قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ، نبی ﷺ کا معجزہ،امتِ مسلمہ کا دستورِ حیات اور انسانی منشور ہے ، اس عظیم کلامِ پاک کو ماہِ مبارک سے خصوصی نسبت اور تعلق ہے ، بلکہ منقول ہے کہ گذشتہ آسمانی کتب کا نزول بھی اسی بابرکت مہینہ میں ہوا، اور قرآن عظیم __جسے دوسرے کلاموں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے خالق تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر __کا یکبارگی نزول بھی اسی ماہِ مقدس کی عظیم الخیر شب یعنی لیلۃ القدر میں ہوا ، حق تعالیٰ نے ماہِ رمضان کا ذکر اپنےکلامِ مجید کے ساتھ کچھ اس انداز میں بیان فرمایا کہ معلوم ہوتا ہےکہ رمضان کی عظمت میں چارچاند قرآن پاک ہی سےلگے ہیں، شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔کلامِ ربانی عظمتوں کے جلومیں اس زمین پر اُترا ، غور کیجئے کہ تخلیقِ کائنات سے ہزار برس قبل باری تعالیٰ نے خود اُسے پڑھا ، آسمان سے سید الملائکۃ جبرئیل امین علیہ السلام لے کر آئے ،سید الانبیاء والمرسلین ﷺکے قلب ِ اطہر پرالقاء کیا گیا ، حرمین شریفین جیسے باوقار مقامات اور اُن کی پُر نور فضائوںمیں اس کا نزول ہوا، بلکہ جس شئی کو بھی کلامِ الٰہی سے ادنیٰ تعلق ہوااُسے عظمت وتقدس حاصل ہو گیا۔
چناں چہ کلامِ ربانی پر ایمان لانا عقائد ِ اسلام کا حصہ ہے ، اس کی تلاوت ایمان کی پختگی کاسبب ہے ، اس کی تعلیم وتعلم اور افہام وتفیہم بہترین عمل ہے ، اُسے قلوب میں محفوظ کرنا رفع درجات اور رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے ، اس پر عمل کرنا ذریعہ نجات ہے ، جسمانی وروحانی مریضوں کے لئے شفاء ہے ، گم راہوں کے لئے ہدایت نامہ ہے منکرین کے لئے حجت ِ قاطعہ ہے، متقین ومؤمنین کے لئے شفیع ہے ۔ غرض یہ کہ قرآن کریم بے مثال اورلازوال کتاب ہے ۔ اس لئے امتِ مسلمہ کو چاہیئے کہ اپنا رشتہ کلامِ الٰہی سے جوڑ کر سروخروئی حاصل کرے ، بالخصوص ماہِ صیام میں کثرت سے تلاوت کا معمول بنائے ، اُسے سیکھنے، سُننے ، پڑھنے ،سمجھنے کے لئے اپنا وقت فارغ کرےاورعملی زندگی کا لازمی حصہ بنائے ۔
ہرشخص اپنے بارے میں غور کر لے کہ اُسے قرآن پڑھنا آتا ہے یا نہیں ؟تجوید سے پڑھنے پر قادر ہے یا نہیں ؟ تلاوت کا معمول ہے یا نہیں ؟ مضامین قرآن کو جانتا اور سمجھتا ہے یا نہیں ؟آدابِ قرآن سے واقف ہے یا نہیں ؟ احکامِ قرآن پر عمل ہے یا نہیں ؟ جس کو جس حصہ میں کمی معلوم ہواُسے دور کرنے کا پختہ ارادہ کر لے اور رمضان المبارک میں کوشش اورفکر کرکے ان خامیوں کے ازالہ کرے، نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں قرآن سے ایسا قوی تعلق ہوجائے کہ سال بھراس کی تلاوت کے بغیر رہنا مشکل ہوجائے ۔
