یکم محرم الحرام سے اسلامی نئے سال کا آغاز ہوتا ہے ،اسلامی کیلنڈر محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور ذوالحجہ پر ختم ہوتا ہے ، اہل اسلام اور مؤرخین اسلام کے نزدیک اسلامی کیلنڈر کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ہونا بھی چاہیے اس لئے کہ ،پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیؐ کی سیرت طیبہ کے مختلف احوال و واقعات ،اسلامی غزوات و فتوحات ، صحابہ وتابعین کی بے نظیر خدمات اور مسلمانوں کے عظیم الشان کارنامے سن ہجری اور اس کی تواریخ کے ساتھ محفوظ ہیں ،سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں اسلامی حکومت کے دور دور تک پھیل جانے اور وہاں کے ذمہ داروں کو دی جانے والی ہدایات میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے مختلف دشواریاں پیش آرہی تھیں جسے محسوس کرتے ہوئے سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ کی رائے پر اکابر صحابہؓ کے مشورہ سے اسلامی سن کی بنیاد رکھی گئی اور اسے رسول اللہ ؐ کے ہجرت مدینہ منورہ سے موسوم کیا گیا ، مشورہ میں اگر چہ کہ مختلف رائے سامنے آئی تھی لیکن اسلامی کیلنڈر کے لئے ہجرت سے آغاز کرنے کی رائے پر سبھوں نے اتفاق کیا اور سیدنا عمر فاروق ؓ نے اس پر اپنی رضامندی کی مہر لگا دی ،اسلامی کیلنڈر کے آغاز کے لئے رسول اللہ ؐ کے ہجرت مدینہ منورہ کے انتخاب کرنے میں بہت سی حکمتیں اور بہت سے پیغامات پوشیدہ ہیں ۔
نبوت کے اعلان کے بعد رسول اللہ ؐ اور آپ کے اصحابؓ پر مکہ والوں نے جو کچھ ظلم وستم ڈھائے ہیں اس پر تاریخ انسانی شرمسار ہے ،رسول اللہ ؐ اور آپ پر ایمان لانے والوں نے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ، پھر بحکم خداوندی ہجرت مدینہ کا حکم ملا ، ہجرت مدینہ دراصل دین پر ثابت قدمی اور مصائب وآلام پر بے نظیر صبر وضبط کے نتیجہ میں نئے اسلامی سلطنت کی بنیاد کی خوشخبری تھی ، اسلام کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار کی بشارت تھی،بلاد عرب میں پرچم اسلام کے لہرانے کی طرف اشارہ تھا اور جوق درجوق لوگوں کے اسلام سے وابستہ ہوجانے کی طرف واضح پیغام تھا،ہجرت مدینہ کے ذریعہ حق وباطل کا واضح فرق بتانا مقصود تھا کہ حق کے مقابلہ میں چاہے باطل کتنا ہی طاقتور بن کر آئے اور کتنا ہی ظاہری اسباب سے مزین ہوکر آئے مگر حق ہی کی جیت گی اور حق ہی سر بلند ہوگا اور یہ وہ حقیقت ہے جسے تاریخ نے ہر دور میں دہرایا ہے کہ حق آنے کے بعد ابتداء میں باطل سر اٹھاتا ہے مگر اس کا انجام ہزیمت ہے ، اسلامی سن کے لئے ہجرت مدینہ کے انتخاب کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ تمارے مال ، جائداد اور اولاد ورشتہ دار سے کہیں زیادہ قیمتی تمہارا ایمان ہے ، اگر ایمان سلامت ہے تو پھر کسی چیز کے چھوٹ جانے کا کچھ غم نہیں ،جو تحفظ ایمان کے لئے قربانیاں دیتا ہے اسے دنیا میں عزت کی زندگی اور آخرت میں خدا کا قرب نصیب ہوتا ہے اور وہاں کی لازوال نعمتیں اسے عطا ہوتی ہیں ۔
سن ہجری سے اسلامی سن کے آغاز کے ذریعہ مسلمانوں کو صبر وتحمل ،ہمت وجرأت اور بلند حوصلوں کی تعلیم دی گئی ہے کہ کس طرح حق پر ہونے کے باوجود صحابہ ؓ نے صبر وتحمل اور جرأت وہمت کے ساتھ دین اسلام پر جمے، ڈٹے اور ثابت قدم رہے اور دامن استقامت ہاتھ سے نہ جانے دیا،ان حالات سے گھبرا کر وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی ظالموں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے بلکہ ہمت وجرأت اور صبر وتحمل کے ذریعہ ان کے عزائم کو خاک میں ملادیا اور زبان حال سے یہ پیغام دیا کہ خاموشی بزدلی نہیں ہے بلکہ یہ اعلیٰ درجہ کی حوصلہ مندی ہے ، جو قوم اس سے متصف ہوتی ہے تو پھر اسے اپنی منزلیں آسمانوں پر نظر آتی ہیں ،مسلمان جب کبھی ان حالات سے دوچار ہوں تو انہیں سن ہجری کے ذریعہ ان کے آباواجداد کے صبر وتحمل اور جرأت وہمت کو یاد کرنا چاہیے ،یقینا ان میں حوصلہ وہمت کی نئی روح پھونکتا ہے ، حکمت عملی سکھاتا ہے ،دشمن کو دوست بنانے کے کیمائی نسخہ بتاتا ہے، مایوسی سے نکال کر مستقبل قریب میں کامیابی کی منزل دکھاتا ہے ،جو قوم اپنے آبا واجداد کی تاریخ پر نظر رکھتی ہے ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے بلکہ ان میں فولادی ہمت وجرأت پیدا ہوتی ہے۔
