یوں تو رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی فضائل ومناقب کا حامل ہے ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کو کئی ایک وجہ سے خصوصیت حاصل ہے ، اس میں اللہ عزوجل نے کئی ایک اعمال اور عبادتیں ایسے رکھی ہیں جو اس عشرہ اخیر کو سارے دنوں پر فضیلت واہمیت عطا کرتے ہیںاور ان کو دیگر ایام وشہور سے ممتاز کرتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ کے بے انتہا فضائل ومناقب بیان فرمائے ہیںاور خود آپ ﷺ کا معمول یہ تھاکہ رمضان المبارک کے آخری میں عشرہ میں عبادت وریاضت اور رجوع الی اللہ میں خوب اجتہاد اور کوشش فرماتے ۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ: ’’جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتا تو آپ ﷺ اپنی کمر کس لیتے ، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو جگاتے ۔( بخاری، باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان، حدیث:۴ ۲۰۲)
اس حدیث مبارکہ میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں نبی کریم ﷺ کے چار معمولات کا ذکر ہے :
٭۔ تو یہ کہ جب آخری عشرہ آجاتا تو خود آپ ﷺ کمر بستہ ہوجاتے، یعنی پوری جدوجہد اور کوشش کے ساتھ عبادت وریاضت میں لگ جاتے ، مطلب یہ ہے کہ گھر بار اور عورتوں سے یکسو ہو کر بالکل عبادت میں لگ جاتے ، جس کی ایک شکل اعتکاف ہے ۔
٭۔خود نبی کریم ﷺ ان راتوں کو عبادات وذکر وتلاوت قرآن اور دیگر اعمال واشغال میں صرف کرتے ۔
٭۔اپنے اہل وعیال کو بھی نماز ، ذکر وغیرہ پر ابھارتے اوران رمضان کے آخری اوقات کو قیمتی بنانے کے لئے اکساتے اور ترغیب دیتے ۔
٭۔آپ ﷺ کا اس آخری عشرے میں عبادت وریاضت اور رجوع الی اللہ کی مشغولیت دیگر ایام وشہور سے کافی بڑھ جاتی ۔
۱۔آخری عشرہ کی راتوں کو عبادت میں گذاریں :
اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ان راتوں کو انہیں مصروفیات اور عبادت وریاضت اور ذکر وفکر ، تلاوت وتہجد میں گذاریں۔ اہل وعیال کو بھی جگائیں ، ان کو بھی نماز وعبادت کی ترغیب دیں
حضرت امام ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھے یہ پسند ہے کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آجائے تو میں رات میں تہجد پڑھوں، اور خوب مجاہدہ کروں اور اپنے اہل وعیال کو جگاؤ۔
۲۔قرآن کریم کی تلاوت :
اس آخری عشرے میں چونکہ لیلۃ القدر ہے ، اور لیلۃ القدر میں قرآن کریم کانزول ہوا تو قرآن کریم کو اس مہینے سے اور خاص کر رمضان المبارک کے اس آخری عشرہ سے خوب تعلق ہوا ، اس لئے ماہ نزول قرآن میں اور خصوصا آخری عشرے میں جس میں لیلۃ القدر جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کی جائے ، ارشاد باری عز وجل ہے : ’’إنا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘ ( سورۃ القدر: ۱) ہم نے قرآن مجید کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ۔
۳۔۔ لیلۃ القدر کی تلاش :
رمضان المبارک کے عشرہ اخیر میںلیلۃ القدر کی تلاش کا نبی کریم ﷺ نے حکم فرمایا ، جس رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے جس کی مقدار تیراسی (۸۳) سال ہوتی ہے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو (ترمذی: باب ما جاء فی لیلۃ القدر، حدیث: ۷۹۲)
