ہندوستان میں علماء اور مذہبی قائدین کی خدمت کا ایک اہم پہلو شریعتِ اسلامی کی حفاظت ہے، اس کے لئے ایک طرف انہوں نے دار القضاء کا نظام قائم کیا؛ تاکہ مسلمان شرعی عدالتوں کے ذریعہ اپنے معاملات طے کرائیں؛ کیوںکہ ایک مسلمان اور شریعت سے واقف قاضی ہی احکامِ شریعت کی صحیح تشریح کرسکتا ہے اور اس کی روح کے مطابق اس کو نافذ کرسکتا ہے، دوسری طرف انہوں نے سیاسی سطح پر بھی مؤثر جد و جہد کی ہے؛ چنانچہ ۱۹۳۷ء میں ’’شریعت اپلی کیشن ایکٹ‘‘ علماء ہی کی کوششوں سے بنا، ۱۹۳۹ء میں ’’انفساخ نکاح‘‘کا قانون پاس ہوا، یہ بھی ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، اس قانون میں ایک دفعہ یہ بھی رکھی گئی تھی کہ انفساخ نکاح سے متعلق مقدمات مسلمان قاضی یا مجسٹریٹ کے ذریعہ فیصل ہوا کریںگے اور حکومتِ برطانیہ نے اسے منظور بھی کرلیا تھا؛ لیکن بعض مسلمان نام نہاد دانشوروں نے اس پر اعتراض کیا،ان کا خیال تھا کہ اس طرح مولویوں اور ملاؤں کو عدالتی اختیارات حاصل ہوجائیںگے؛ اس لئے یہ دفعہ مسودۂ قانون سے خارج کردی گئی، اگر ایسا نہ ہواہوتا تو مسلم پرسنل لاء کے سلسلہ میں اس وقت مسلمان جس پریشان کن صورت حال سے دوچار ہیں، غالبا اس کی نوبت نہیں آتی، مگر براہو زعمِ دانشوری اور جذبۂ روشن خیالی کا، کہ اس نے ملت کو کتنے ہی نقصان پہنچائے ہیں !
آ زادی کے بعد دستور میں اقلیت کے لئے مذہبی حقوق کی صراحت کرنے اور دستور ساز شخصیتوں کے بار بار یقین دہانیاں کرانے کے باوجود جلد ہی حکومت کی بد نیتی سے پردہ اٹھنے لگا، ۱۹۵۶ء میں جب ہندو کوڈ بنا اس وقت بھی کہا گیا کہ یہ یکساں سول کوڈکی طرف ایک قدم ہے، پھر قانونِ شفعہ اور ۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کی ممانعت کے لئے اس طرح راستہ نکالاگیا کہ انہیں قانون شخصی کی بجائے دوسرے قوانین کا حصہ بنادیا گیا، اسپیشل میریج ایکٹ بنایا گیا؛تاکہ جو مسلمان مرد و عورت مسلم پرسنل لا سے آزاد ہو کر نکاح کرنا چاہیں، وہ اس کے تحت نکاح کریں، یہاں تک کہ ۱۹۷۲ء میں لے پالک کو حقیقی بیٹے کا درجہ دینے اور گود لینے والے کے ترکہ سے اس کو میراث دلانے کی مہم شروع کی گئی، ہندوؤں کے لئے پہلے سے اس نوعیت کا قانون موجود تھا؛ لیکن مسلمانوں کے بشمول تمام قوموں کو اس میں شامل کرنے کے لئے ایک خصوصی بل مرتب کیا گیا، اس وقت مختلف مسلم تنظیموں کی جانب سے اس کے خلاف آواز بلند کی گئی، یہاں تک کہ مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے ۱۹۶۸ء میں پٹنہ میں امارت شرعیہ بہار کی طرف سے ’’مسلم پرسنل لا کانفرنس‘‘بلائی اور اس میں مسلمانوں کی دو بڑی کل ہند جماعتوں — جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند — کے ذمہ داران ’ مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ اور مولانا ابو اللیث اصلاحی ندویؒ ‘ کو مدعو فرمایا، یہ گویا مسلم پرسنل لا کے موضوع پر پہلا چند جماعتی اجلاس تھا، پھر مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ اور مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی کوششوں سے اسی نوعیت کا ایک پروگرام دار العلوم دیوبند میں ہوا، اور وہیں طے پایا کہ اس سلسلہ میں ایک بڑا کنونشن ممبئی میں کیا جائے؛ کیوںکہ مسلم پرسنل لاء کے خلاف بعض نام نہاد مسلمانوں کی آواز یہیں سے اٹھ رہی تھی، پھر دسمبر ۱۹۷۲ء میںوہ عظیم الشان مسلم پرسنل لا ممبئی کنونشن منعقد ہوا، جس کے بارے میں بعض بزرگوں کی رائے تھی کہ خلافت تحریک کے بعد اتنے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کا ایسا پروگرام نہیں ہوا، اس کنونشن میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کی تجویز منظور کی گئی، اور اگلا اجلاس حیدرآباد میں ہوا، جہا ں باضابطہ بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، بورڈ کی تشکیل بجائے خود ایک کرامت سے کم نہیں، مختلف مکاتب فکر، مختلف جماعتیں اور تنظیمیں، جن کے تعلقات دریا کے دو کناروں کا درجہ رکھتے تھے، اور جن کا ایک جگہ مل بیٹھنا نا قابل تصور تھا، وہ تحفظ شریعت کے مقصد کے تحت یکجا ہوئے،اور بورڈ میں نہ صرف علماء، بلکہ راسخ العقیدہ مسلمان دانشوروں اور قانون دانوں کی بھی ایک مناسب تعداد شامل کی گئی اور اب تک اس کا یہی ڈھانچہ برقرار ہے۔
