اسلامیات

قربانی عبادت ہے کوئی رسم نہیں

قربانی کے دن جیسے جیسے قریب آتے جارہے ہیں ویسے ویسے عوام وخواص میں قربانی کو لے کر الگ الگ باتیں کہی جارہی ہیں ، پرنٹ میڈیا کے علاوہ ان دنوں سوشل میڈیا پر قربانی موضوع بحث بنی ہوئی ہے ، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام دشمن عناصر کو ایک موضوع مل گیا ہے ،گوکہ قربانی کے ایام ہر سال آتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان اپنی طرف سے متعینہ جانور ذبح کرکے اسلام کا ایک اہم سالانہ فریضہ اداکرتے ہیں اور اس کے ذریعہ حکم خداوندی کی تعمیل میں سر تسلیم خم کرکے خدا سے اپنی محبت وچاہت کا عملی اظہار کرتے ہیں ،لیکن چونکہ اس وقت پوری دنیا عالمی مہلک ترین وبا کورونا وائرس کی زد میں ہے، ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی ہے ،اس وبا نے بڑے بڑے سورماؤں کو ہلا کر رکھ دیا ہے،عوام وخواص سب ہی ڈرے سہمے ہوئے ہیں، جدید ترقیافتہ ممالک اور اپنے علم وکمال پر فخر کرنے والے ماہرین لاچار ومجبور اور بے بس وبے ہوش نظر آرہے ہیں ،ہزارہا تدبیروں کے باوجود اس مہلک وبا پر قابو پانا مشکل نظر آرہا ہے ، اس وقت سب کی نظریں آسمان پر ٹکی ہوئیں ہیں اور سبھی انسان اپنے اعتقاد ونظریہ کے تحت خالق کائنات سے اس وباء سے چھٹکارے کی بھیک مانگ رہے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اسے ختم کرنا اور دنیا کو اس سے نجات دلانا انسانوں کے بس میں نہیں ہے ،اس سے چھٹکارہ دلانے والی بس ایک ہی ذات ہے اور وہ خالق کائنات اور قادر مطلق اللہ ہے ، اس وقت دنیا بھر کے لوگ الگ الگ پریشانیوں سے دوچار ہیں ،کوئی بیماری سے پریشان ہے تو کوئی معاشی حالات کا شکار ہے تو کوئی تجارت کو لے کر بد حال ہے تو کوئی شدید مالی بحران میں مبتلا ہے،مگر بعض لوگ وہ ہیں جو ان حالات میں بھی اپنے درندہ صفت مزاج کے ذریعہ اسلام دشمنی میں لگے ہوئے ہیں ،انہیں کسی کے بھی کسی کام سے اعتراض نہیں ہے بس ہے تو اسلامی احکامات اور ان پر عملی اقدامات سے ہے ،وہ موقع بموقع اسلام کے کسی بھی حکم کو لے کر اعتراض کرتے ہوئے ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں ، کبھی وہ آزادی نسواں کو بہانا بناکر اسلامی پردہ پر اعتراض کرتے ہیں تو کبھی طلاق وخلع پر تو کبھی وراثت اور اس کی تقسیم پر تو کبھی عید الاضحی کے موقع پر کی جانے والی جانوروں کی قربانی کو لے کر کچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں ،حالانکہ ان عقل کے اندھوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مذہب اسلام کوئی انسان کا بنایا ہوا اور کسی شخص کا گھڑا ہوا مذہب نہیں ہے کہ جس پر جب چاہے اور جیسے چاہے انگلیاں اٹھا سکیں اور اس پر انسانی مزاج ومذاق کے خلاف ہونے کا الزام لگاکر اس میں ترمیم وترویج کا مطالبہ کر سکیں بلکہ یہ تو ایک آسمانی مذہب ہے اور اس کا ہر حکم خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے ،مذہب اسلام اس خالق ومالک کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو انسانوں ہی نہیں بلکہ سارے جہان کا بھی مالک ہے ،وہ انسانی فطرت سے خوب واقف ہے ،اس نے انسانی مزاجوں کے عین مطابق ان کے لئے احکام ومسائل اتارے ہیں ،بلاشبہ انسانی فطرت جس بات کا تقاضہ کرتی ہے بعینہ شریعت اسی کا حکم دیتی ہے ، اس طرح اگر دیکھا جائے تو شرعی احکام اور فطرت انسانی میں کسی بھی قسم کا تضاد نظر نہیں آئے گا ،اس کے باوجود اگر کوئی شریعت اور اس کے احکامات یا ان میں سے کسی بھی ایک حکم کی مخالفت کرتا ہے تو گویا وہ فطرت انسانی کی مخالفت کرتا ہے اور جو شریعت سے بغاوت کرے گا وہ لامحالہ فطرت کا بھی باغی کہلائے گا ۔
