعلیمات مانا جائے، یہ صرف اعتقادی وابستگی ہے، عملی وابستگی یہ ہے کہ آپ کی سیرت اور آپ کے طوروطریقوں کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے، امت ِمسلمہ میں اعتقادی وابستگی تو پائی جاتی ہے، لیکن عملی وابستگی میں کافی جھول پایاجاتا ہے، مسلمان نماز کی حالت میں تو سیرتِ رسولؐ کے پابند ہوتے ہیں، لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں وہ خود کو سیرت سے آزاد سمجھتے ہیں ایک مسلمان نماز ویسے ہی ادا کرتا ہے جیسے رسولؐ نے ادا کیا تھا، لیکن اس کی تجارت اور معاشرت ویسی نہیں ہوتی جیسے رسولؐ نے کی تھی، اتباعِ سنت اور اسوۂ حسنہ کو امت مسلمہ میں عام کرنے کے لیے ملت کے ذمہ داروں کو تعارفِ سیرت ہی کی طرح باقاعدہ مہم چلانا چاہیے، مختلف اداروں اور تحریکوں کے ذریعے نبویؐسنتوں کی عملی مشق کرائی جائے، گھروں میں والدین اور سرپرست حضرات بچوں کو سنتوں کی عملی تربیت دیں ، کھانے کا موقع ہوتو کھانے کی سنتوں پر عمل کرایا جائے، سوتے وقت سونے کی سنتیں بتائی جائیں اور سنتوں کے مطابق سلایا جائے، لباس پہننے کا موقع آئے تو اس کی سنتیں یاد دلائی جائیں، اسی طرح دینی جماعتوں کے ذمہ داروں کی زندگی سیرت رسولؐ کانمونہ ہو، مساجد میں یومیہ چند سنتوں کی جانب توجہ دلائی جائے، روز مرہ کی زندگی سے متعلق سنتوں کا مستند مجموعہ تیا کیاجائے، جس کو مسلم گھرانون میں عام جائے، آپؐ کی سنتوں میں اللہ تعالیٰ نے عجیب نورانیت رکھی ہے، سنتوں پر عمل سے دلوں میں نور پیدا ہوتا ہے، معاملات میں صفائی آتی ہے، معاشرتی زندگی سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے۔
سیرت رسولؐ سے متعلق مسلمانوں کی ایک اہم ذمہ داری دعوت دین کے لیے سیرت کا استعمال ہے، غیر مسلموں میں دعوت کے لیے سیرت رسولؐ کو مؤثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، سیرت رسولؐ کی دعوتی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’غیر مسلم طبقہ پر اتمام حجت کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی عملی زندگی کو اسلام کی صداقت کا عملی نمونہ بنا کر پیش کریں اور ہماری عملی زندگی میں لوگ اسلام کی برکتیں اور رحمتیں دیکھ کر اسلام کو نجات وہدایت کا راستہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رحمت عالم ﷺ کے اخلاقی کمالات اور آپؐ کا معجزانہ کیریکٹر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ہر طبقہ کو اس کی زبان، اس کی سمجھ اور اس کی استعداد کے مطابق سمجھانے کی کوشش کی جائے تاکہ رحمۃللعالمینؐ اور صاحب خلق عظیم رسول کی محبت لوگوں کے دلوں میں اترجائے اور پھر اس محسن انسانیت ؐ کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو لوگ سچا ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پانے لگیں۔(فتاویٰ عزیزیہ: ۴۱بحوالہ اخلاقِ رسول اکرمؐ)