سن ہجری مسلمانوں میں اجتماعی قوت پیدا کرنی کی تعلیم دیتی ہے،انہیں بتاتی ہے کس طرح مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ایک دوسرے مقام پر پہنچ کر رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کی طاقتور جماعت تیار کی اور انصار ومہاجرین کے درمیان رشتہ مواخات قائم کرکے دنیا میں ایک مثال قائم فرمائی اور بتایا کہ ایمانی رشتہ کس قدر اہم اور مضبوط ہوتا ہے ،ایک دوسرے کی مدد ونصرت سے وہ کام انجام دئے جاسکتے ہیں جسے تنہا انجام دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے،جب رشتے مضبوط ہوتے ہیں تو تعلقات پروان چڑھتے ہیں تو پھر پُر جوش جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک طاقت بنتی ہے ایسی طاقت جسے شکست دینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا ، ہجرت مدینہ کے ذریعہ مسلمان ایک طاقت بن کر ابھرے ،ان سے مقابلہ کرنے کی سوچ پر بھی دشمن کو پسینہ آنے لگتا تھا ،بعض مرتبہ طیش میں آکر انہوں نے حملہ کیا مگر اس کا جو انجام ہوا انہیں زندگی بھر پشیمانی رہی ،اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی نصرت فرماکر بتادیا کہ اجتماعی قوت اور خدا پر کامل یقین ہی دراصل فتح ونصرت کی شاہ کلید ہے ۔
سن ہجری کے ذریعہ مسلمانوں کو پیغام دیا گیا کہ خدا کی عبادت ، تعمیر عبادت خانہ یعنی مسجد اور معاشری کی اصلاح کے لئے تعلیم کس قدر اہم ہے ،رسول اللہ ؐ ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے عبادت کے لئے مسجد کی بنیاد رکھ کر اس کی تعمیر نو فرمائی ، باجماعت نما ز کے اہتمام کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ مساجد مسلمانوں کی علامت ہیں ،نماز تعلق مع اللہ کا اہم ذریعہ ہے اور باجماعت نماز منظم اجتماعیت کا منفرد اظہار ہے ،مساجد سے تعلق رکھنے والے اور اسے اپنی پیشانیوں سے آباد رکھنے والے کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے ، مصائب کے ذریعہ آزمائے تو جاسکتے ہیں لیکن نامراد نہیں کئے جاتے بلکہ آزمائش ان کے لئے نوید صبح کا پیغام لاتی ہے،جب قوم کا رشتہ مساجد سے کمزور ہوجاتا ہے تو پھر نصرت خداوندی کے دروازے اس پر بند کر دئیے جاتے ہیں ،اس کی طاقت وقوت اس کے کام نہیں آتی اور دشمنوں کے دل سے اس کا رعب ختم کر دیا جاتا ہے ،تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ مساجد سے مضبوط تعلق رکھنے والوں نے مضبوط حکومتوں کی بنیاد رکھی اور دور تک اور دیر تک حاکم بن کر رہے،مساجد سے دوری رکھنے والے گرچہ حاکم ہوں مگر ان کی حیثیت کاغذی شیر سے زیادہ نہیں ہے ،رسول اللہ ؐ نے صحن مسجد میں دینی ،علمی درسگاہ کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کوتعلیم کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تعلیم ہی امراض ملت کی دوا ہے ،تعلیم کے بغیر کامیابی کا تصور ایسا ہی ہے جیسے خشک زمین پر ہل چلانا ہے ،علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ہے ، اور خصوصاً علم دین اہل ایمان کے لئے دنیا میں کامیاب زندگی اور آخرت میں دائمی زندگی کا ذریعہ ہے ،اسی سے صالح معاشرہ فروغ پاتا ہے ،اسی کے ذریعہ انسان میں انسانیت پیدا ہوتی ہے ،انسانوں کا دکھ دردر سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ،امن وسکون پروان چڑھتا ہے اور آدمی آدمی کا دشمن نہیں بھائی بن کر زندگی گزار تا ہے ۔