اس وقت مسلمان ایک اہم ترین فریضہ یعنی قربانی کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ،چونکہ ہر سال اس عید پر صاحب استطاعت مسلمان اپنی طرف سے بارگاہ الٰہی میں مخصوص اور متعینہ جانوروں کی قربانی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ربانی خواہشات پر اپنی خواہشات قربان کرنے کا اظہار کرتے ہیں ،نیز قربانی کے ذریعہ خدا کی ان گنت نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہتا ہے اور مسلمان بڑے شوق وذوق اور نہایت احترام وعقیدت سے اسے انجام دیتے ہیں۔
جیساکہ سبھی جانتے ہیں اس وقت مہلک ترین وائرل کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے ،ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں لگا ہوا ہے ،عالمی ادارہ صحت اور ملکی محکمہ صحت کی جانب سے مسلسل نیوز چینلس ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ احتیاطی تدابیر پر عمل کی ہدایات دیجارہی ہیں ،چنانچہ سرکاری ،خانگی اور دیگر چینلوں پر صبح وشام اسی وائرس کے چرچے ہورہے ہیں ، اس بیماری سے کس مقام پر کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور کتنے لوگ اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں روزانہ اسی کو زوروشور سے اور الگ الگ انداز سے پیش کیا جارہا ہے ،سچ بات یہ ہے کہ اس بیماری سے زیادہ اس کی دہشت سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں اور اس کی خبریں سن کر اپنی نیند اور چین دونوں کھو چکے ہیں ، نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ نت نئی خبریں پھیلانے کے شوقین لوگ کسی نئی خبر کی تلاش میں تھے کہ عیدالاضحی کی آمد سے انہیں ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا ،پھر کیا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پر قربانی کے متعلق بڑے ہی زور وشور سے مباحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ، بعض نام نہاد اسلامی اسکالر بلکہ اسلامی علوم وفنون اور فقہی بصیرت سے یکسر نابلد ، خواہشات کے اسیر اور اسلام دشمنی رکھنے والوں سے گہری دوستی رکھنے والے ان چینلوں پر بیٹھ کر قربانی کے متعلق الٹی سیدھی باتیں شروع کردی،یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،ان لوگوں نے اس سے قبل بھی کئی ایک مرتبہ قربانی جیسی عظیم عبادت پر اعتراض کر چکے ہیں ،ان کی نظروں میں یہ عظیم عبادت مال کا ضیاع ،جانوروں کے ساتھ ظلم اور غرباء کے ساتھ حق تلفی ہے ،وہ چاہتے ہیں کہ قربانی کے بجائے اس کی قیمت غرباء ومساکین میں صدقہ کردی جائے ،مستحقین میں تقسیم کی جائے اور دیگر رفاہی کاموں میں استعمال کی جائے ،اس وقت وبائی مرض کی بڑھتی ہوئی صورت حال کو دیکھ کر اور معاشی تنگ دستی میں مبتلا لوگوں کو دیکھ کر اور بعض دینی اداروں کے فتاوی کو بنیاد بناکر بعض نام و نہاد اسلامی اسکالرس قربانی کے بدلے صدقہ اور خیرات کی بات کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کی یہ بات اسلامی نقطہ نظر سے سراسر غلط اور دینی علوم سے ناواقفیت پر مبنی ہے ، اس طرح کا اعتراض کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ قربانی ایک عظیم عبادت اور قرب خداوندی کا ذریعہ ہے نہ کہ کوئی رسم ہے کہ جسے چاہیں تو انجام دیں اور جب چاہیں ترک کردیں۔