امام ترمذی اس روایت کے تحت میں فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ سے لیلۃ القدر کے سلسلہ میں اکیس، تئیس ، پچیس ، ستائیس اور انتیس اور رمضان المبارک کی آخری رات کا ذکر منقول ہے ، حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ان مختلف روایات کی وجہ یہ ہے کہ آپ اسی طرح جواب مرحمت فرماتے تھے جس طرح آپ سے سوال کیا جاتا تھا، جب کسی صحابہ سے سوال پر یہ کہا جاتا کہ اس کو فلاں ـتاریخ میں ـتلاش کرو تو وہ اسی میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کو روایت کرتے ، امام شافعی فرماتے ہیں کہ : میرے یہاں اکیس والی روایت زیادہ قوی ہے ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ وہ ستائیس کی رات ہے ، وہ فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس کی علامات بتائیں تو ہم نے اس کو شمار کر کے یاد کر لیا تھا، حضرت ابو قلابہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں گھومتی رہتی ہے (ترمذی ، حوالہ سابق )
۴۔ اعتکاف:
اعتکاف نہایت عظیم الشان عبادت ہے ، اس عشرہ اخیر میں عبادت کی یکسوئی کا سب سے اہم ذریعہ ’’اعتکاف ‘‘ ہے، یہ در اصل رمضان کے مجاہدہ اورعبادت وریاضت کا تتمہ ہے اور بندہ کا اپنے رب کے ساتھ لگاؤ اور اس سے مانگنے اور اس سے بخشش کی طلب کا ایک عاشقانہ انداز ہے ، تمام طرح کی عبادتوں کی ادائیگی کے بعد پھر بندے کو اپنے محبوب خدا سے ملاقات وشوق اور اپنے گناہوں کی بخشش کا شوق اس قدر زیادہ ہوجاتاہے وہ در خداوندی میں سارے کاروبار اور دھندوں سے یکسو کر پڑجاتا ہے ، اور عبادت وریاضت میں آخری عشرہ کے ان ایام کو گذار اللہ عزوجل کے انعامات اور اس کی بخشش کا طالب ہو تاہے ، اعتکاف کا عمل نہایت مہتم بالشان عمل ہے ، خود نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے ، بخاری شریف کی رویات ہے :
نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے ( بخاری : باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان، حدیث: ۲۰۲۵) آپ نے تاحیات آخری عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام فرمایاحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم رمضان کے آخری عشر ہ کا اعتکاف تاحیات کرتے رہے ’’ حتی قبضہ اللہ ‘‘ ( ترمذی: باب ما جاء فی الاعتکاف، حدیث: ۷۹۰)
اعتکاف کاایک خوبی یہ ہے کہ معتکف خود یکسو ہو کر چونکہ در خداوندی میں پڑا ہوتا ہے تو یہ سارے گناہوں سے بچ جاتا ہے ، لیکن خیر اور بھلائی کے دیگر اعمال اپنے بھائی کی مدد وعیادت ، نماز جنازہ میں شرکت وغیرہ اس طرح کے اعمال سے رہ جاتا ہے تو اس کو اللہ عزوجل ان اعمال کو بجالانے والے کے مثل ثواب اور بدلہ عنایت فرماتے ہیں ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ معتکف گناہوں سے بچتا ہے ، اوراس کے لئے عمل کو انجام دینے والے کے مثل ثواب دیا جاتا ہے (سنن ابن ماجۃ : باب فی ثواب الاعتکاف، حدیث: ۱۷۸۱)
۵۔انفاق فی سبیل اللہ :
اللہ کے راہ میں خرچ کرنا اور انفاق فی سبیل اللہ بھی اس مہینے کا خاص وصف ہے ، اس مہینے کو سخاوت کا مہینہ فرمایا گیا، اس لئے اس مبارک آخری عشرے میں انفاق فی سبیل اللہ اور زکاۃ وصدقات نافلہ اور صدقہ فطر کی ادائیگی کا خوب اہتمام ہو ، رمضان المبارک کی خاص رحمتوں کے جہاں ہم مستحق بن سکیں ، وہیں غریبوں کی غربت اورمفلسی کا علاج اور مداوا بھی ہوجائے ۔
رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت اہمیت وفضیلت کا حامل ہے ، اس لئے بجائے اس کے ہم اسے رمضان کی شاپنگ کی نظر کردیں ، یہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ دیگر ایام وشہور کے مقابل اس میں زیادہ ریاضت وعبادت کا اہتمام کریںاور اس مہینہ میں خصوصا لیلۃ القدر کی تلاش میں اعتکاف کریں ، راتوں کو جاگیں عبادت وریاضت میں صرف کریں، خصوصا طاق راتوں کو عبادت وریاضت میں گذاریں کہ طاق راتوں میں شب قدر کے حاصل ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے ۔
استاذ حدیث دار العلوم دیودرگ ، رائچور
rafihaneef90@gmail.com