قرآن عزیز کے امت پر بہت حقوق ہیں جن کو علماء نے کتابوں میں تفصیل سےبیان فرمایا ہے، مثلاً قرآن کو سیکھنا ، اس کی تلاوت کرنا ، اس کے آیات کے مطالب کو سمجھنا ، اس کے احکامات پر عمل کرنا ،اُسے دوسروں کے سینوں میں منتقل کرنا وغیرہ ، اس مختصر مضمون میں ان اہم حقوق پر تفصیلی گفتگو مقصود نہیں البتہ یہ تذکیر ضرورپیش نظر ہے کہ ماہِ رمضان کےشب وروز قرآن مجید کی تلاوت سے معمور ہوں ،بلکہ ہر گھر کےافراد ایک دوسرے کی یاد دہانی کراتے رہیں ، تلاوتِ قرآن میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا ماحول بنایا جائے ، بچے بچے کو معلوم ہوجائے کہ یہ مہینہ قرآن پڑھنے کا ہے ، ذرا خالی وقت ملا ہاتھ میں قرآن ہو اور گھرکے بڑے چھوٹے سبھی قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہوں،کم از کم اس ایک حق کی ادائیگی میں تواس مہینےمیں کامیاب ہوجائیں ، پھر اس کی برکت سے دوسرے حقوق کی بھی فکر نصیب ہوجائے گی۔
معلوم ہونا چاہیئے کہ قرآن پاک کو باتجوید سیکھنا ہر بالغ مسلمان پر فرض عین ہے ، اگر تجوید سے قرآن پڑھنا نہیں سیکھا تو گنہگار ہوگا ،اس لئے قرآن پاک تجوید کے ساتھ پڑھنا سیکھے اور اس کی تلاوت کابھی اہتمام کرے ، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر جو سب سے پہلی وحی نازل فرمائی اُسی میں آپ کو قرآن پڑھنے کی تلقین کی ’’آپ قرآن پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے ‘‘(العلق : ۳)دوسری جگہ فرمایا ’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اس کی تلاوت فرمائیے ‘‘ (العنکبوت:۴۵)ایک موقعہ پر تلاوت قرآن کا انداز بتاتے ہوئےارشاد فرمایا ’’قرآن پاک کو صاف صاف خوب واضح پڑھیے ‘‘(المزمل:۴)چناں چہ شب کو نمازوں میں قرآن کریم کی تلاوت کرنااور دن میں اُمت کےسامنے اس کے مضامین توضیح وتبیین اور تعلیم وتعلم کرنا آپ ﷺ کا وظیفۂ حیات تھا ،ہر رمضان میں ایک دور حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ فرماتے ، وفات کےسال دو دور قرآن مجید کے کئے ۔ اور اصحاب کرامؓ کو تلاوت ِ قرآن کے فضائل وفوائد بتا بتاکر اُن کی زندگیوں کو بھی قرآن سے معمور فرمادیا ، چناںچہ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا :’’ قرآن پڑھو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا ‘‘ (مسلم ) قرآن سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم میں بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے‘‘ ۔(بخاری )ایک موقعہ پر یہاں تک فرمایا’’ جس شخض کے دل میں کچھ بھی قرآن کا حصہ نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے ‘‘۔ (ترمذی )اپنے گھروں کو طاعات سے خالی رکھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ’’اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائو ،(کہ جہاں اللہ کی یاد والے اعمال ہی نہ ہوں) بلاشبہ شیطان اس گھر سے بہت دور رہتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے ‘‘ (مسلم ) قرآن کریم کی تلاوت کا ثمرہ بیان کرتے ہوئے فرمایا’’ جو قرآن کا ایک حرف پڑھے گا اُسے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس نیکی کے برابر ہے (گویا ایک حرف پر دس نیکیاں ملیں گی) میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے ، اور میم ایک حرف ہے ۔