قربانی کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے پہلے اسے جانتے ہیں جس سے قربانی کی حقیقت ، اس کی اہمیت اور اس پر عمل کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے اور اس کے بعد خود بخود ان سوالوں کے جوابات مل جائیں گے جنہیں نام ونہاد لوگوں نے زبردستی اٹھایا ہے ،یقینا قربانی شعائر اسلام میں ہے،اسلامی اہم ترین عبادت ہے اور پیغمبر سیدنا ابراہیمؑ اور ان کے فرماں بردار فرزند ارجمند سیدنا اسماعیلؑ کی عظیم یاد گار اور سنت ہے ، چنانچہ مسلمان عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرکے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے اُس عمل کی نقل کرتے ہیں جو انہوں نے خدا کے حکم اور اس کی اطاعت پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے ،اس سے تعلق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے منیٰ کے میدان میں اپنے اکلوتے، کمسن فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل ؑ کے گلے پر چھری چلائی تھی ، لیکن خدا کا مقصد اسماعیل ؑ کا ذبح ہونا نہیں تھا ،وہ تو ہر گز یہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خلیل کو بڑھاپے میں دی گئی اولاد کی نعمت اس سے واپس لے لی جائے بلکہ اسے تو اس امتحان کے ذریعہ اپنے خلیل کی اس بے مثال محبت کو دنیا کے سامنے لانا تھا جو انہیں اپنے پروردگار سے تھی ،سو سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے بیٹے کے گلے پر چھری چلاکر اسے پورا کر دکھایا ، خدا کو اپنے نبی سیدنا ابراہیم ؑ اور ان کے ہونہار فرزند سیدنا اسماعیل ؑ کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لئے عبادت قرار دیدیا ،اس کی نقل کو اہل اسلام کے لئے لازم قرار دیکر اسے قیامت تک کے لئے زندۂ جاوید بنادیا، چنانچہ ان باپ بیٹے کی نقل میں ہر صاحب استطاعت پر سال میں ایک مرتبہ ایام نحر میں شریعت کی طرف سے منتخب کردہ جانور کی قربانی واجب قرار دے دی گئی ہے ، جو شخص بھی ابراہیمی جذبہ ٔ محبت کو سامنے رکھتے ہوئے قربانی کے عمل کو انجام دیگا تو وہ ضرور رب کی قربت اور اس کی رحمت وعنایت کا مستحق ہوگا ،بر خلاف وہ شخص جو جذبہ ابراہیمی سے عاری ہوکر قربانی کرے گا تو وہ صرف دم جانور بہائے گا لیکن اس کے فوائد وثمرات سے محروم رہے گا، قربانی کوئی سالانہ رسم نہیں کہ اسے انجام دیکر سبکدوش ہوجائیں بلکہ یہ خدا کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے اور اس کی محبت وچاہت پر اپنی خواہشات کو قربان کرنے کے عملی مظاہرے اور محبت کی کسوٹی پر کھرے اترنے کی عملی تربیت کا نام ہے،جولوگ قربانی کو صرف ایک سالانہ رسم سمجھ کر انجام دیتے ہیں وہ کبھی بھی قربانی کی روح اور اس کے مقصد کو پانہیں سکتے ، وہ تو صرف جانور کے گلے پر چھری چلانا جانتے ہیں لیکن اس کی حقیقت سے بے گانہ ہیں ، رب کے حکم اور اس کی مرضی پر اپنی خواہشات کے گلے پر ربانی حکم کی چھری چلانا ہی در اصل قربانی کی حقیقت اور اس کی روح ہے۔
