ملک کے حالات بڑی تیزرفتاری کے ساتھ بگڑتے جارہے ہیں، ماب لنچنگ کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے،نفرت انگیز بیانات داغے جارہے ہیں،مسلمان عورتوں کی عزت سر بازار نیلام کرنے کا پیغام دیاجارہا ہے،شر پسندوں کےحوصلے بڑھے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد’’راکھسش‘‘ بن گئی ہے، ’’رام رام‘‘ کی مالا جپنے والے ’’ راون‘‘کی تہذیب اور میراث کو سینے سے لگارہے ہیں اور محبت اور پریم کی وہ چاشنی جس نے بھارت کی فضاؤں میں رس گھول رکھا تھا اور جو یہاں کے باشندوں کے لئے امرت کا کام دیتی تھی،نفرت،تشدد،ظلم اور حیوانیت کی قربان گاہ پربھینٹ چڑھائی جارہی ہے،ظالموں اور ستمگروں کا ظالمانہ کھیل جاری ہے اورلا قانونیت کی لہر پورے ملک میں پھیلتی جارہی ہے،مگر حیرت ہے کہ انصاف پسندبرادران وطن کا ایک بڑا طبقہ خاموش تماشائی بناہوا ہے،دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور لا مذہب بن کر جینے والے بھی ’’سائلنٹ موڈ‘‘ پر ہیں، گویا کہ’’مودی جی‘‘ کے دور اقتدار میں’’منموہن سنگھ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،ظالموں کا ظلم تو اذیت ناک ہے ہی لیکن سیکولرزم کا لبادہ اوڑھنے اور انصاف پسند کہلائے جانے والوں کی یہ خاموشی بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے۔
ایک قیامت کا سناٹا ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دور نہ ہنستا چاندنہ روشن سائے ہیں
کوئی شبہ نہیں کہ اکادکا آوازیں پورے ملک میں مختلف جگہوں سے اٹھ رہی ہیں ، اور ملک کے بدلے ہوئے حالات پر فکر مندی کا اظہار ہورہا ہے، چند دن پہلے ٹی ایم سی کی رکن پارلیمان مہوا مویترانے پارلیمنٹ میں شاندار تقریر کی٬جو حسن ترتیب،اظہار حق٬اور حقیقت بیانی کے لحاظ سے شاہکار تقریر ہے،اس کے علاوہ بھی یہاں وہاں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں٬مگرکوئی طاقتور آواز،کوئی بڑی اجتماعی کوشش دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے،بھارت کی سر زمین جس کی گنگا جمنی تہذیب کا شہرہ بادشاہان عرب کے ایوانوں سے لے کر برازیل کے جنگلوں اور ویرانوں تک پھیلاہوا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تہذیب اور ورثے کو اسی طرح لوٹا جارہا ہے جس طرح انگریزوں نے بھارت کے خزانوں کو لوٹا تھا،امن و آشتی کی بہاریں ظلم و تشدد کی خزاں کے آگے سپر انداز ہورہی ہیں٬پریم اور شانتی کی’’باد نسیم‘‘ پر نفرت اور درندگی کی’’باد سموم‘‘ غالب آرہی ہے٬خونیوں کو نوازا جارہا ہے٬باغیوں کو سر چڑھایاجارہا ہے٬اہل حق کو شکنجوں میں کسا جارہا ہے،انسانیت کی بات کرنے والوں کو شک کی نگاہ سےدیکھاجارہا ہے ، حبیب جالب یاد آگئے
حق بات پہ کوڑے اور زنداں
باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں
خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم
اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا
بندے کو خدا کیا لکھنا
ان گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں انصاف کے دئیے روشن کرنا بھارت کے ہر انصاف پسندباشندے کی ذمہ داری ہے،’’ محبوبۂ جمہوریت ‘‘کی زلفیں سنوارنے اور سیکولرزم کا تابوت کاندھوں پر اٹھائے رکھنے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، ملک سے پریم کا دعوی ہے تو اس کٹھن وقت میں آگے آنا ہوگا٬بھارت کو آگ میں جلنے سے بچانا ہے تو شعلوں کو بھڑکنے سے پہلے بجھانا ہوگا٬گنگا جمنی تہذیب کا یہ دیش انسانیت پر یقین رکھنے والوں اور انصاف کی روش پر چلنے والوں کو آواز دے رہا ہے٬ذرا کان لگا کرسنئے بھارت کہہ رہا ہے کہ’’ میں پوتر سیتا کادیش ہوں،مجھ میں راون کے قدموں کی دھمک بڑھ رہی ہے٬میں محبت کی سر زمین ہوں مجھ پر ظلم و تشدد کی کاشت کی جارہی ہے٬میں انصاف اور جمہوریت کا مرکز ہوں مجھے فاشزم اور فرقہ واریت کی راہ پر ڈالاجارہا ہے ، میں امن اورشانتی ،صلح اور آشتی کی مورت ہوں مجھے بد امنی اور نفرت کی آگ میں جھونکا جارہاہے٬میری مٹی سےپریم٬وفاداری٬اور بھائی چارے کی سوندھی سوندھی خوشبو چہار سو پھیلتی ہے اب میری چھاتی پر دہشت گردی کی فصل اگائی جارہی ہے ٬کون ہے جو مجھے بچانے کے لئے قربانی دے گا؟ کون ہے جو محبت کے روشن سورج اگائے گا؟ کون ہے جو بدامنی اور دہشت مٹائے گا؟ کون ہے جو ظلم و تشدد کی راہ روکے گا؟ کون ہے جو ہزاروں سال کی اپنائیت اور بھائی چارے کی تہذیب کی حفاظت کے لئے آگے آئے گا؟ کاش بھارت کے باشندے اپنے دیش کی اس در د بھری پکار کو سنیں ، ظلم کو مٹانے کے لئے آگے بڑھیں، انصاف کے دیپ جلائیں ،محبتوں کے چراغ روشن کریں٬فرقہ پرستی کے مکروہ دیو اور نفرت و ظلم کے راکھسشوں سے مقابلہ کریں اور مصائب و مشکلات کی بجلیوں کے درمیان دیش کو بچانے کی صدا اس عزم کے ساتھ بلند کریں کہ
یہ نفرتوں کی فصیلیں یہ جہالتوں کےحصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں
زمانہ ایک سا جالبؔ سدا نہیں رہتا
چلیں گے ہم بھی کبھی سراٹھاکےرستےمیں