‘‘(ترمذی)(یعنی الم پڑھنے پر تیس نیکیاں ملیں گی ) ایک روایت میں ہے کہ ام المؤمین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’نماز میں قرآن پڑھنا غیر نمازمیں قرآن پڑھنے سے افضل ہے ، اور نماز سے باہر قرآن پڑھنا تسبیح وتکبیر سے افضل ہے ، اور تسبیح صدقہ کرنے سے افضل ہے ،اور صدقہ کرنا (نفل) روزہ رکھنے سےافضل ہے ، اور روزہ رکھنا جہنم سے (حفاظت کی ) ڈھال ہے ۔(مشکوٰۃالمصابیح) حفاظِ قرآن اور جنھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد اُنھیں اس کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ’’ اس قرآن کی (تلاوت وقرأت سے ) نگرانی کرتے رہو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد( ﷺ)کی جان ہے یہ (تمہارے سینوں سے ) نکلنے میںرسی سے بندھے ہوئے اونٹ سے بھی زیادہ تیز ہے ۔‘‘ (متفق علیہ ) (یعنی تلاوت نہیں کروگے تو بہت جلد بھول جائو گے )۔
یہ چند روایات ہیں ورنہ کتب ِ حدیث ایسی بے شمار روایات ہیں جو قرآن سے تعلق قائم کرنے کی ترغیب دے رہی ہیںاور نہ قائم کرنے پر وعیدات سنا رہی ہیں ، اہل ایمان واصحاب ِفکر وعمل کے لئے تو نبی ﷺ کا ایک ارشاد ِ گرامی بھی کافی ہے ،امت کے قدردانوں نے رمضان اور قرآن کو ایسا جمع کیا کہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے تلازم بالکل عیاں ہوگیا ، اہل عمل کے واقعات ، قابل ِ تقلید حکایات سے کتابیںپُر ہیں :
چناںچہ ےامام اعظم ابو حنیفہ ؒ نے اکثر رمضان کے ایک مہینہ میں ۶۰؍ قرآن ختم کئے ۔(تذکرۃ النعمان )
ےامام شافعی ؒ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے ، اور رمضان میں رات دن دو قرآن ختم کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد )
ماضی قریب کے اکابر میں ےحضرت شیخ الہند ؒ حافظ تو نہیں تھے لیکن رمضان کی رات کا اکثر حصہ اور کبھی پوری رات کئی کئی حفاظ سے قرآن پاک سُننے تھے ۔
ےاعلیٰ حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوری ؒ کا مشغلہ دن رات تلاوتِ کلام ُ اللہ کا تھا۔
ےحضرت شیخ الحدیث ؒ کے والد گرامی حضرت مولانا یحییٰ کاندھلو ی ؒ رمضان میں دن بھر میں چلتے پھرتے پورا ختم فرمالیتے اور افطار کا وقت قریب ہوتا تو ان کی زبان پر قل اعوذ برب الناس ہوتی تھی ۔
خواتین بھی اس عبادت میں مردوں سے کچھ پیچھے نہ تھیں ، چنانچہ ے نواب عشرت علی خان قیصر کی والدہ محترمہ کو قرآن پاک کی تلاوت کا بے حد شغف تھا ، ماہِ رمضان میں تین روز میں ایک قرآن شریف ختم کرنے کا معمول تھا ۔
ےحضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی ؒ کی والدہ محترمہ نے شادی کے بعد قرآن پاک حفظ کیا ، رمضان میںروزانہ ایک قرآن اور مزید دس پارے پڑھ لیا کرتی تھیں ،اس طرح ہررمضان میں چالیس قرآن مجید ختم کیا کرتی تھیں۔
ےحضرت شیخ الحدیث ؒ کی صاحبزادیاں خانگی مصروفیات کے ساتھ دن میں روزانہ نصف قرآن کم از کم پڑھ لیا کرتی تھیں، اور شب کا اکثر حصہ حفاظ ِ قرآن سے کلامُ اللہ سننے میں گذارتی تھیں ؎
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہِ مبارک رحمتوں سےفیض یاب فرمائے ، اور قرآن عزیز سے مضبوط رشتہ قائم فرمادے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وعلی اٰلہ واصحابہ اجمین