سیرتِ رسولؐ کے دعوتی استعمال کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں مثلا یہ کہ مختلف زبانوں میں سیرت سے متعلق مؤثر لٹریچر تیا کر کے عام کیاجائے، غیر مسلموں کے سامنے سیرتِ رسولؐ کے رحمت والے پہلو کو رکھا جائے اور آپؐ کی وہ تعلیمات جو انسانی رواداری اور امن عالم پر مبنی ہیں رائج کی جائیں، مختلف تقریبوں اور عیدوں کے موقع پر غیر مسلموں کو مدعو کرکے سیرت بیان کی جائے، اہل علم طبقہ کے لیے علمی انداز اختیار کیاجائے، مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے الگ الگ اجلاس بھی منعقد کیے جاسکتے ہیں، جیسے وکالت سے تعلق رکھنے والے مسلمان وکلاء کا اجلاس منعقد کریں، اسی طرح مسلم ڈاکٹر، ڈاکٹروں کو مدعو کریں، تاجر حضرات غیر مسلم تاجروں کا اجلاس منعقد کریں۔
سیرتِ رسولؐ سے متعلق ایک ذمہ داری سیرت کے دفاع کی ہے، خود مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے، جو سیرت وسنت کا شدت سے منکر ہے، اب اس طرح کی ذہنیت کے حامل لوگوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، ان حضرات کا کہنا ہے کہ امت کے سارے اختلافات اور مسائل کی بنیاد سنت واحادیث ہیں، صرف کتاب اللہ تھامے رہنا چاہیے، یہ لوگ عمل بالکتاب کے عنوان سے قرآن سے دور ہورہے ہیںاس لئے کہ انکارِ حدیث در اصل انکارِ قرآن ہی کی ایک قسم ہے، سیرت وسنت سے متعلق ان حضرات کے شبہات کادور کرنا علمائِ امت کی اہم ذمہ داری ہے، یہ کام منظم طور پر انجام دیاجانا چاہیے، جن جامعات میں تخصصات کے شعبہ جات قائم ہیں، وہاںاختصاص فی الحدیث کے طلبہ کو فتنۂ انکارِ حدیث کے موضوع پر تیاکرنا چاہیے، علمی دفاع کا کام دیر طلب ہے، خاموش طریقہ سے ایسے علماء تیار کیے جائیں جو منکرین حدیث کے ہر شبہ کا جواب دے سکتے ہوں، اسی طرح اس وقت ان مسلمانوں کو بچانے کا مسئلہ ہے جو آئے دن فتنۂ انکارِ حدیث سے متاثر ہوتے جارہے ہین، منکرینِ حدیث میدان میں پوری طرح سرگرم ہوچکے ہیں، شہر کے مختلف مقامات پر ان کے پروگرام منعقد ہورہے ہیںاورنوجوانوں کو برگشتہ کیا جارہا ہے، اس کے لیے علماء حضرات اپنے خطبوں اور جلسوں میں خصوصیت کے ساتھ اس موضوع کو زیر بحث لائیں۔
سیرت سے وابستگی کے نتیجہ میں عائد ہونے والی ایک اہم ذمہ داری تحفظ ختمِ نبوت کی ہے، بہت سے سادہ لوح مسلمان قادیانیت کا شکار ہورہے ہیں، عام مسلمانوں کے ذہنوں میں ختم نبوت کا واضح تصور نہیں ہے، اضلاع اور دیہاتوں میں قادیانیت سرگرم ہے، شہروں میں بھی کافی سرگرمیاں جاری ہیں، ربیع الاول کے موقع پر سیرت النبیؐ کے جلسوں کی بھر مار ہوتی ہے، ان جلسوں میں ختم نبوت کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے، علاوہ ازیں مختلف تحریکات کے ذمہ دار حضرات قادیانیت سے متاثرہ مقامات کا دورہ کر کے مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کریں، قادیانیت کا فتنہ جس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے، امت مسلمہ میں اسی قدر غفلت پائی جاتی ہے، سیرتِ رسولؐ سے وابستگی کا تقاضہ ہے کہ ہم ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر چیز کی قربانی کے لیے تیار ہوجائیں۔
ربیع الاول کے موقع سے سیرت کے عنوان سے آج جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا تعلق صرف زبانی جمع خرچ سے ہوتا ہے، جب کہ سیرت سے متعلق عملی ذمہ داریوں سے جی چرایا جاتا ہے، اس وقت امت کو سیرت سے وابستہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335