بستی نظام الدینؒ دہلی میں کھانے فروخت کرکے خود کفیل بننے والی 11 خواتین
دلی کی نظام الدین بستی اپنی درگاہ اور قدیم عمارتوں کے ساتھ ساتھ اپنے مغلئی اور مقامی لذیذ کھانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔
صدیوں پرانی اس قدیم بستی میں ہزاروں سیاح اور عقیدت مند حضرت نظام الدین اولیا کے مزار اور یہاں کی قدیم عمارتیں دیکھنے کے لیے روزانہ یہاں آتے ہیں۔
اس کی تنگ گلیوں میں گلاب کی پنکھڑیوں، پھول مالاؤں اور چادروں کی دکانیں لگی ہوئی ہیں۔ وہیں مغلئی اور مقامی کھانوں کی خوشبو فضا میں بسی رہتی ہے۔ لذیذ کھانوں کے شوقین اکثر نظاام لدین بستی کا رخ کرتے ہیں۔
اسی نظام الدین بستی کے ایک گھر میں کچھ خواتین کئی طرح کے کھانے بنانے میں مشغول ہیں۔ اس قدیم بستی کی گیارہ خواتین نے مل کر ’ذائقہ نظام الدین‘ نام کا ایک ریستوران کھولا ہے جو یہاں آنے والے سیاحوں اور مقامی لوگوں میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔
’ذائقہ نظام الدین‘ ریستوران کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ بستی کی گیارہ مقامی خواتین کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ اس کا کھانا اور سارا انتظام یہ خواتین خود دیکھتی ہیں۔
اس ریستوران میں وہ کھانے پیش کیے جاتے ہیں جو روایتی طور پر بستی کے گھروں میں بنتے ہیں اور عموماً ریستورانوں میں نہیں ملتے۔ ان خواتین نے گھروں میں بننے والے کھانے مثلاً شلجم گوشت، قیمہ مٹر، مقامی کباب اور بریانی کی کئی پرانی قسموں کو نیا رنگ دیا ہے۔
نظام الدین بستی کی خواتین نے ایک سیلف ہیلپ گروپ بنا کر یہ ریستوران کھولا ہے جو نظام الدین بستی کے ریستورانوں میں ملنے والے کھانوں سے مختلف ہے۔
یہ سبھی خواتین الگ الگ قسم کے کھانے بنانے کی ماہر ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ایک خاتون باورچی فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ویسے تو سبھی قسم کے کھانے مقبول ہیں لیکن ہمارے یہاں کی بریانی اور کباب روٹی کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔
’ہم کئی طرح کی سبزیاں بھی بناتے ہیں۔ نان ویج کے ساتھ ساتھ سبز بریانی اور سبز کباب یعنی ویج کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔‘
نور جہاں نے بتایا کہ کھانا بنانے میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہےاور سبھی کو اس طرح کی تربیت دی گئی ہے کہ کھانے کی لذت میں فرق نہ آئے۔ ’ہم کوئی بھی فروزن یا پرانی چیز نہیں استعمال کرتے۔~
’ہم اپنی روزانہ کی کھپت اور آرڈر کے لحاظ سے گوشت اور دوسرے لوازمات منگواتے ہیں۔ ہم جو پانی بھی دیتے ہیں وہ بوتل یا آر او (فلٹر) کا ہوتا ہے۔‘
خواتین کا یہ سیلف ہیلپ گروپ آغا خان فاؤنڈیشن کی مدد سے کھڑا ہوا۔ فاؤنڈیشن کی پروگرام ڈائرکٹر جیوتسنا لال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا کام زندگی کو بہتر کرنا ہے۔ بستی میں کام کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں کے بہت سے بچے کم غذائیت کا شکار ہیں۔
’ہم نے 2015 میں ان کی ماؤں کی مدد کرنے کے لیے بستی کے سالانہ میلے میں کباب اور پراٹھے کے سٹالز لگانے میں ان کی مدد کی جو بہت کامیاب رہا۔ وہیں سے ذائقہ نظام الدین کا تصور دماغ میں آیا۔ ہم نے ابتدائی طور پر ریستوران کھڑا کرنے میں ان کی مدد کی۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس ریستوران کے لیے انھیں جگہ دی گئی۔ ’آج یہ خواتین پوری طرح اپنے طور پر یہ ریستوران چلا رہی ہیں۔ کیوسک کا کرایہ ادا کر رہی ہیں۔ اب یہ اقتصادی طور پر بہتر حالت میں اور خود کفیل ہیں۔‘
ایک موبائل وین میں واقع ریستوران میں کسٹمر کو کھانا دیتے ہوئے ایک شیف نے بتایا ’پہلے ہم گھروں سے بھی نہیں نکلتے تھے۔ شروع میں ہمارے لیے یہ بہت مشکل تھا لیکن رفتہ رفتہ اس سے ہم میں اعتماد پیدا ہوا۔ اس ریستوران نے ہمیں خود کو پہچاننے کا موقع دیا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی شناخت کا موقع دیا۔‘
بنگلور سے تعلق رکھنے والے ایک کسٹمر سنجے کھنڈیلوال نے بتایا کہ یہاں کا کھانا انھیں بہت اچھا لگا۔
ایک اور کسٹمر نیہا بترا نے کہا کہ ’میں ذائقہ نظام الدین میں صرف اس لیے کھانے کے لیے آئی کیونکہ ایک پمفلٹ میں انھوں نے پڑھا تھا کہ یہ ریستوران پوری طرح خواتین چلا رہی ہیں۔‘
ان گیارہ خواتین کا تعلق مالی اعتبار سے کمزور طبقے سے ہے لیکن ذائقہ نظام الدین نے انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کی۔
ان خواتین کی رابطہ کار نور جہاں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کووڈ کی وبا کے دوران ہمارا کام متاثر ہوا تھا لیکن جاڑے میں کھانا زیادہ فروخت ہوتا ہے اور ہر خاتون کو 10 سے 12 ہزار روپے مہینے کے مل جاتے ہیں۔
’اس سے گھر کی آمدنی بڑھ جاتی ہے۔ اب ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ رہے ہیں اور ہماری زندگی بہت بہتر ہو گئی ہے۔‘
ذائقہ نظام الدین ریستوران کا نام رفتہ رفتہ مشہور ہو رہا ہے۔ آغا خان فاؤنڈیشن کی اہلکار سواتی بترا نے ان خواتین کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’یہ ریستوران اب آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ خواتین اب پُر اعتماد ہیں۔ ان کے کھانوں کی شہرت دور دور تک پھیل رہی ہے۔
’ذائقہ کی خواتین کو ان کی خصوصی ڈشز بنوانے کے لیے بعض فائیو سٹار ہوٹلز نے بھی انھیں اپنے ہاں بلایا تھا۔‘
’یہاں کے کھانے اب مقامی پارٹیوں اور تقاریب میں مقبول ہو رہے ہیں۔ گیارہ خواتین کا یہ گروپ اب مزید ریستوران کھولنے کی امید کر رہا ہے۔‘
شیف نور جہاں کہتی ہیں کہ یہ خواتین اقتصادی طور پر تو خود کفیل ہوئی ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انھیں خود کو بھی پہچاننے کا موقع ملا ہے۔