شب قدر کی عبادت: رمضان کی راتوں میں ایک رات شب ِقدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر وبرکت والی رات ہے اور جس میںعبادت کرنے کو قرآن کریم میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ ہزار مہینوں کے ۸۳ سال اور ۴ ماہ ہوتے ہیں۔ گویا اِس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔ اور ہزار مہینوں سے کتنا زیادہ ہے ؟ یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرہ میںہوتی ہے۔ لہذا اِس آخری عشرہ کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ پانچوں نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کا اہتمام کریں،دن میں روزہ رکھیں، رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزاریں، تراویح اور تہجد کا اہتمام کریں، اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اپنے اور امت مسلمہ کے لئے دعائیں کریں، قرآن کریم کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کریں۔ شب قدر کی اہمیت وفضیلت کے متعلق خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:بے شک ہم نے قرآن پاک کو شب ِقدر میں اتارا ہے ،یعنی قرآن کریم کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے ، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے ، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب ِقدر کی عبادت کا ہے، اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اترتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔ (سورۃ القدر)
سورۃ العلق کی ابتدائی چند آیات سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۃ القدر میں بیان کیا گیا کہ یہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۃ الدخان کی آیت نمبر ۳ میں ہے: ہم نے ایک مبارک رات میں قرآن کریم کو اتارا ہے۔ اور سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۸۵ (رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا ہے) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
شب قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے جس میں تقدیروں کے فیصلے کئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۃ الدخان آیت نمبر ۴ میں ہے: اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر ومنزلت اور عظمت وشرف رکھنے والی رات ہے۔ اس رات میں قرآن کریم کے نازل ہونے کا مطلب لوح محفوظ سے سماء دنیا پر اترنا ہے یا اس رات میں پورا قرآن کریم حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کیا جانا مراد ہے یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی ابتدا اس رات میں ہوئی اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ سال کے عرصہ میں نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا۔
شب قدر کی فضیلت واہمیت کے متعلق متعدد احایث کتب احادیث میں موجود ہیں، یہاں اختصار کی وجہ سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے والا بنائے، آمین- رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص شب ِقدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوتِ قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عمل کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا، اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃ ً محروم ہی ہے۔ (ابن ماجہ) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : شب ِقدر کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری) (مذکورہ حدیث کے مطابق شب قدر کی تلاش ۲۱ ویں ، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں، ۲۷ ویں، ۲۹ ویں راتوں میں کرنی چاہئے)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: پڑھو: اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الۡعَفۡوَ فَاعۡفُ عَنِّی(اے اللہ تو بیشک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو ، پس مجھے بھی معاف فرمادے ۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی)
شب قدر کی دو اہم علامتیں: شب قدر کی دو اہم علامتیں کتب احادیث میں مذکور ہیں: ایک یہ کہ رات نہ بہت زیادہ گرم اور نہ بہت زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے یعنی گرمی یا سردی کے جس موسم میں رمضان گزر رہے ہیں اس موسم کے اعتبار سے درمیانی موسم رہے گا۔ دوسری علامت یہ ہے کہ شب قدر کے بعد صبح کو سورج کے طلوع ہونے کے وقت سورج کی شعاعیں یعنی کرنیں نہیں ہوتی ہیں۔نوٹ: اختلافِ مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب ِقدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب ِقدر قرار پائے گی اُس جگہ اُسی رات میں شب ِقدر کی برکات حاصل ہوں گی ، ان شاء اللہ۔
اعتکاف:ثواب کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔ اعتکاف میں انسان دنیاوی مشاغل چھوڑکر اللہ تعالیٰ کے در یعنی مسجد کا رخ کرتا ہے۔ پوری توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو خاص تعلق اور قربت پیدا ہوتی ہے وہ تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: مسنون اعتکاف: یہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے جو سنت علی الکفایہ ہے یعنی محلہ میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا ورنہ سب ترکِ سنت کے گناہ گار ہوں گے۔ رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہزار مہینوں یعنی ۸۳ سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ ۲ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے وفات تک نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ رمضان میں اعتکاف فرمایا۔ واجب اعتکاف: یہ نذر ماننے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے : مثلاً کوئی شخص کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ نذر کے لئے روزہ کے ساتھ کم از کم ایک دن کا اعتکاف ضروری ہوتا ہے۔ مستحب اعتکاف: جب بھی آدمی مسجد میں داخل ہو تو یہ نیت کرلے کہ جب تک میں اس مسجد میں رہوں گا اعتکاف کی نیت کرتا ہوں۔ اس اعتکاف میں وقت اور روزہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ مسجد سے نکلنے پر اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔
مسنون اعتکاف سے متعلق بعض احادیث نبویہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی، پھر خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتہ) نے بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ (بخاری مسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔ (بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے لئے فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے مسجد میں مقید ہوجانے کی وجہ سے) گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لئے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لئے (یعنی اعتکاف کرنے والا بہت سے نیک اعمال مثلاً جنازہ میں شرکت، مریض کی عیادت وغیرہ سے اعتکاف کی وجہ سے رکا رہتا ہے، ان اعمال کا اجروثواب اعتکاف کرنے والے کو کئے بغیر بھی ملتا رہتا ہے)۔ (ابن ماجہ)
خواتین کا اعتکاف: امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اگر عورت مسجد میں اعتکاف کرے تو بھی اس کا اعتکاف صحیح ہوجائے گا، مگر ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر علماء کرام نے فرمایا کہ عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد کے بجائے گھر کی وہ خاص جگہ جو عموماً نماز وغیرہ کے لئے مخصوص کرلی جاتی ہے زیادہ بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے خواتین کو مسجد کے بجائے گھر میں نماز پڑھنے کے لیے ترغیب دیتے تھے۔ نیز اس کے متعدد دلائل ہیں مگر اختصار کے مدنظر صرف صحیح بخاری کی ایک حدیث پیش خدمت ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ میں آپ کے لئے (مسجد میں) ایک خیمہ لگادیتی اور صبح کی نماز پڑھ کر آپ ﷺاس میں چلے جاتے۔ پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ نصب کرنے کی (اپنے اعتکاف کے لئے) اجازت چاہی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ نصب کرلیا۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (اپنے لئے) ایک اور خیمہ نصب کرلیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کئی خیمے دیکھے ۔ دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺکو (حقیقت حال کی ) اطلاع دی گئی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اسے وہ اپنے لئے نیک عمل سمجھ بیٹھی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اس مہینہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ دیا اور شوال کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا۔ (صحیح بخاری ۔ باب اعتکاف النساء ، حدیث نمبر ۱۸۹۶) غرضیکہ امہات المؤمنین کے مسجد میں اس طرح اعتکاف کرنے کو حضوراکرم ﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔
اعتکاف کے بعض اہم مسائل واحکام: معتکف کو بلا ضرورت شرعیہ وطبعیہ اعتکاف والی مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔ معتکف کے متعلقین میں سے کوئی سخت بیمار ہوجائے یا کسی کی وفات ہوجائے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے یا معتکف خود ہی سخت بیمار ہوجائے یا اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجائے تو معتکف کے مسجد سے چلے جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا لیکن ایسی مجبوری میں چلے جانے سے گنا ہ نہیں ہوگا ان شاء ا للہ۔ البتہ بعد میں قضا کرلینی چاہئے۔
(www.najeebqasmi.com)