رسول اللہ ؐ نہ صرف ہر سال قربانی فرمایا کرتے تھے بلکہ بڑی تاکید کے ساتھ اپنے اصحاب ؓ کو بھی اس پر عمل کی ترغیب فرماتے تھے ، صحابہ ؓ نے جب آپ ؐ کو نہایت تاکید کے ساتھ قربانی کا حکم دیتے ہوئے سنا تو اس کی بابت پوچھ ہی لیا کہ:اے اللہ کے رسول ؐ! یہ قربانی ہے کیا؟، تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے جد اعلیٰ ابراہیم ؑ کی سنت ہے،(یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا تھا اور وہ اسے کیا کرتے تھے ،ان کی اس سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھے اور میری امت کو بھی دیا گیا ہے) ،حضرات صحابہؓ نے پوچھا کہ :یارسول اللہ ؐ!ہمارے لئے ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟،اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا:ہر ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی ہے،پھر حضرات صحابہؓ نے سوال کیا یارسول اللہ ؐ !کیا اُون پر بھی یہی اجر ہے؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:ہاں اُون والے جانور پر بھی اسی حساب سے اجر ملے گا (مسند احمد:۱۹۲۸۳)، ایک حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل بارگاہ رب العالمین میں پسندیدہ نہیں (ترمذی:۱۵۷۲) ’’ ایک اور حدیث میں قربانی کی فضیلت بتاتے ہوئے آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ عیدالاضحی کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ،پھر آگے اس کی مزید فضیلت اور اس کے عند اللہ مقبولیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ہوکر)آئے گا،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضااور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے(ترمذی:۱۵۷۲)،قربانی کی فضیلت اور اس کی عند اللہ قبولیت بتانے کے بعد آپ ؐ نے اسے خوش دلی سے انجام دینے کی طرف توجہ دلا ہوئے ارشاد فرمایا :فطیبوبھا نفساً(ترمذی:۱۵۷۲) ، ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا ،اور آپ ؐ برابر ہر سال قربانی فرمایا کرتے تھے(ترمذی :۱۵۰۷) قربانی نہایت مہتم بالشان عمل ہے ،خدا کے تقرب کا نہایت زبردست وسیلہ ہے اور اجر وثواب کے لحاظ سے بہت اونچا عمل ہے، اگر کوئی اس کے باوجود قربانی سے گریز کرتا ہے ،اس عظیم عمل سے اعراض کرتا ہے اور باوجود استطاعت کے قربانی نہیں کرتا تو ایسے شخص پر رسول اللہ ؐ نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ استطاعت کے باوجود جولوگ قربانی نہیں کرتے انہیں چاہئے کہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے (مسند احمد:۸۲۷۳)۔
قربانی کی اہمیت ،فضیلت ،عند اللہ قبولیت اور اس پر اجر وثواب کے معلوم ہونے کے بعد پھر بھی کوئی اس پر اعتراض کرتا ہے اور اسے مال کا ضیاع اور جانوروں کے ساتھ ظلم سے تعبیر کرتا ہے تو ایسا شخص جاہل ،دین سے بے بہرہ ،قربانی کی روح سے ناواقف اور بد دین کہلانے کے لائق ہے ،سوال ان لوگوں سے ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعہ دینی احکامات اور اس کی تعلیمات پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں ،اپنی عقل سے شریعت میں دخل دیتے رہتے ہیں اور بے سروپا سوالات کے ذریعہ اپنے کم علم بلکہ جاہل ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں ، انہیں قربانی کے جانوروں سے تو بڑی ہمدردی ہے مگرسلاٹر ہاوس میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کٹنے والے جانوروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ،ان جانوروں کے گوشت سے روزانہ کروڑوں روپئے کمائے جاتے ہیں وہ انہیں نظر نہیں آرہا ہے ،اگر انہیں جانداروں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر ہر طرح کے جانور ذبح کرنے اور ان کے کھانے پر پابندی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے بلکہ وہ تو خود ہر سانس کے ذریعہ لاکھوں