اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مجموعہ حاجات بنا کر پیدا فرمایا ہے ،انسان قدم قدم پر اللہ کا محتاج اور اُس کی مدد کا طالب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قرآن حکیم کے ذریعہ پیغام دیا کہ ہر حالت اور ہر موقع پر وہ اُسی کو پکاریں، اسی سے فریادرسی کریں اور اسی کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کریں یقینا وہ تمہاری دعائیں قبول کرنے والا ہے ارشاد خدا وندی ہے ’’ادعونی استجب لکم‘‘ تم مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا،دعا درحقیقت اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور اپنے احوال سے واقف کرانے اور اس سے فضل وکرم کی درخواست کرنے کا بہترین طریقہ ہے ،دعاء کے ذریعہ عبدیت کامل کا اظہار ہوتاہے ،جب بندہ حضورِ قلبی ،عاجزی ونکساری اور اپنی بے بسی ودرماندگی کے اظہار کے ساتھ دعاء کرتاہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کی پکار سنتے ہیں بلکہ اسے مانگنے سے بڑھ کر عطا کرتے ہیں اور اس سے اس کی مصیبت وپریشانی دور کرکے راحت وآرام عطا کرتے ہیں ،رسول اللہ ؐ نے ہر وقت اور ہر حال وہر حالت میں دعائیں مانگنے کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے ،دعا کے متعلق ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعاسے زیادہ عزیز نہیں (ترمذی)، رسول اللہ ؐ نے تو دعا کو’’ مومن کا ہتھیار قرار دیا ہے اسی طرح اسے دین کاستون اور زمین وآسمان کا نور فرمایاہے (مستدرک حاکم )،اللہ تعالیٰ سے جس طرح دیگر عبادات کی توفیق مانگا کرتے ہیں بندوں کو چاہے کہ دعا کی توفیق بھی مانگا کرے ،کیونکہ جسے دعا کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے اس کے لئے آسمان سے رحمتوں اور عنایتوں کے در کھول دئے جاتے ہیں ، رسول اللہ ؐ نے ایک حدیث شریف میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: تم میں سے جس کیلئے دعاء کا دروازہ کھل گیا ( تو سمجھ لو کہ)اُس کیلئے رحمت کے دروازے کھل گئے (ترمذی)،دعا اپنے اندر بَلا کی تاثیر رکھتی ہے ،اس کے ذریعہ ہر مشکل دور ہوتی ہے ،ہر بلا سے نجات حاصل ہو تی ہے ،ہر ناممکن چیز ممکن ہو جاتی ہے بلکہ دعا سے تو تقدیر بدل جاتی ہے ،چنانچہ ایک روایت میںرسول اللہ ؐ نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: عاء تقدیر کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے (ترمذی )۔
بندہ مومن کے لئے بڑی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر عظیم الشان عبادات کی طرح دعا کو بھی بذات خود عبادت قرار دیا ہے ،حالانکہ انسان اس کے ذریعہ اللہ سے اپنے لئے بہت سی چیزیں مانگتا ہے اور بہت سی چیزوں سے پناہ طلب کرتا ہے ، بندوں کایہ عمل اللہ کو اس قدر پسند ہے کہ اس نے اسے بھی عبادت میں شامل کر دیا ہے اور مانگنے والوں کو مانگی ہوئی چیزوں سے ہٹ کر وہ اجر عظیم عطا کرتا ہے جو عظیم عبادتوں کے لئے مختص ہے ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: دعا (کو) بذات خود عبادت (کا درجہ حاصل ) ہے (مسند احمد)، دعا کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے بہت کچھ مانگتا ہے اور پوری زندگی مانگتا رہتا ہے اور یقینا اسے مانگتے رہنا بھی چاہے کیونکہ بندہ تو کل محتاج ہے مگر رب کی مہربانی کہ وہ مانگنے پر نہ صرف دیتا ہے بلکہ بہت کچھ دیتا ہے ، یقینا وہ تو مختار کل ہے ،اس کی محبت و رحمت کہ مانگنے پر خوش اور نہ مانگنے پر ناراض ہوتاہے رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ :من لم یسأل اللہ یغضب علیہ(ترمذی)’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا تواللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں ‘‘،رسول اللہ ؐ نے بار ہا دعا کی طرف اپنی امت کی توجہ مبذول کروائی ہے اور ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کی تعلیم وترغیب فرمائی ہے بلکہ آپ ؐ نے ازراہ شفقت وعنایت اپنی امت کو دعاؤں کے الفاظ تک بتلائے اور سکھلائے ہیں اوریہ بھی بتایا کہ کس موقع پر کونسی دعا ء کے ذریعہ رحمت خداوندی کو متوجہ کیا جائے، رسول اللہ ؐ نے تو ہر چھوٹی ، بڑی ،معمولی اور غیر معمولی چیز وں کو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنے کی تعلیم دی ہے، حتی کہ فرمایا اگر تمہاری چپل کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اُسے بھی اللہ ہی سے مانگو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہیں جو مخلوق کی حاجت پوری کرتے ہیں اور اس کی مرادوں کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔
مشہور صحابی ٔ رسول حضرت ابن عباس ؓفرماتے ہیں ایک دن میں رسول اللہ ؐ کے پیچھے چل رہاتھا ،آپ ؐ نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! اللہ تعالیٰ کا خیال رکھو تو اللہ تعالیٰ بھی تمہا را خیال رکھے گا ،اللہ تعالیٰ کا خیال رکھوتو تم اسکو اپنے پاس پاؤگے ،اور جب تم سوال کرو تو بس اللہ تعالیٰ سے سوال کرو، اور جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مدد چاہواور اس کا یقین رکھو کہ اگر ساری دنیااس مقصد کیلئے جمع ہوجائے کہ تمہیں کچھ نفع پہنچائے تو اس کے سوا کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر ساری مخلوق اس مقصد کیلئے جمع ہوجائے کہ تمہیں کچھ ضرر پہنچائے تو اس کے سوا کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتی جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ،پھر فرمایا کہ فیصلے لکھنے والے قلم اٹھا لئے گئے اور صحیفے سوکھ چکے یعنی جو ہونا تھا لکھ دیا گیا اب اس میں ردو بدل نہیں ہوگا ( مشکوۃ)،اس حدیث شریف میں آپ ؐ نے ابن عباسؓ کو جہاں اور نصیحتیں فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم یہ بھی ہے کہ : حرج مرض انسان کا ساتھی ہے اس کے بغیر وہ دنیوی زندگی گذار نہیں سکتا ،انسان اپنی حاجت پوری کرنے کیلئے عالم اسباب میں کوشش اور سعی تو کرتا رہے مگر اس کے پورا ہونے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ مدد بھی طلب کرتا رہے اور اس کے سامنے دست سوال دراز کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہیں جو بندوں کے آڑے وقتوں میں کام آتے ہیں،اللہ تعالیٰ سے مدد طلب نہ کرنا ،اس سے شفا نہ مانگنا اور صرف اسباب کی وادیوں میں ٹھوکریں کھاتے پھرنا بڑی حماقت کی بات ہے ،ایسے لوگوں کے بارے میں سورۂ مومن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا ،جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں (جس میں دعا نہ کرنا اور استعانت طلب نہ کرنا بھی شامل ہے) وہ عنقریب ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔
حقیقی مسلمان کی پہچان اور اس کے کامل مومن ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ اسباب کو بھی حکم خداوندی سمجھ کر اختیار کرتا ہے مگر مکمل بھروسہ مسبب الاسباب یعنی ذات خدواندی پر رکھتا ہے اور اس بات کا کامل ایقان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مجبور ،بے کس وبے بس کی پکار سنتا ہے ، مصیبت زدہ کی مصیبت دور کرتاہے اور حاجت مندوں کی حاجتیں پوری فرماتا ہے ۔قرآن حکیم میں اُن اہل ایمان کی تعریف کی گئی ہے جو دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پکار تے ہیں اور ہر حالت میں اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ،ارشاد ہے :تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقۡنَاہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ(الم سجدہ:۱۶)’’اہل ایمان وہ ہیں کہ ان کے پہلو راتوں کو خوابگاہوں سے الگ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ اپنے رب کو پکار تے ہیں ڈر تے ہوئے اور امید باندھے ہوئے اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
