اطاعتِ رسول
’رسول‘ [Messenger]کی حیثیت اسلام میں محض پیام بر کی نہیں، بلکہ رسول کی اطاعت مستقل حیثیت سے واجب ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {یاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ}اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔(النساء) اس آیت میں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کو مستقل طور پر واجب قرار دیا گیا، اس لیے کہ ان دونوں اطاعت کے لیے قرآنِ کریم میں مستقل طور پر لفظ {أطیعوا} استعمال فرمایا گیا۔ اطاعتِ رسول کے مستقل واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ہر حکم مانا جائے، خواہ اُس کی اصل ہمیں قرآن میں معلوم ہو سکے یا نہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ بعض سنتوں کی اصل قرآنِ کریم میں موجود نہیں،بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ رسول کی اطاعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیںمکلَّف ہی نہیں بنایا کہ اس کی سنت میں تلاش کی جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ رسول کی اطاعت بھی صرف اُن احکام تک محدود ہے، جن کا ذکر قرآنِ کریم میں صاف صاف موجود ہے، تو پھر اصلاً اِس آیت کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا، اس کے علاوہ بھی بیسیوں آیتیں ہیں، جن میں اطاعتِ رسول کا علاحدہ حکم دیا گیا ہے، جن کا مطلب یہی ہے کہ آپﷺ کی براہِ راست اطاعت کی جائے۔ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ حکم خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے، اس لیے اگر کوئی رسول کی اطاعت نہیں کرتا، وہ اصلاً اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اور گویا رسول کی اطاعت میں بھی اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت کے ساتھ یوں فرما دیا:{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ}جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔(النساء)نیز ارشاد ربّانی ہے:{وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھٰر، وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًا} جو شخص اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جو کوئی رو گردانی کرے گا، اسے درد ناک عذاب دیں گے۔(الفتح) رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (بخاری)
ان آیات و روایات سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر یا رسول پر ایمان لانا ہی کافی نہیں،بلکہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔ کوئی انسان محض {آمَنتُ بِاللہِ وَ رَسُولِہٖ}کہہ کر ایمان والا نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک اللہ و رسول کی اطاعت نہ کرے۔ قرآنِ کریم کا اعلان ہے:{ فَلاَ وَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} پس قسم ہے آپ کے رب کی! یہ ایمان والے نہ ہوں گے، جب تک آپس کے اختلافات میں آپ ہی کو حَکَم نہ ٹھہرائیں، (اور جب آپ کو حکم بنا لیں تو) اس کے بعد آپ کے فیصلے سے اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پوری طرح اُس کے سامنے سر نگوں نہ ہوجائیں۔(النساء)نیز باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَمَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ،وَمَا نَھٰئکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا، وَاتَّقُوا اللہَ، اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ}جو کچھ رسول تمھیں دیں، وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رُک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک! اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (الحشر)
یہ بھی یاد رہے کہ اطاعت کے معنی احکام کی اطاعت ہے، ذات کی اطاعت نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے معنی اُس کی کتاب کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کے معنی اُس کے احکام کی اطاعت ہے اور یہاں رسول کی اطاعت میں اُن کی حیات و وفات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ خواہ آپ ہمارے سامنے موجود نہ، لیکن اپنے روضے میں تو موجود ہیں اور اطاعت کے لیے مُطاع کا سامنے ہونا شرط نہیں۔
احترامِ رسول
رسول اللہﷺ کا نہایت ادب و احترام ایمان والوں پر لازم و ضروری بلکہ ایمان کا جز وہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان والوں کے سامنے رسول اللہﷺ کے ذریعے ہی، رسولوں کو بھیجنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:{اِنَّآاَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْراً، لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ، وَ تُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً}بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ، اُس کا ساتھ دو اور اُس کا ادب کرو، الخ۔ (الفتح)