لیکن اس کے علاوہ خود تحفظ شریعت کے سلسلے میں حکومت متبنّٰی بل واپس لینے پر مجبور ہوئی، مسجدوں کو عوامی مقاصد کے لئے ایکوائر کرنے کی بات واپس لی گئی، نفقۂ مطلقہ سے متعلق دفعہ ۱۲۷ کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ’’تحفظ حقوق مسلم مطلّقہ خواتین‘‘ کا قانون پاس ہوا، نکاح کے رجسٹریشن کے لزوم کے سلسلے میں اکثر ریاستوں میں قانون بنانے سے گریز کیا گیا اور جہاں قانون بنا، وہاں بھی ثبوت نکاح کے لئے رجسٹریشن کا لزوم نہیں رکھا گیا، یہ اور اس طرح کے بعض اور فیصلے عوامی جدو جہد اور سیاسی نمائندگی کے ذریعہ ہوسکے، اور اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ بورڈ کے قیام کے بعد سے ۲۰۰۸ء تک گورنمنٹ پارلیمنٹ کے ذریعہ کوئی ایسا بل لانے کی جرأت نہیں کرسکی، جو براہ راست مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا باعث ہو۔
شریعت کےخلاف پارلیامنٹ یا ریاستی اسمبلی میں جو فیصلے ہوں ان کے تدارک کے تین راستے ہیں: ایک یہ کہ پارلیامنٹ کے ذریعہ اس کو بے اثر کیا جائے، یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو یا حزب اختلاف آپ کے موقف کو قبول کرے اور وہ ایسی تعداد میں ہو کہ قانون میں ترمیم کرا سکے، ۲۰۰۸ء کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ حکومت اقلیتوں کی بات سننے کو تیار نہیں ہے اور اپوزیشن اتنی کمزور ہے کہ وہ کوئی بات منوا نہیں سکتی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ عوامی تحریک چلائی جائے مگر یہ اسی وقت موثر ہو سکتی ہے جب ماحول سازگار ہو ، حکومت جمہوری سوچ کی حامل ہو اور تمام طبقات کے جذبات کو سامنے رکھنے کو تیار ہو؛ مگر اس وقت حالات ایسے نہیں ہیں، مسلمان اگر حکومت کے خلاف اپنا موقف رکھتے ہیں تو سازش کر کے حکومت اکثریت کو ان کے مقابلے میں کھڑا کر دیتی ہے اور عوامی لڑائی جھگڑے کی صورت بن جاتی ہے، ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں عوامی تحریک سوچ سمجھ کر اور تمام پہلووں کو دیکھ کر ہی چلائی جا سکتی ہے، تیسرا راستہ عدالت کا ہے، بورد شرعی مسائل کے سلسلہ میں عدالتوں میں پوری طاقت کے ساتھ پیروی کرتا رہا ہے، عدالتوں سے جو فیصلے خلافِ شرع ہوتے ہیں، ان میں بھی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی جاتی ہے؛ مگر ظاہر ہے کہ قوت کے ساتھ پیروی کرنا تو بورڈ کے اختیار میں ہے؛ لیکن عدالت سے انصاف بھی حاصل ہو جائے، یہ بورڈ کے اختیار میں نہیں ہے، عدالت کے بعض سابق ریٹائرڈ ججز اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ آپ سپریم کورٹ سے فیصلے حاصل کر سکتے ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ انصاف بھی حاصل کر لیں، اس کی واضح مثال بابری مسجد کا مقدمہ ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں ان تمام نکات کو تسلیم کیا جو مسلمانوں کا دعویٰ ہے، اس نے مانا کہ کسی مندر کو توڑ کر یہ مسجد نہیں بنائی گئی ہے، اس نے تسلیم کیا کہ مسجد کے اس ڈھانچہ کے نیچے کوئی مندر نہیں ہے، عدالت نے تسلیم کیا کہ اس میں زور زبردستی سے مورتیاں لا کر رکھی گئی ہیں، عدالت نے قبول کیا کہ یہ جگہ سنی وقف بورڈ کی ملکیت ہے؛ اسی لئے اس کی متبادل جگہ دینے کی پیش کش کی، یہ بھی تسلیم کیا کہ مسجد کو شہید کرنا ایک غیر قانونی عمل تھا؛ لیکن ان سب کے باوجود فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا، ایسی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے جدوجہد کرو اور بورڈ اسی کام کو کرتا ہے، بعض بد خواہ کہتے ہیں کہ بورڈ مقدمہ ہارنے کے لئے عدالت جاتا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، بورڈ امت مسلمہ کا ایک شرعی فریضہ ادا کرنے کے لئے عدالت جاتا ہے کہ ہر مسلمان پر اپنی طاقت کے مطابق شریعت کو بچانا واجب ہے، اگر ہم نے اس کے لئے کوشش نہیں کی تو عند اللہ گنہگار ہوں گے اور میدان حشر میں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اپنا فریضہ ادا نہیں کیا؛ اس لئے اس جھوٹے پروپیگنڈہ سے متأثر نہیں ہونا چاہئے۔