جراثیم کو موت کے منہ میں پہنچا تے رہتے ہیں تو اپنی سانس روک کر ان جراثیم پر رحم کیوں نہیں کھاتے ،انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خالق نے دنیا کا نظام ہی کچھ اس طرح سے بنایا ہے کہ بعض کی موت بعض کے لئے حیات کا ذریعہ ہے ، خالق نے جانوروں کو الگ الگ مقاصد کے لئے پیدا کیا ہے اور ان جانوروں کو انسانوں کے کھانے کے لئے جائز قرار دیا ہے جو جسمانی طور پر صحت بخش اور روحانی طور پر انسانوں کے لئے سرور بخش ہیں ،ان لوگوں کو عین قربانی کے وقت ہی مال کا ضیاع کیوں نظر آتا ہے جب کہ ہزاروں روپئے فضولیات میں خرچ کئے جاتے ہیں ،لاکھوں رو پئے عمارات کی تعمیر اور اس کی تزئین میں لگائے جاتے ہیں اور لاکھوں رو پئے شادی بیاہ ودیگر تقریبات کی نذر ہوجاتے ہیں تعجب ہے ان ہمدردان قوم وملت کو اس وقت مال کا ضیاع یاد نہیں رہتا ،ان نادانوں کو کون سمجھائے کہ خدا کے نام پر قربانی کے ذریعہ جانوروں کا نذرانہ پیش کرنا بذات خود ایک عظیم عبادت ہے اور قربانی وجوب کا درجہ رکھتی ہے نہ کہ مستحب ومسنون ،کیا قربانی نہ کرکے اس کی رقومات سے ہی سے غرباء ومساکین کی مدد کی جاسکتی ہے ؟ کیا قربانی کے بعد قربانی دینے والا اس قدر غریب ومسکین ہو جاتا ہے کہ پھر وہ غرباء ومساکین کی اعانت کی سکت نہیں رکھتا ؟ کیا قربانی نہ دے کر غرباء کی مددکرنا زیادہ اجر وثواب کی بات ہے؟ ، بات یہ ہے کہ فرض اور واجب کا درجہ سنت ونفل سے بڑھ کر ہوتا ہے اور وجوب کو ترک کرتے ہوئے سنت پر عمل نہیں کیا جاسکتا جو کہ خلاف شریعت ہے ،چونکہ قربانی واجب ہے اور بلا عذر اس کا ترک گناہ اور سخت پکڑ کا باعث ہے ،اس لئے یہ کہنا کہ قربانی کے بجائے اس کی رقم سے غربا کی اعنات کرنا چاہئے یہ ایک بے جا سوال ہے ، یہ ایک دھوکہ اور قابل ترک خیال ہے ،حقیقت میں یہ شیطانی چال ہے جس سے بچنا ضروری ہے ،نیز جو لوگ وائرس کو بہانا بناکر اور قربانی کو وبائی مرض کے پھیلنے کا گمان کر رہے ہیں انہیں بھی معلوم ہونا چاہئے کہ زندگی کا ہر کام آدمی احتیاط کے ساتھ انجام دے رہا ہے تو پھر قربانی تمام تر احتیاط کے ساتھ انجام نہیں دی جا سکتی ؟،کیا وائرس سے بچنے کی تمام تدبیروں کو روبہ عمل لاتے ہوئے قربانی نہیں کی جا سکتی ہے؟ ،اگر کی جا سکتی ہے تو پھر قربانی پر خدشات کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے اور اسے روکنے کی بات کیوں کی جارہی ہے ،یہ وائرس کے بہانے ایک عظیم عبادت سے روکنے کی سازش ہے اور اس سازش میں اسلام دشمنوں کے علاوہ آزاد فکر وذہن رکھنے والے اور خود کو اسلامی اسکالر بتانے والے مسلمان بھی شامل ہیں ، مسلمان باخبر رہیں اور قربانی کے سلسلہ میں کسی بھی تساہل سے کام نہ لیں اور سوشل میڈیا ہو یا کسی بھی طرح کی اطلاعات پر بھروسہ نہ کریں ،بلکہ انتہائی صفائی ستھرائی اور بڑے احتیاط کے ساتھ قربانی کریں ،محلوں میں مسجد وار کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے نوجوانوں کو تیار کریں اور صفائی کے کام پر انہیں مامور کریں اور اعتراض کرنے والوں کے منہ پر زور دار طماچہ رسید کریں ، یہ بات یاد رکھیں کہ قربانی کی استطاعت رکھنے والے ہر صاحب استطاعت کے لئے قربانی دینا واجب ہے ،اس کا کوئی بدل نہیں ہے ،اگر خدا نخواستہ سخت پابندی عائد ہوجائے اور پوری کوشش کے باوجود کہیں بھی قربانی نہ کر سکے تو ایام قربانی کے گزرجانے کے بعد اس کی رقم کا صدقہ کرنا وجب ہوگا ۔

٭٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×