اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو بطور مصلحت اپنے قبضہ میں رکھا ہے اسے انسانوں کے دست میں نہیں دیا ہے ان میں سے ایک وقت بھی ہے ، سچ یہ ہے کہ وقت کی باگ دوڑ خدا کے قبضہ قدرت میں ہے ،اسی کے حکم سے وہ چل رہا ہے اور جب تک حکم ہے چلتا رہے گا ،نہ اسے کوئی انسان خرید سکتا ہے اور نہ ہی اسے چند لمحات کے لئے روک سکتا ہے،ہاں البتہ اگر چاہے تو اسے صحیح استعمال میں لا سکتا ہے ،وقت گزرجانے کے بعد لوٹ کر واپس نہیں آتا اور جو آنے والا ہے وہ تھم نے والا نہیں بلکہ اپنے وقت مقررہ پر آکر رہتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے وقت کو انسانی زندگی کی سانسوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے ، وقت کے گزرنے کے ساتھ انسان کی عمر گھٹنا شروع ہوتی ہے جسے عرف میں بڑھنا کہا جاتا ہے ، خطیب امت حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے انسانی زندگی کو برف سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ:انسان کا اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دُکاندار کی طرح اس کی تجارت کا راس المال جسے ’’عمر عزیز کہتے ہیں‘‘دم بدم کم ہوتا جارہا ہے ،اگر اس رواروی میں کوئی ایسا کام نہ کر لیا جس سے یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے ،بلکہ ایک ابدی اور غیر فانی متاع بن کر ہمیشہ کیلئے کار آمد بن جائے تو پھر خسارہ کی کوئی انتہا نہیں ،زمانے کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنی غور وفکر سے ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پرواہ ہوکر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخر کار کس طرح ناکام ونامراد بلکہ تباہ وبرباد ہوکر رہے ،آدمی کو چاہئے کہ وقت کی قدر پہنچانے اور عمر عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت وشرارت یالہو ولعب میں نہ گنوائے جو اوقات تحصیل شرف ومجد اور اکتساب فضل وکمال کی گرم بازاری کے ہیں اگر غفلت ونسیان میں گزاردئیے گئے تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لئے خسارہ نہیں ہوسکتا ،بس خوش نصیب اور اقبال مندانسان وہی ہیں جو اس عمر فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کار آمد بنانے کیلئے جد وجہد کرتے ہیں ،اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسب سعادت اور تحصیل کمال کی کوشش میں سر گرم رہتے ہیں۔
لوگوں کا بڑا عجیب حال ہے کہ باربار بار مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی عمر عزیز کے قیمتی لمحات کسی بے قیمت شے کی طرح یوں ہی گنوانتے رہتے ہیں اور قیمتی اوقات کے گزر نے اور زندگی کے کم ہونے پر احتساب کے بجائے خوشی مناتے ہیں ، جس کا سوشل میڈیا پر مشاہدہ ہوتا رہتا ہے ،لوگ سال کے گرنے اور نئے سال کے آنے پر دیوانہ وار بلکہ بہت سے لوگ اخلاقی تمام حدیں پار کرتے ہوئے جشن مناتے ہیں اور خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں ، اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں کرنے والے در حقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کی حقیقت سے نا آشنا اور اسکی قدر وقیمت سے ناواقف ہوتے ہیں ہیں ، اس موقع پر یہ لوگ رقص وسرور کی محفلیں سجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارک بادیاں دیتے ہیں ، سڑکوں پر گاڑیاں دوڑا ئی جاتی ہیں ،بازاروں کو روشنیوں سے منور کیا جاتا ہے ،نائٹ کلبس میں دھوم مچی ہو تی ہے ، پارکوں میں ایک شور بپا ہوتا ہے ، غرض یہ کہ ہر طرف ایک طوفان ِ بدتمیزی برپا ہوتی ہے ، نوجوان گاڑیاں دوڑاتے ہوئے ہارن بجاتے ہوئے اور چیختے چلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ،جن کے شور وشرابے سے زمین دہل جاتی ہے ،آسمان لرز جاتا اور فضاء تھرا جاتی ہے ، اس موقع پر بچے بڑے سب ہی ہی مل کر طوفان بدتمیزی مچاتے ہوئے تمام اخلاقی حدیں تجاوز کر جاتے ہیں ۔