ابھی حال میں حجاب کا مسئلہ اٹھا، جو کرناٹک سے شروع ہوا، جوں ہی یہ مسئلہ منظر عام پر آیا، بورڈ کے ذمہ داروں نے کرناٹک کے قانون دانوں اور وہاں کے مذہبی وسماجی قائدین سے بات کی، پہلے اس معاملہ کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی گئی، پھر جب معاملہ عدالت میں گیا تو بورڈ نے مقدمہ کے سلسلہ میں پوری مدد کی، شرعی موقف کے لئے مواد فراہم کیا، قانونی موقف کے لئے مواد فراہم کیا، اور پیش کش کی کہ اس مقدمہ کے لئے جو بھی وسائل مطلوب ہوں، بورڈ فراہم کرے گا، بورڈ کی لیگل کمیٹی کے کنوینر نے عدالت میں بحث کی، پھر جب فیصلہ مسلمانوں کے موقف کے خلاف آیا اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تو بورڈ اس مقدمہ میں فریق بنا اور اس کی طرف سے سینئر مسلم اور غیر مسلم وکلا ء —جناب کپل سبل ، جناب یوسف حاتم مچھالہ ، جناب نظام پاشا اور جناب شمشاد صاحب— نے بحث کی اور دوسرے وکلاء نے بھی اس میں تعاون کیا؛ چنانچہ منقسم فیصلہ آیا جو اَب بری بینچ کے حوالہ ہو چکا ہے، غرض کہ شروع سے بورڈ مسئلہ کی طرف متوجہ رہا؛ البتہ بورڈ ہر بات کو میڈیا میں لانے اور تشہیر کرنے سے بچتا ہے؛ کیوں اس کی وجہ سے بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ بورڈ غفلت سے کام لے رہا ہے۔
اس وقت بھی سپریم کورٹ میں تعدد ازدواج، عورتوں کا حق میراث وغیرہ کے سلسلہ میں شریعت کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہے، جس میں بورڈ فریق ہے، اسی طرح ۱۹۹۱ء کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو باقی رکھنے اور تین طلاق سے متعلق قانون طلاق کو رد کرنے کے سلسلہ میں بورڈ کی طرف سے دعویٰ دائر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اصلاح معاشرہ اور مسلم پرسنل لا سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے تفہیم شریعت کی تحریک مسلسل چل رہی ہے، ملک بھر میں بورڈ کے تحت تقریباََ ایک سو دارالقضاء چل رہے ہیں، مختلف ریاستوں میں امارت شرعیہ کے تحت جو دارالقضاء قائم ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔
بورڈ نے خواتین کو تحفظ شریعت کی مہم میں شامل کرنے کے لئے ایک طرف شعبۂ خواتین (ویمنس ونگ) قائم کیا ہے، جس کو بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ خاتون ارکان کو اصلاح معاشرہ، تفہیم شریعت اور کاؤنسلنگ کے کام میں عملی طور پر شریک کرنے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے، دوسری طرف بورڈ کی مختلف ذیلی کمیٹیوں میں خاتون ارکان کو شریک کیا گیا ہے، اس سے بورڈ کی فعالیت بھی بڑھے گی اور جو لوگ خواتین کے عنوان سے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں، یہ ان کا موثر اور مثبت جواب بھی ہوگا۔
جس درخت پر پھل ہوتے ہیں، اسی پر پتھر پھینکے جاتے ہیں، یہی حال تنظیموں کا ہے، جو تنظیمیں کام کرتی ہیں، بدخواہ ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بورڈ کے سلسلہ میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے، بورڈ کو نقصان پہنچانے کے لئے مختلف سازشیں کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی جاری ہیں، مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے کے لئے کبھی شیعوں کے نام سے بورڈ بنایا گیا اور کبھی خواتین کے نام سے، کبھی جنوب وشمال کے نام سے، کبھی کسی اور نام سے، مسلمانوں میں سے بعض افراد کو کھڑا کیا گیا کہ وہ بورڈ کے خلاف بات کریں، بورڈ کے ارکان میں سے بھی بعض کو اُکسانے کی کوشش کی گئی کہ وہ مسلمانوں کے اس عظیم وفاق کو بدنام کریں؛ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ ساری کوششیں ناکام ونامراد ہی رہیں، اور انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام ہی ہوں گی، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں، افواہوں اور پروپیگنڈوں سے متأثر نہ ہوں اور شیطان جس راستہ سے بھی آئے اس کو پہنچاننے کی کوشش کریں اور اس کے مکر کا شکار نہ ہوں۔