جس طرح دعا واستغفار غضب الٰہی کو دور کرنے کا موثر ذریعہ ہے اسی طرح صدقہ وخیرات بھی بلا وآفات کے دور کر نے کا بہرترین نسخہ ہے ،قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں اس کی بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہے ،مصائب وتکا لیف اور آفات وآلام کے وقت صدقہ وخیرات سے مصائب وتکالیف رفع ہوتے ہیں ،رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ : پوشیدہ صدقہ سے غضب الٰہی دور ہوتا ہے اور علانیہ صدقہ سے دوزخ کی آگ سے نجات ملتی ہے اور یہ کہ صدقہ بُری موت سے بچاتا ہے اور بلا کو ٹالتاہے اور عمر میں اضافہ کرتا ہے ،اور آگے آپ ؐ نے فرمایا: الصدقۃ فی السر تطفی غضب الرب( مستدرک )یعنی پوشیدہ صدقہ خدا کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے،اسی طرح جامع ترمذی میں آپ ؐ کا ارشاد ہے : ان الصدقۃ لتطفی غضب الرب وتدفع میتۃ السوء(ترمذی)یعنی صدقہ رب کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دور کرتا ہے،اللہ تعالیٰ بندوں کے صدقات وخیرات سے بہت خوش ہوتے ہیں اور بندوں کا یہ عمل خود ان کے لئے مصیبتوں سے راحت اور آفات سے بچاؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے ، دنیوی زندگی میں برکت و اضافہ ،بُری موت سے نجات اور آخرت کے عذاب سے حفاظت دلاتا ہے ،بلکہ ایک ضعیف روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدقہ ستر قسم کے مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے ،ارشاد نبویؐ ہے : الصدقۃ تمنع سبعین نوعاً من انواع البلاء اھونھا الجذام والبرص (تاریخ بغدادی)’’ صدقہ ستر قسم کی مصیبتوں کو ٹالتا ہے جن میں سے ہلکی ترین مصیبتیں جذام اور برص کی بیماری ہیں‘‘،چونکہ صدقہ اور خیرات کے ذریعہ غریب ومسکین اور مفلوک الحال کی اعانت ومدد ہوتی ہے اور یہ اعانت اس کی مصیبت کے دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور مفلوک الحال کی اعانت سے خدا کو خوشی ہوتی ہے ،یقینا کسی حاجت مند کی مدد کرنا اور مفلوک الحال کی امداد کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت محبوب عمل ہے ،جو رحمت الٰہی کے نزول کا سبب اور غضب الٰہی کے خاتمہ کا ذریعہ ہے ،اسی وجہ سے ان اعمال کو مسلمانوں کے لئے خیر عمل سے تعبیر کیا گیا ہے ،چنانچہ رسول اللہ ؐ نے عید کا خطبہ دیتے وقت بطور خاص عورتوں سے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو !اگر چہ تمہارے زیورات ہی ہوں اس لئے کہ میں نے تم میں سے اکثر کو جہنم میں دیکھا ہے (بخاری) ،آپ ؐ نے حضرت معاذ ؓ سے فرمایا : کیا میں تمہیں کار خیر کی رہنمائی نہ کروں ؟ پھر جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو یوں ختم کر دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتی ہے(ترمذی)،علامہ ابن قیم جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ : تمام مصائب کو دور کرنے میں صدقہ عجیب اثر انداز ہوتا ہے اگر چہ فاجر وظالم ہی کیوں نہ ہو ؟ بلکہ کافر بھی ،بے شک اللہ تعالیٰ تمام پریشانیوں کو دور کردیتا ہے یہ بات عوام وخواص سبھی جانتے ہیں اور زمین میں بسنے والے سارے لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہے( الوابل الطیب)،چنانچہ قرآن وحدیث اور علماء کرام نے تجربات کی روشنی میں صدقہ وخیرات کے کثیر فوائد بیان کئے گئے ہیں مثلاً: صدقہ بُرائی سے بچاتا ہے،بلا کو ٹالتا ہے،مال کی حفاظت کرتا ہے،رزق میں اضافہ کرتا ہے،قلب کو فرحت بخشتا ہے،اللہ پر بھروسہ اور اس سے حسن ظن قائم کرتا ہے، اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے،رب کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے،عیوب پر پردہ پڑتا ہے،عذاب قبر سے بچاتا ہے،قیامت میں سایہ بنتا ہے،دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے نچات دلاتا ہے اور جہنم کے درمیان ایک دیوار بن جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کثرت سے صدقہ دیا کرتے تھے ،ازواج مطہرات کا بھی کچھ یہی حال تھا اور حضرات صحابہ کرام ؓ صدقہ وخیرات کے معاملہ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے ،بلکہ بعض صحابہ ؓ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ کئی کئی درہم ودینار صدقہ کر تے تھے اور بعض تو صدقہ میں غلام وباندیاں آزاد کرتے تھے جس کی تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا کی جو صورت حال ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک اور ان کے شہر ،دیہات اور قصبات میں بسنے والے لوگ اپنے اپنے گھروں مقید اور مقفل ہو کر رہ گئے ہیں ،اس مہلک ترین وبا نے پوری دنیا کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے ،بڑے بڑے عقلمند اور طب میں مہارت رکھنے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں ،ہر ایک اپنی طرف سے اس وبا کو روکنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے ،چاروں سمت خوف ودہشت کا ماحول ہے ،الکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسی بیماری کا ذکر چھایا ہوا ہے ،ہر ایک کی زبان پر بس کورونا وائرس ہی کا رونا ہے ،اب تک اس بیماری نے دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ،ہزاروں کی تعداد میں بیماری میں مبتلا لوگ اس سے باہر نکلنے کی جد جہد میں لگے ہوئے ہیں ،ڈاکٹرس اور طب کا پورا عملہ ان کی خدمت میں لگا ہوا ہے اور ہزاروں لوگ اس بیماری کے سامنے ہار مان کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ،اسے وبائی مرض کہے یا قہر خداوندی ،ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے ، لوگ سانسیں روک کر بیٹھے ہیں ،ایک دوسرے سے ملاقات اور مصافحہ سے گریز کر رہے ہیں گویا چاروں طرف قیامت صغرایٰ کا منظر برپا ہے ،تدبیریں اپنی جگہ درست ہیںاور ایک مسلمان کے لئے شریعت کی روشنی میں تدبیریں اختیار کرنا بھی تقدیر ہی کا حصہ ہے ، ہمارا ملک ہندوستان بھی اس مہلک بیماری کی لپیٹ میں آچکا ہے ،ملک کے بیشتر شہروں میں لاک ڈاؤن ہو چکے ہیں، حکومت کی طرف سے احتیاط برتنے کی تلقین کی جارہی ہے، صوبائی اور مرکزی حکومت کی طرف سے اسی طرح علماء ومفتیان کرام کی جانب سے جو کچھ ہدایات دی جارہی ہیں وہ سب اسباب کے درجہ میں ہیں ،اس پر عمل کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے مگر بحیثیت مسلمان تدبیر سے زیادہ جو چیز اس کے لئے ضروری اور اہم ہے وہ رجوع الی اللہ ہے ،اہل ایمان کا عقیدہ ہے کہ مصیبت وراحت ، بیماری وصحت اور موت وحیات سب اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے ،اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز اصلاً نہ نافع ہے نہ ضار ،حقیقی نافع وضار اللہ ہی کی ذات ہے ،اس لئے اسی کی طرف رجوع ہونا ، اسی سے استعانت طلب کرنا اور اسی سے بلا اور وبا سے حفاظت کی درخواست کرنا بندوں کی بندگی کا تقاضہ ہے، عموماً آفتیں اور مصیبتیں انسانوں کی بداعمالیوں اور ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے کبھی قہر خداوندی بن کر