جشن سال نو کے مناظر دیکھ کر بڑا افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ جشن منانے والوں میں ایک بڑہ تعداد مسلمانوں کی ہوتی ہے جن کے مذہب میں اس طرح کا تصور دور دور تک نہیں ہے اور نہ مذہب اسلام ان بے ہودہ چیزوں کی اجازت دیتا ہے ،یہ جشن مانے والے صرف وہ مسلمان نہیں ہیں جو عصری تعلیم یافتہ ہیں اور مغربی تہذیب وتمدن سے متاثر ہیں بلکہ ان کے ساتھ وہ مسلمان بھی جو جہالت کی بنیاد پر یا صرف دیکھا دیکھی اس بلا میں مبتلا ہیں ،مزید تعجب اس بات پر ہوتا ہے جن گھرانوں میں کچھ دینداری ہے ،نماز روزہ کے پابند ہیں مگر اس کے باوجود اپنے گھروں میں ہونے والی ان بے ہودگی کو دیکھ کر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ،اپنے نوجوان بچوں کو گھروں کی چھتوں پر غیر شرعی و بے حیائی کے کام کرتے ہوئے دیکھ کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں اور بچے ہیں کہ ماں باپ کے قریب رقص وسرور میں مگن ہیں ، مسلم گھرانوں میں اس طرح کی صورت حال دیکھ کر اور سن کر مارے شرم کے سر جھگ جاتا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بے ہودہ ، فحش اور اسلامی تہذیب سے دور چیزوں کا تصور ایک سچے مسلمان کے متعلق ہرگز نہیں کیا جاسکتا ،اگر کوئی اس طرح کی حرکتوں میں ملوث تو پھر جان لینا چاہئے کہ وہ اسماً تو مسلمان ہیں مگر عملاً دین وشریعت سے بے گا نہ بلکہ بے زار ہے ۔
یہ بات ہر مسلمان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ نئے سال کی آمد پر جشن منانا ،رقص وسرور کی مجالس میں شریک ہونا اور ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دینا اسلامی تعلیم کے منافی اور اسکی تہذیب کے بالکل خلاف ہے بلکہ یہ جدید ذہنیت ،بے ہودہ رسومات ، پراگندہ خیالات اور آخرت میں جواب دہی کے احساس سے عاری لوگوں کا کلچر ہے ،اسلامی تعلیمات اور اس کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی فانی اور اُخروی زندگی باقی اور لا محدود ہے ،دنیا اور دنیا کی ہر شے خدا کی امانت ہے ، انسان کو روز قیامت زندگی اور اس کے شب وروز کا حساب دینا ہے کہ کہاں شب بسری کی اور کیسے کی ، زندگی خدا کی مرضیات پر چلنے اور اسکی منہیات سے رکنے کانام ہے،زندگی خالص خدا کی عبادت واطاعت کے لئے ہے اور زندگی کا ہر وہ کام جو خدا کی مرضی کے موافق ہو وہ عبادت میں داخل ہے، خدا کے دربار میں انسان سے زندگی کے قیمتی لمحات کے سلسلہ میں سخت باز پرس ہو گی ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاتزول قدما عبدٍ حتی یُساء ل عن خمسٍ عن عمرہ فیما افناہ ،وعن علمہ فیما فعل ،وعن مالہ من این اکتسبہ ،وفی ما انفقہ ،وعن جسمہ فیما ابلاہ (ترمذی:۶۱۴۲)’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی اس وقت تک ہٹ نہیں سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے متعلق حساب نہیں لے لیا جائیگا (چنانچہ) اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن کاموں میں گزاری؟ دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟ مال کن ذرائع سے کمایا؟ کمایا ہوا مال کہاں خرچ کیا؟ جسم کو ( صحت وتندرستی میں ) کس کام میں لگایا‘‘۔اس ارشادِ گرامی میں انسانیت کے سب سے بڑے محسن ومربی حضرت محمد مصطفی ؐ نے وقت کی قدر وقیمت اور زندگی کی اہمیت کو بڑے ہی دلنشین انداز میں سمجھایا کہ زندگی خدا کی عظیم نعمت ہے جو ہر فرد بشر کو عطا ہوئی ہے ، بادشاہ ہو یا فقیر ،امیر ہو یا غریب ،آقا ہو یا غلام ،ہر ایک کیلئے رات و دن برابر ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا ذکر قرآن وحدیث میں کیا گیا ہے کہ انسان یوں ہی اور بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا کہ جس طرح چاہے جہاں چاہے اور جیسے چاہے زندگی گزار دے بلکہ اسے ایک بامقصد زندگی دے کر دنیا میں بھیجا گیا ہے ،قرآن مجید