اسلامی سن کا آغاز ہجرت سے کر کے مسلمانوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ خود کے ساتھ اپنے معاشرہ کی صلاح وفلاح کی طرف بھی توجہ دیتے رہیں ،رسول اللہ ؐ نے ہجرت مدینہ کے بعد مسلم معاشرہ کی صلاح وفلاح کے لئے باضابطہ نظم بنایا ،ان کی ذہن سازی فرمائی اور ان کے اخلاق وکردار سنوارنے کے لئے منظم کوششیں کی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بُرائی جڑ سے مٹ گئی اور ہر طرف اخلاق وکرادر نے جھنڈے گاڑ دئیے ،اس معاشرہ میں گناہ کا تصور بھی گناہ سمجھا جانے لگا تھا ،وہ خیر کی طرف اس طرح جھپٹتے تھے جس طرح باز اپنے شکار کی طرف جھپٹتا ہے ، ہر طرف امن وامان قائم تھا ،سر راہ قیمتی چیز گرجاتی مالک کے علاوہ اسے اٹھانے کی کسی میں ہمت نہ تھی ،عورتوں کی عزت وعٖفت اس طرح محفوظ ہو چکی تھی جس طرح سیپی میں موتی محفوظ رہتا ہے ،تجارت میں دیانت داری،وعدہ وفائی ،زبان کی سچائی اور عمل کی پختگی یہ ان کا طرہ امتیاز بن چکا تھا ،وہ اپنی مثال آپ تھے ۔
سن ہجری زبان حال سے اہل ایمان کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اسلام کی گراں قدر دولت کے حصول کے بعد دشمنوں سے ہر دم اس کی حفاظت ضروری ہے،یہ وہ چیز ہے جو اہل ایمان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، دشمن کی کوشش رہے گی کہ کسی وقت بھی اس پر حملہ کر کے چاہے مادی ہو یا قوتی ہو یا تہذیبی یلغار کے ذریعہ جس طریقے سے بھی ہو اسے پسپا کیا جائے ،مسلمانوں کو اس کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے ، دشمن اپنے طاقت کے بل بوتے پر اسلام کو دنیا سے مٹانے اور دولت ایمان کو مسلمانوں سے چھیننے کے لئے بھر پور کوشش کرے گا ،کبھی تنہا آئے گا تو کبھی طاقت بن کر حملہ آور ہوگا،تو ایسے وقت میںامید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ نا ہوگا ،اپنا بھروسہ اللہ پر رکھنا ہوگا اور یہ چیز ہمیشہ پیش نظر میں رکھنا ہوگا کہ مومن کی زندگی وموت اور اسکا جیناومرنا سب اللہ کے لئے ہوتا ہے ،اس کی حیات خدا کا انعام ہے اور اس کی موت خدا کا تحفہ ہے، خدا کی غلامی بڑی نعمت ہے ، اسلام اور پیغمبر اسلام سے وابستگی بڑی چیز ہے،جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ دنیا میں کا میاب اور آخرت میں سرخرو ہوگیا ،تمہارا سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہونے دو مگر ایمان سلامت رہنا چاہیے ؎
زندگی زندہ دلی کا نام ہے٭مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
سن ہجری مسلمانوں کو یاد دلارہی ہے کہ کس طرح صحابہ ؓ نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے حکم پر سب چیزوں کو قربان کر دیا تھا ، قربانی کے بعد کامیابی ان سے لپٹ گئی تھی ،قربانی کے بعد ہی بندہ مومن کو سر خروئی حاصل ہوتی ہے ،قربانی کے بغیر کامیابی کا تصور ر محال ہے ،قربانی اپنے خواہشات کو دین کے تابع کرنے اور خود کو اس پر مٹانے کا نام ہے،قربانی ہی سے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے،اسلام قدم قدم پر قربانی چاہتا ہے،نفس کی قربانی ،مال کی قربانی ،وقت کی قربانی اور خواہشات کی قربانی ، اور انہیں قربانیوں سے زندگی کی دائمی مسرتیں حاصل ہوتی ہیں اور دل کی ایمانی کھیتی لہلہا اٹھتی ہے،قوموں کی زندگی ان کی قربانیوں میں پوشیدہ ہے ، اسلامی کیلنڈر کا آغاز سن ہجری کے ذریعہ کر کے دراصل مسلمانوں میں انہی جذبات واحساسات کو جگائے رکھنا ہے تا کہ اس کے ذریعہ اسے زند گی کی تازگی ملتی رہے اور وہ دنیا میں کامیاب قوم بن کر زندگی بسر کر سکے اور آخرت میں خدا کا انعام پا سکے ،کاش کہ ہم ہجرت کے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کی کوشش کریں اور نئے سال میں نئے عزم وحوصلہ کے ساتھ آگے بڑھیں اور خدا پر بھروسہ رکھیں وہی کار ساز ہے ،اگر وہ ساتھ ہے تو پھر کسی کی مخالفت کا کیا غم ؎
کیا ڈر جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
٭٭