تو کبھی ابتلا ء وآزمائش بن کر تو کبھی عبرت بن کر نازل ہوتی ہیں ،قرآن کریم میں ارشاد ہے :وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ أَیۡۡدِیۡکُمۡ وَیَعۡفُو عَن کَثِیۡرٍ ( الشوریٰ : ۳۰) ’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کر دیتا ہے‘‘ ، مذکورہ آیت بتاتی ہے کہ انسانوں کے کرتوت اور بُرے اعمال کے نتیجہ میں آفات ومصائب کا نزول ہوتا ہے ، اوریہ خدا کی ناراضگی کا سبب ہوتا ہے ،ان حالات میں اہل ایمان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی چاہیں ،توبہ واستغفار کرتے رہیں ،صدقہ وخیرات کے ذریعہ رب کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں اور دعاؤں کے ذریعہ روٹھے ہوئے رب کو منانے کی سعی کریں ،موجودہ حالات میں مسلمان صبح وشام توبہ واستغفار کے ساتھ خوب دعاؤں کا اہتمام کریں،کیونکہ خدا کو بندوں کا توبہ کرنا پسند ہے ،وہ استغفار کرنے والوں کے لئے مغفرت کا اعلان فرماتا ہے اور دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کے ساتھ عفو ودرگزر کا معاملہ کرتا ہے ، فی الحال سب لوگ باہر کی مشغولیت سے آزاد ہیں ،گھروں میں مقید ہیں ،اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب مل کر خوب آہ وزاری کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کریں ،ساتھ ہی صدقہ خیرات کرتے ہوئے وبائی مرض سے بچنے کی فکر کریں ،کیونکہ صدقہ خیرات بلا اور وبا کو دور کرنے میں کا فی اثر رکھتا ہے ،چونکہ اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب وامیر ،مالدار وفقیر سب اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیں ، جن لوگوں کا گزر بسر روزانہ کی محنت مزدوری پر تھا وہ اس وقت سخت ترین حالات سے دوچار ہیں ،ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں ،وہ باہر نکلنے سے قاصر ہیں اور عزت نفس کی خاطر دست سوال سے قاصر ہیں،ان حالات میں ان کی مدد ونصرت کرنا اور مصیبت کی اس نازک گھڑی میں ان کی دستگیری کرنا ہر متمول فرد کا دینی واخلاقی فریضہ ہے ،ہو سکتا ہے ان پر صدقہ وخیرات سے بلا ٹل جائے اور خدا کی طرف سے نازل یہ قہر مِہر میں تبدیل ہوجائے ، اس سلسلہ میںملک اور بیرون ملک کے علماء کی طرف سے بار بار اپیلیں بھی کی جارہی ہیں اور متومل افراد کی توجہ اس طرف مبذول کی جارہی ہیں ،چنانچہ عالم اسلام کی مشہور شخصیت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ :ہر شخص اپنے ماحول میں ایسے لوگوں کو تلاش کرے جن کا گزارہ روز کی روز آمدنی ہے اور انہیں نقد یا راشن پہنچاکر ان کی مدد کرے اس سے معاشرے کی اہم ضرورت بھی پوری ہوگی اور یہ بہترین صدقہ بھی ہوگا اور صدقہ کسی بلا یا وبا کو دور کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے، یقینا ہم اگر اپنے رشتہ داروں یا پھر محلے کا جائزہ لیں تو ایسے بہت سے گھرانے نظر ائیں گے جن کا گزر بسر روزانہ کی آمدنی پر ہوتا ہے ،وہ اس وقت بھوک و افلاس میں مبتلا ہوں گے ،ہمیں ان کی خبر گیر ی لیتے ہوئے ان تک نقد رقم یا پھر اشیاء خورد نوش پہنچانے کی فکر کرنا ہوگا اور اس نازک وقت میں ان کا سہارا بننا ہوگا ،اگر ہم نے اس نازک گھڑی میں ان کی فکر نہیں کی تو ہو سکتا ہے کہ قیامت میں ہم مجرم بن کر پیش ہوں ،اس لئے ان حالات میں ہم کو حتی المقدور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے جو کام اصلاً کرنا ہے وہ توبہ واستغفار ،دعا ومعافی اور صدقہ وخیرات ہے ،بلاشبہ انسانوں کے لئے وہی ہے جو اس کے بس میں ہے باقی وہی ہوگا جو اللہ کی مرضی ہوگی ،یقینا ہم تو اللہ کے ہر فیصلے پر راضی برضا ہیں اور زبان حال وقال سے کہہ رہے ہیں ’’جو اللہ کی مرضی سو وہ ہماری مرضی‘‘ ۔
٭٭٭٭