آپﷺ کے غایت درجے احترام کی نسبت ایمان والوں کو سخت تنبیہ کی اور ارشاد فرمایا:{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ}اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرو، جیسے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمھارے (اس بے ادبی کے باعث) تمام( نیک) اعمال برباد ہو جائیں اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔ (الحجرات)
یہی وجہ تھی کہ حضرت مالک بن انسؓجب حدیثِ رسول بیان کرنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے غسل فرماتے، پھر عود کی دھونی لیتے، خوش بو لگاتے اور اگر کوئی اس دوران آپؓسے اونچی آواز میں بات کرتا، تو فرماتے ’اپنی آواز پست رکھو‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، الخ۔ پس جس نے حدیثِ رسول سنتے ہوئے اونچی آواز سے کوئی بات کی، اُس نے گویا رسول اللہﷺ کی آواز سے اپنی آواز اونچی کی۔ (سیر اعلام النبلاء )
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۔(اے لوگو) اپنے درمیان رسول کو بلانے کو ایسا (معمولی) نہ سمجھو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہو۔(النور) معنی آیت کے یہ ہیں کہ آں حضرت ﷺ جب لوگوں کو بلائیں تو اس کو عام لوگوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو کہ اس میں آنے نہ آنے کا اختیار رہتا ہے، بلکہ اس وقت آنا فرض ہوجاتا ہے اور بغیر اجازت جانا حرام ہوجاتا ہے۔ آیت کے سیاق وسباق سے یہ تفسیر زیادہ مناسب لگتی ہے، اسی لیے ’مظہری‘ اور ’بیان القرآن‘ میں اس کو اختیار کیا ہے اور اس کی ایک دوسری تفسیر حضرت عبداللہ ابن عباس سے ’ابن کثیر‘ اور ’قرطبی‘ وغیرہ نے یہ نقل کی ہے کہ {دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ} سے مراد لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کو کسی کام کے لیے پکارنا اور بلانا ہے (جو نحوی ترکیب میں اضافت الی المفعول ہوگی )اس تفسیر کی بنا پر معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ جب تم رسول اللہ ﷺ کو کسی ضرورت سے بلاؤ یا مخاطب کرو تو عام لوگوں کی طرح آپ کا نام لے کر-یا محمد- نہ کہو کہ بےادبی ہے بلکہ تعظیمی القاب کے ساتھ ’اے اللہ کے رسول‘، ’اے اللہ کے نبی‘ وغیرہ کہا کرو۔ اس کا حاصل رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا مسلمانوں پر واجب ہونا اور ہر ایسی چیز سے بچنا ہے، جو ادب کے خلاف ہو یا جس سے آں حضرت ﷺ کو تکلیف پہنچے۔ (معارف القرآن)
محبتِ رسول
رسول اللہﷺ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جزو ہے اور محبت بھی ایسی جوانسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو۔ ایمان والوں کی صفات بتاتے ہوئے قرآنِ کریم گویا ہے:{ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُہُم}نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدَّم ہے۔ (الاحزاب) اس کا حاصل یہ ہے کہ آپﷺ کا حکم ہر مسلمان کے لیے اپنے ماں باپ سے زیادہ واجب التعمیل ہے، اگر ماں باپ آپﷺ کے کسی حکم کے خلاف کہیں، اُن کا کہنا ماننا جائز نہیں، اِسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپﷺ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔ (معارف القرآن:)
ایک مقام پر ارشادِ ربانی ہے:{ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ، وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْن} اے نبی! کہہ دیجیے کہ اگر تمھارے ماں، باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، عزیز و اقارب اور وہ مال جو تم نے کمایا ہے، تمھاری تجارت- جس کے مندا پڑنے کا تمھیں ڈر ہے- اور تمھارے پسندیدہ گھر،اگر تمھیں اللہ اور اُس کے رسول کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیارے ہیں تو پھر انتظار کرو حتیّٰ کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (جو اس طرح کا معاملہ کرتے ہیں)۔(التوبہ)نیز رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی، اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اُس کے نزدیک ،اُس کی اولاد سے زیادہ، اُس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ، میں محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری)
یہ بھی یاد رہے کہ محبتِ رسول میں حد سے بڑھ جانا بھی نامناسب عمل ہے یعنی شریعتِ اسلام میں رسول کی عظمت و محبت تو فرض ہے، اس کے بغیر ایمان ہی نہیں ہوتا، مگر رسول کو کسی صفت یا علم یا قدرت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے برابر کر دینا گمراہی اور شرک ہے۔ قرآنِ کریم نے شرک کی حقیقت یہی بیان فرمائی ہے کہ غیر اللہ کو کسی صفت میں اللہ کے برابر کریں{اِذْنُسَوِّیْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ }(الشعراء) کا یہی مفہوم ہے۔ (معارف القرآن، بتغیر)