اور اسوۂ نبی اکرم ؐ دے کر اسے زندگی گزارنے کا طریقہ اور ڈھنگ بتایا گیا ہے ، کامیاب وہ شخص ہوگا جس کی زندگی قرآن مجید اور اسوۂ نبوی کے مطابق گزری ہوگی اور ناکام وہ شخص کہلائے گا جو اسوۂ حسنہ رسول اکرم ؐ کو چھوڑ کر من مانی اور خواہشات کے تابع ہو کر زندگی گزاری ہوگی،انسان کی زندگی اور اس کے اوقات ولمحات اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور قیامت میں اس سے اس متعلق سوال کیا جائے گا ،ذرا تصور کرکے دیکھیں کہ روز محشر برپا پے ،اولین وآخرین کا اجتماع ہے ،نفسا نفسی کا عالم ہے ،ہ ایک کا ڈاٹا (دفتر نامہ اعمال)کھولا جارہا ہے اور ایک ایک نعمت اور زندگی کے ہر لمحے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے ،اگر ہمارے دفتر میں نافرمانیاں ،نعمتوں کی ناقدریاں اور شریعت کی کھلی خلاف ورزیاں اور سنتوں کی پامالیوں کے ساتھ دشمنان اسلام طریقوں پر عمل نظر آئے گا تو کس قدر رسوائی ہوگی ،اس وقت کوئی عذر کام نہیں آئے گا ،وقت گزر گیا ہوگا مگر اس کا وبال باقی ہوگا۔
مسلمان اگر آخرت کی رسوائی اور بڑی شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں تو اُنہیں زندگی کی قدر کر نی چاہیے ، دنیوی کھیل کود اور لہو ولعب میں پڑ کر زندگی کے قیمتی لمحات گنوادینا عقلمندی نہیں ،سچا اور پکامسلمان وہ ہے جو اپنا دل دنیا میں نہیں لگاتابلکہ وہ تو ہر لایعنی اور فضول کام سے اپنے آپ کو بچائے رکھتا ہے اور یہی مومن کی خوبی ہے ، حضرت محمد مصطفی ؐ نے ارشاد فرمایا:من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ(ترمذی:۱۴۸۹)’’ آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے پچا رہے‘‘۔محدث جلیل مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انسان اشرف المخلوقات ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے ،اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کو وقت اور صلاحیتوں کا جو سرمایہ دیا گیا ہے وہ اسے بالکل ضائع نہ کرے ،بلکہ صحیح طور سے اسے استعمال کرے ،زیادہ تر اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی فکر کرے ،یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور اس کا لب لباب ہے ،اس لئے جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ اُسے کمال ایمان حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ اور دھبہ نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کھلے گناہوں اور بد اخلاخیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے اپنے کو بچائے رکھے اور اپنی تمام تر خدا داد صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو ۔
اسلام کی اس قدر خوبصورت اور حسین تعلیمات کے باوجود بیشتر مسلمان اس سے دور ہیں اور اسے اپنی انفرادی واجتماعی،معاشرتی اور عائلی زندگی کا حصہ نہ بناتے ہوئے دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ،دنیا ، سامان دنیا اور لذت دنیا میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ انہیں نہ اسلامی احکامات یاد ہیں اور نہ ہی اپنےنبی ؐ کی مبارک تعلیمات ذہن نشین ہیں ،مسلمان جب تک اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کر لیتے تب تک انہیں نصرت خداوندی حاصل نہیں ہو سکتی،یاد رہے کہ دنیا کے خواہش مندوں کی کامیابی دوسری اقوام کے طریقہ پر چلنے میں ہوگی مگر اہل ایمان اور جنت کے خواہش مندوں کی کامیابی تعلیمات اسلام اور اسوۂ نبی اکرم ؐپر چلنے میں ہی ہے کاش کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے ، بلاشبہ ہر روز ہر قدم ہمیں اپنی مرقد کی طرف کھینچ کر لے جار ہاہے اور ہم ہیں کہ دنیا کی رنگینیوں میں گم ہیں ،سالِ رواں جاتے جاتے اور سالِ نو آتے آتے ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ ؎
نظر سوئے دنیا ،قدم سوئے مرقد
کہاں جا رہے ہو؟ کد ھر دیکھتے ہو؟
����